گوادر کے لوگ، کلچر اور تہذیب


گوادر کے لوگ بنیادی طور پر سادہ طبیعت کے ہیں۔ گوادر کے اکثر لوگ مچھلی کے کاروبار، ٹرانسپورٹ اور اس کے علاوہ گوادر اور ایران کے مابین ہونے والی تجارت سے وابستہ ہیں۔ گوادر پورٹ پر ایران سے آنے والی لانچیں لائن سے کھڑی نظر آتی ہیں جو ایران سے تجارتی اغراض مقاصد کے تحت بے شمار چیزیں لے کر آتی ہیں۔ گوادر میں غریب مچھیروں کی آبادیاں بھی ہیں جو دن بھر محنت مزدوری کے کام کرتے ہیں اور رات کو لانچیں لے کر گہرے پانیوں کی جانب نکل جاتے ہیں تاکہ عمدہ قسم کی مچھلیاں پکڑی جاسکیں، یہ مچھلیاں فریز کر کے ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔ گوادر میں مچھلیوں کی عمدہ اقسام ملتی ہے، خاص طور پر گور مچھلی گوادر کی بے حد ذائقہ دار اور مہنگی ترین مچھلی ہے، وہاں رہتے ہوئے اکثر یہ مچھلی کھانے کا اتفاق ہوا۔

گور مچھلی کا گوشت عام مچھلی سے مختلف ہوتا ہے اندر سے بالکل سفید اور کانٹوں کے بنا، اگر اس مچھلی کو عام شوربے والے سالن میں پکایا جائے یا پھر اس کی بریانی یا کباب بنائے جائیں تو بے حد عمدہ بنتے ہیں۔ گوادر کے غریب لوگ پورٹ پر موجود یوریا کھاد بھرنے کی مزدوری بھی کرتے ہیں جس سے ان کے ہاتھوں میں ایگزیما ہوجاتا ہے۔

گوادر میں خریداری کے لیے جنت بازار، دشتی مارکیٹ اور فاضل چوک موجود ہیں۔ ان بازاروں میں ایران سے آئی ہوئی اشیاء سستے داموں ملتی ہیں۔ ایران کے بسکٹ، کیک، ٹافیاں، ڈبہ پیک سبزیاں، مچھلی، ایرانی دودھ، ایرانی کمبل، ایرانی کراکری، ایرانی آئسکریم، ایرانی کولڈ ڈرنکس اور مشروبات دستیاب ہیں۔ ایرانی مصنوعات پر لکھی ہوئی چیز خراب ہونے کی تاریخ گوادر کے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے وہ جس زبان میں لکھی ہوتی ہے۔ اسے ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ ڈبوں میں پیک ایرانی لسی اور ایرانی دودھ گوادر کے لوگ بہت شوق سے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان مصنوعات کو کھولنے اور استعمال کرنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ ان کے استعمال کی تاریخ گزر چکی ہے۔

گوادر شہر کے لوگ خوشبو اور عطریات کا استعمال بے حد ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ گوادر میں پرفیومز، عطریات اور باڈی اسپرے کی کئی ایک دکانیں موجود ہیں جہاں مسقط، عمان اور دبئی کے باڈی اسپرے، پرفیوم، عطریات اور میک اپ کا سامان کثرت سے دستیاب ہے۔ گوادر کے لوگ گھروں میں خوشبو کے لیے کوئلے جلا کر بخور کا استعمال کرتے ہیں تاکہ پورا گھر خوشبو سے مہک جائے۔ گوادر شہر میں عمان اسٹور کی دو شاخیں ہیں۔ یہ اسٹور دراصل ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے جہاں دنیا جہاں کی چیزیں دستیاب ہیں۔

جی ڈی اے اسکول کے اساتذہ ہر ہفتے کے اختتام پر جب اسکول کی گاڑی شاپنگ کے لیے جاتے، عمان اسٹور، جنت بازار اور فاضل چوک سے ضرور خریداری کیا کرتے تھے۔ گوادر میں دستیاب سبزیاں اور پھل کیونکہ کراچی سے آتے ہیں اس لیے ان کی تازگی برقرار نہیں رہتی، گوادر میں سبزیاں اور پھل مہنگے داموں ملتے ہیں، ان کی بہ نسبت سستی والی مچھلی لوگوں کی عام غذا ہے۔ مچھلی کا پیٹ کاٹ کر اندر کی صفائی کردی جاتی ہے جبکہ مچھلی کا منہ، دم اور چھلکے موجود رہتے ہیں۔

