بوسنیا کی چشم دید کہانی 26


ہمارے فرائض کا ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ ہر شفٹ میں ایک گشتی ٹیم ڈیوٹی کے آغاز اور اختتام کے وقت مقامی پولیس اسٹیشن کا دورہ کرے اور ڈیٹن سمجھوتے کے تحت دیے گئے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے حوالات کا معائنہ کر کے یہ دیکھے کہ وہاں کسی ایسے شخص کو تو بند نہیں رکھا گیا ہے، جس کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہ ہو، یوں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہو۔ مقامی پولیس اس تعاون کے لیے کسی طور آمادہ نہ تھی کیوں کہ ایسا تعاون ان کے بقول ان کی آزادی اور خودمختاری کے منافی تھا۔

ہمارے گورے ساتھی یا تو اس دلیل کے قائل تھے یا پھر کوئی اور مصلحت تھی کہ وہ اس مشق کو عملی جامہ پہنانا کچھ ضروری خیال نہ کرتے تھے۔ شروع شروع میں اتنی زحمت بہر حال ضرور گوارا کر لی جاتی کہ مقامی پولیس اسٹیشن کا ایک چکر لگا کر ڈیوٹی افسر کا نام نوٹ کر لیا جاتا، پھر اسے جلی حروف میں گشت نامے میں درج کیا جاتا، تا کہ اس کی صحت پر شبے کی گنجائش نہ رہے۔ گوروں کے مقابلے میں اردو مافیا ( یہ پاکستانی، انڈین اور نیپالی مانیٹروں کو گوروں کی طرف سے دیا گیا نام تھا) اپنی دیسی چالاکی دکھاتے ہوئے ان معلومات کو زیادہ باوثوق بنانے کے لیے ڈیوٹی افسر کے ساتھ ساتھ اس کے معاون اور گارڈ ڈیوٹی پر موجود سپاہی کا نام بھی نوٹ کرتا تھا۔

مزے کی بات یہ تھی کہ اردو مافیا یہ ساری معلومات ترجمان کی مدد سے اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے فون کی مدد ہی سے حاصل کر لیتا تھا۔ بعد میں اقبال کی نشان دہی پر جب انھوں نے گشت ناموں کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ڈیوٹی افسر اور دوسری ڈیوٹیاں سرانجام دینے والے ناموں پر اگر غور کیا جائے تو یہ تو گنتی کے لوگ ہیں۔ دو تین دن کے وقفے کے بعد وہی نام پھر سامنے آ جاتے ہیں، لہٰذا فون کے ذریعے بھی یہ معلومات حاصل کرنا کار زیاں قرار دے دیا گیا اور اندازے سے گشت ناموں میں متعلقہ افسران کے نام درج کیے جانے لگے۔

کام چوری کے اس مہان دیسی نسخے کو جب اس طرح کامیابی سے استعمال کیا جاتا تھا تو شیوا اپنی وردی کے کالر کو چٹکی میں پکڑتے ہوئے بڑے نخرے سے یہ کہتا تھا، یہ سالا گورا لوگ ہوشیاری میں بھلا اپنا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے جی۔

ہمارے ساتھیوں میں زونووی کا گشت نامہ سب سے طویل اور اقبال کا مختصر ترین ہوا کرتا تھا۔ ذنووی کے گشت نامے کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ صورت حال کو کتنا ہی پر امن بیان کیوں نہ کرے اس کے مقطع میں یہ سخن گسترانہ بات ضرور شامل ہوتی تھی کہ صورت حال پر امن سہی لیکن کشیدگی اپنی جگہ قائم ہے۔ زونووی کے اس مخصوص اختتامی جملے کے حوالے سے جب اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا کہ راوی آخر مکمل چین کیوں نہیں لکھتا تو وہ مسکراتے ہوئے جواب دیتا کہ میرے 90 ڈالر یومیہ کو اگر کسی چیز سے خطرہ لاحق ہے تو وہ بوسنیا کا مکمل امن ہی ہے مجھے بوسنیا کے امن سے زیادہ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے جو یوکرائن جیسے نو آزاد اور کمزور معیشت والے ملک میں کچھ ایسا محفوظ نہیں ہے۔ لہٰذا برائے مہربانی بوسنیا کے امن کے حوالے سے مجھ سے اس جذباتیت کی توقع نہ رکھی جائے جس کا مظاہرہ آپ کو امریکی اور مغربی یورپی افسران کے ہاں مل سکتا ہے۔

اس دوران سٹولک اسٹیشن سٹاف میں مزید چھ افسران کا اضافہ ہوا ان میں سے دو کا تعلق سپین سے، دو کا اردن سے اور دو کا انڈیا سے تھا۔ ہسپانوی افسر مینوئیل اور فرانسسکو دونوں میانہ قد تھے۔ مینوئیل نوجوان اور غیر شادی شدہ تھا۔ اس کی تمام گفت گو کا مرکز و محور ماسوائے جنس کے کچھ نہ ہوتا تھا۔ اس کے بقول اس کا بوسنیا میں یو این مشن کے ساتھ کام کرنے کا محرک بھی جنسی جذبہ ہی تھا۔ دراصل اسے اپنی گرل فرینڈ کو بیوی بنانے کے لیے جو رقم ایک علیحدہ گھر بنانے کے لیے درکار تھی، اس کا اس سے بہتر کوئی وسیلہ ممکن نہ تھا۔ وہ کمپیوٹر کی بہت اچھی جان کاری رکھتا تھا، جس کی وجہ سے DOR

(Daily Occurrence report )

کی تیاری اور ترسیل کا کام اسے سونپ دیا گیا۔ مینوئیل کے مقابلے میں فرانسسکو کم گو اور سنجیدہ واقع ہوا تھا۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک شریف آدمی تھا جس کی ساری توجہ صرف اور صرف اپنے کام پر ہوتی تھی۔ اس کی خانگی زندگی خوش گوار نہ رہی تھی اور اس کی بیوی اس سے علیحدگی حاصل کر چکی تھی۔ اس کی ایک 9 سالہ بچی تھی۔ وہ اپنے پرس میں موجود اس کی تصویر ہر ایک کو بڑے شوق سے دکھاتا تھا۔ اس دوران اس کے جو تاثرات ہوتے تھے وہ اس کے چہرے کی معصومیت کو کچھ اور نکھار دیتے تھے۔

نئے ساتھیوں میں سلطان اور مراد کا تعلق اردن سے تھا۔ سلطان بلا کا حسن پرست تھا۔ اس کی ساری توجہ کا مرکز ساشکا اور لوینیا تھیں۔ اب ساشکا اور لوینیا چونکہ گہری دوست تھیں لہٰذا یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ان میں سے سلطان کی گہری دوست کون ہے۔ اکثریت کا اندازہ تھا کہ سلطان کی اصل دلچسپی ساشکا میں ہے لیکن جب بات کھلی تو معاملہ اس کے کچھ ایسا برعکس نکلا کہ بہت سوں کو حیران کر گیا۔ اس حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو ساشکا لوینیا کے مقابلے میں زیادہ خوب صورت تھی اور دوسرے لوینیا مکمل طور پر ایک کھلنڈری طبیعت کی مالک لڑکی تھی۔ عشق کے لیے اس کی طبیعت اتنی ہی موزوں تھی جتنی ہماری نوکر شاہی کی طبیعت عوامی خدمت کے لیے۔ لیکن جب کواکب بازی گری دکھانے لگیں تو اہل تماشا ایسے دھوکوں کا شکار ہو ہی جاتے ہیں۔

سلطان کے مقابلے میں مراد انتہائی مختلف طبیعت کا مالک تھا۔ سٹولک تو کیا IPTF کی تقریباً دو ہزار کی فورس میں شاید ہی کوئی ایسا افسر ہو گا جو اس جتنا غیر مہذب ہو۔ صوم و صلوۃ کا پابند یہ مسلمان کچھ ایسا خودبین تھا کہ مسلمان ساتھیوں سے بھی فاصلے پر رہتا تھا۔ اس کا یہ رویہ ہمارے لیے غیر مسلموں کے سامنے اکثر باعث خفت بنتا تھا۔ زندگی میں مراد کی طرح ایسے کئی عبادت گزاروں سے واسطہ پڑا جن کی طرز معاشرت کو دین سے یکسر متصادم پایا۔ یوں چرخ نیلی فام سے پرے منزل مقصود رکھنے والے مسلمان عالم رنگ و بو میں خال خال ہی ملے۔

شیام سندر اور ایشور سنگھ دونوں انڈین ساتھی تھے جو ستمبر کے آخر میں سٹولک آئے۔ دونوں کا تعلق ریزرو پولیس سے تھا۔ شیام سندر کا تعلق ہماچل پردیش سے تھا ایس ایس پی کے عہدے کا افسر تھا۔ ایشور سنگھ ایس پی تھا اور اس کا تعلق ہریانہ سے تھا۔ شیام سندر براہ راست ڈی ایس پی بھرتی ہوا تھا جب کہ ایشور سنگھ سپاہی کے عہدے سے ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچا تھا۔ شیام سندر نہایت سمجھ دار اور معاملہ فہم افسر تھا۔ ہماری نو ماہ کی رفاقت کے دوران اس نے انڈو پاک تعلقات کی تلخی کے حوالے سے کبھی اشارتاً بھی کوئی بات نہیں کی تھی جبکہ ایشور سنگھ کا معاملہ یک سر مختلف تھا۔

شروع شروع کے دنوں میں اس نے روایتی ہندو ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انڈو پاکستان کی تہذیبی یک جہتی کی بات کی اور کہا کہ ہمارے درمیان اگر کوئی فرق ہے تو بس واہگہ کی لکیر کا وگرنہ تو ہم ہر لحاظ سے ایک ہیں، میں نے عرض کی ایشور جی آپ جس تہذیبی یک جہتی کی بات کر رہے ہیں اس میں رنگ، لباس اور زبان کافی حد تک ایک ہونے کے باوجود نہ معلوم مذہبی حوالہ اتنا مضبوط کیوں ہے کہ متحدہ ہندوستان کے ریلوے اسٹیشنوں پر ہندو پانی اور مسلمان پانی کی علیحدہ علیحدہ سبیلیں پائی جاتی ہیں اور جب یہ حوالہ واہگہ کی بین الاقوامی سرحد کی بنیاد بنا تو آپ کے نزدیک یہ بس ایک لکیر ٹھہری۔

ایک بات میری سمجھ سے بالا ہے کہ ایک طرف تو آپ کے خیال کے مطابق یہ سرحد صرف ایک لکیر ہے تو دوسری طرف اسے مضبوط بنانے کے لیے خاردار باڑ کا تحفظ بھی آپ ہی فراہم کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ایشور سنگھ کا علم چونکہ آکاش وانی ریڈیو کے پروگراموں میں نشر کی جانے والی پروپیگنڈا معلومات ہی تک محدود تھا، لہٰذا اس سے مناسب جواب نہ بن پڑا اور خاموش ہو گیا۔

ایشور سنگھ نے جب یہ بات چھیڑی تھی تو وہ ابھی نیا نیا ہی سٹولک آیا تھا لہٰذا پہلے تو یہ خیال آیا کہ اس کے خیالات کو نظر انداز کر دیا جائے تا کہ تعلقات کا آغاز غیر دوستانہ انداز میں نہ ہو لیکن اسے غالب کے الفاظ میں یہ جواب کہ

ع۔ تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
کارگر ثابت ہوا اور وہ آئندہ کے لیے محتاط ہو گیا۔

ایشور سنگھ ایک ایسا افسر تھا کہ جس کی ماتحتانہ سوچ کے لیے نہ تو ایس پی کا عہدہ اور نہ ہی یو این مشن کوئی خطرہ ثابت ہو سکتے تھے۔ وہ اپنا سامان جس صندوق میں لایا تھا یہ وہی صندوق تھا جو سپاہیوں کو کٹ باکس کے طور پر جاری کیا جاتا ہے، جس پر نشان دہی کی غرض سے نام اور کانسٹیبلری نمبر جلی حروف میں لکھ دیا جاتا ہے۔ یہ صندوق اسے کچھ نہیں تو بیس پچیس سال پہلے ملا ہو گا لیکن آج بھی یہ اس کے زیر استعمال تھا۔ آج بھی اس کی من پسند خوراک پتلی دال اور آلو کا شوربہ تھی۔

وہ بلا کا کام چور تھا۔ وہ زیادہ تر نیپالی افسران کے ہمراہ گشت پر نکلنے کو ترجیح دیتا تھا جو اسے اسٹیشن سے نکلنے کے بعد سیدھے گھر پر چھوڑ دیتے تھے پھر ڈیوٹی کے اختتام کے وقت دوبارہ گاڑی میں بٹھا کر اسٹیشن لے آتے تھے۔ ڈیوٹی کا سارا وقت گھر پر سو کر گزارنے کے باوجود وہ گشت نامہ ایسا تیار کرتا تھا کہ اس کے سامنے رامائن اور مہا بھارت کی داستانیں بھی پھیکی دکھائی دیتی تھیں۔ ولاڈی اس کی تحریر سے بہت متاثر تھا۔ کہا کرتا تھا کہ وہ گشت کیا ہوتی ہو گی جس کی روداد ایسی بھرپور ہو۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ ماہ ستمبر کے دوران انتخابات کی وجہ سے ماہانہ چھٹی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ستمبر کے آخر میں یہ پابندی ہٹا دی گئی اور ہم نے بڈاپسٹ اور پراگ کی یاترا کا ارادہ باندھا۔ اس ارادے کی تکمیل کے لیے اکتوبر کے پہلے ہفتے کے دوران ہی چھٹی منظور کروا لی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments