مثبت سوچ کا جادو اور ہماری نفسیات


ہماری سوچ کا ہماری شخصیت پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ہم وہی بنتے ہیں اور ویسا ہی ہمارے ساتھ ہوتا ہے جیسا اور جو ہم سوچتے ہیں۔ ہماری سوچ کا عمل دخل ہماری زندگی میں سانس لینے جیسا ہے۔ جیسے سانس لئے بنا ہم زندہ نہیں رہ پاتے بالکل اسی طرح سوچے بغیر ہم کچھ کر نہیں پاتے۔

ہماری سوچ کا مثبت ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ جتنا ہم منفی سوچیں گے ہماری زندگی اسی قدر مشکل بنتی جائے گی۔ اس کی عام سی مثال یہ ہے کہ اگر ہم کسی کے بارے میں منفی سوچیں اور ہر وقت زہر اگلتے رہیں تو اس شخص کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوتے جائیں گے آخر ایک دن ختم ہو جائیں گے۔ ہمارا برا گمان ہمیں لوگوں سے دور کر دے گا۔ کیونکہ جیسا ہم سوچتے ہیں ویسا ہی ہم بن جاتے ہیں اور جیسے ہم ہوتے ہیں ویسا ہی ہم دوسروں کو بھی سمجھتے ہیں۔ بس یہیں سے خرابی پیدا ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے کئی مسائل جنم دیتی ہے۔

اگر کوئی آپ کو کہہ دے کہ یہ رنگ آپ پر بہت سج رہا ہے یا آج تو آپ کمال لگ رہے ہیں تو یقین کریں کہ ایسے لفظوں کا نفسیاتی اثر ہوتا ہے نتیجتاً آپ خود کو پراعتماد محسوس کرنے لگتے ہیں اور اس کے علاوہ آپ کا موڈ بھی یک اچھا ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر آپ کوئی کام شروع کرنے لگیں اور کوئی اس وقت اس کام میں نقص نکال دے یا کچھ منفی بول دے کہ یہ کام تمہارے بس کا نہیں ہے تو آپ کا دل متنفر ہو جائے گا لاشعوری طور پر وہ کام بگڑ جائے گا۔ کیونکہ ان منفی لفظوں کے اثر یا تاثر آپ کو چاروں طرف سے گھیر لے گا جس کی وجہ سے آپ وسوسوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنا اعتماد کھو دیتے ہیں۔ پھر نتیجہ وہی ہو گا جو عموماً نکلتا ہے یعنی مایوسی اور ناکامی۔

ہمارا بولا ایک ایک لفظ جادو کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ الفاظ ہی ہیں جو ہمارے دل میں اتر جاتے ہیں یا پھر دل سے اتار دیتے ہیں۔

اسی طرح اگر ہم کسی چھوٹے بچے سے کہیں کہ آپ تو بڑے ذہین ہو یا آپ کی لکھائی بہت اچھی ہے یا استاد شاباش دے دے کہ واہ آپ بہت عمدہ کام کرتے ہو ’جماعت میں تمام طلباء کے سامنے بچے کی تعریف کر دے کہ آپ کو تو آتا ہے۔ یقین کریں ان معمولی باتوں کا بچوں کی نفسیات پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے حالانکہ استاد کہہ کر بھول جاتا ہے لیکن وہ بچہ ہمیشہ یاد رکھتا ہے اور انھی لفظوں کی گہرائی کی وجہ سے اس بچے میں نمایاں تبدیلی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔

اس کے برعکس اگر کسی بچے کو کہہ دیا جائے کہ تم یہ کام کر ہی نہیں سکتے‘ یہ تمھارے بس کی بات ہی نہیں ہے ’میرا بچہ تھوڑا پڑھائی میں یا ریاضی میں کمزور ہے‘ شرمیلا ہے ’تم انتہائی نکمے اور نالائق ہو‘ تم جیسا لاپروا کوئی نہیں ہے یا یہ کہ فلاں بچہ بڑا ذہین ہے وغیرہ وغیرہ غرض اس طرح کی باتیں بچے کے معصوم ذہن میں پنجے گاڑ لیتی ہیں اور لاشعوری طور پر اس کی شخصیت کو مسخ کر دیتی ہیں۔

بالکل اسی طرح ڈاکٹرز کو مسیحا سمجھا جاتا ہے۔ بے شک شفا اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے لیکن معالج وسیلہ بنتا ہے۔ جب ایک مریض اپنی بیماری یا تکلیف سے تنگ