عام طور پر مچھلی والے مچھلی کو محفوظ کرنے کے لیے اس پر نمک لگا دیتے ہیں۔ یہ مچھلی دھو کر اسی طرح ڈیپ فرائی کی جاتی ہے۔ تیز آنچ پر تلی ہوئی، کرسپی مچھلی کا ذائقہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہ مچھلی عام طور پر ابلے ہوئے چاول اور آلو کی طہاری اور چھولے کے پلاؤ کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ گوادر شہر میں روٹی پکانے کا رواج ذرا کم ہے۔ عام طور پر لوگ روٹی کی جگہ چاول کھاتے ہیں لیکن اگر دستیاب ہو تو ہوٹل سے روٹی خرید لیتے ہیں۔

اس حوالے سے گوادر کے لوگ ایران سے متاثر نظر آتے ہیں۔ گورنمنٹ کے اداروں، اسپتالوں، اسکولوں، نادرا کے آفس، پاسپورٹ آفس، جی ڈی کے آفس میں تربت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت ہے۔ تربت کے لوگ عام طور پر کراچی، اسلام آباد، لاہور اور کوئٹہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ تربت بلوچستان کا ایک بڑا شہر ہے جہاں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے۔ اس لیے تربت کے لوگ زیادہ تر گوادر کے اداروں سے منسلک ہیں۔ تربت گوادر سے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ تربت کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے مختلف شہروں میں ذمے داریاں نبھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

گوادر میں غریب عوام پرانی اور سستی موٹر سائیکلیں استعمال کرتے ہیں جبکہ شوقین مزاج لڑکے ایران سے درآمد اسپورٹس بائیک پر نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ کے اداروں سے وابستہ لوگوں کے پاس مہنگی ترین کاریں، جیپیں اور ڈاٹسن ہیں جو گوادر سے کراچی آمدورفت کے لیے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ گوادر میں سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے ڈالوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ڈالے کراچی یا ایران کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔

گوادر شہر میں خواتین کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تمام کام گھر بیٹھے انجام پا جاتے ہیں۔ اگر بینک اکاؤنٹ کھلوانا ہو تو اس کے لیے بھی بینک کا نمائندہ گھر آ کر یا ادارے میں آ کر خواتین سے فارم فل کروا کر لے جاتا ہے۔ پیسے نکلوانے کے لیے عام طور پر خواتین کو بینک جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ حتیٰ کہ اگر اپنا اے ٹی ایم کارڈ کالج کے ڈرائیور کو دے کر کہا جائے کہ اتنے پیسے نکلوا کر لادو تو وہ انتہائی ایمانداری سے پیسے نکلوا کر لا دیتے تھے۔

بل جمع کروانے کے لیے کسی پیون کو دے دیا جائے تو انتہائی خوشدلی سے اسی شام بینک میں جمع ہوجاتا اور دوسرے دن رسید کے ساتھ بقایا پیسے مل جاتے۔ گوادر کی خواتین سیاہ عبایہ میں ملبوس نظر آیا کرتی تھیں۔ عام طور پر نقاب لگاتی تھیں۔ کچھ خواتین بلوچی لباس پر بڑی سی ایرانی چادر لیے نقاب لگائے شاپنگ کرتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ ایک دفعہ میں نے جی ڈی اے اسکول کی ایک استاد سے سوال کیا کہ آپ نے اتنا خوبصورت بلوچی لباس پہنا ہوا ہے۔ اس پر اس کی میچنگ کا دوپٹہ کیوں نہیں لیا۔ چادر کیوں اوڑھی ہوئی ہے؟ اس پر اس خاتون نے جواب دیا کہ ہم ہر لباس کے ساتھ میچنگ دوپٹہ بنواتے ہیں مگر گھر سے باہر نکلتے ہوئے ہم ہمیشہ چادر کا استعمال کرتے ہیں دوپٹوں کا استعمال گھروں تک یا پھر خواتین کی محفل تک محدود ہے۔ گوادر کی خواتین پہننے اوڑھنے کی شوقین تھیں۔ ایرانی جیولری کا کثرت سے استعمال کرتی تھیں۔ میک اپ کی ازحد شوقین تھیں۔ شادی شدہ خواتین اپنی آرائش و زیبائش کا حد سے زیادہ خیال رکھا کرتی تھیں۔

لڑکیاں عام طور پر سادہ نظر آئیں مگر شادی بیاہ کی تقریبات میں ان لڑکیوں کی تیاری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ عام طور پر خواتین اور مردوں کے لیے علیحدہ علیحدہ انتظام موجود ہوتا تھا۔ گوادر شہر میں ڈھونڈنے سے بھی بمشکل ایک آدھ بیوٹی پارلر نظر آیا۔ حالانکہ زیادہ تر خواتین تھریڈنگ، فیشل وغیرہ کرواتی تھیں۔ گوادر میں تھریڈنگ کا کام گھروں میں ہی انجام دیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں ایک عام رواج ہے کہ شادی کے وقت دلہن کے پورے چہرے کی تھریڈنگ کی جاتی ہے تاکہ دلہن حسین اور خوبصورت نظر آئے۔

بلوچ کلچر شادی کے حوالے سے بے حد مختلف ہے۔ یہاں پوری شادی کا خرچہ لڑکے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ لڑکی کے ملبوسات، زیور، دعوت کا کھانا، فرنیچر، تمام چیزوں کا انتظام لڑکا کرتا ہے۔ حتیٰ کہ لڑکی کے گھر میں جو دعوت ہوتی ہے اس کے دعوت کا تمام انتظام بھی لڑکے کے ذمے ہوتا ہے۔ شادی کرنے کے لیے لڑکے کو جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ بلوچ کلچر میں اگر مرد امیر ہو اور دو شادیوں کا خرچہ برداشت کرسکے تو دوسری یا تیسری شادی کو بھی برا تصور نہیں کیا جاتا۔ بلکہ صاحب حیثیت مرد سے کنواری لڑکیاں بھی دوسری یا تیسری شادی کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔

گوادر میں اکثر مردوں، خاص طور پر مزدوروں، ڈرائیوروں اور ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ لوگوں میں پان، گٹکا، نسوار، چھالیہ اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال عام ہے۔ گوادر شہر میں کئی قدیم مساجد موجود ہیں اس کے علاوہ وہاں، ہائی کورٹ کی ایک اچھی عمارت موجود ہے جہاں مقدمات کی باقاعدہ شنوائی ہوتی ہے۔

گوادر میں مردوں کا فیشن بے حد گھیر دار شلوار پر اونچی گول دامن کی عوامی قمیض ہے۔ بازار میں اکثر مرد کاندھے پر رومال یا صافہ لیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جبکہ خواتین بلوچی کڑھائی کی پشک، شلوار اور چادر میں ملبوس نظر آتی ہیں۔ گوادر میں عام طور پر لوگ اردو بولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر کہیں کہیں سلیمانی اور مکرانی لہجے کے لوگ بھی موجود ہیں۔ گوادر میں، پسنی، جیوانی، اڑماڑہ، تربت، پنجگور، مند، دشت اور لسبیلا کے لوگ مختلف محکموں اور کاروبار سے وابستہ ہیں۔ حتی کہ جی ڈی اے اسکول میں بھی ان علاقوں کے طلبہ موجود ہیں۔

گوادر کے لوگ فنون لطیفہ کے شوقین ہیں، پینٹنگز اور کتابوں کی نمائش کا ہر سال اہتمام کیا جاتا ہے، حتی کہ جی ڈی اے اسکول میں بھی ایک آرٹ ٹیچر فاروق موجود ہیں جو آٹھویں جماعت تک کے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارتے ہیں۔ اور جب تک میں وہاں موجود رہی کئی دفعہ طلبہ صوبائی اور پاکستان کی سطح پر آرٹ کے مقابلوں میں انعام جیت کر لائے بلا شبہ یہ سر فاروق کی محنت تھی۔ ہارمونیم پر رات رات بھر مرد حضرات کے لیے موسیقی کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔ مرد حضرات پکنک منانے مختلف ساحلوں، درختوں کے نیچے یا کوہ باطل کی بلندی پر جاتے ہیں جہاں کھانا پکانے کے تمام لوازمات لے کر جاتے ہیں، ہارمونیم کے ساتھ ایک گلوکار بھی ہوتا ہے تاکہ پکنک کا بھرپور لطف اٹھایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments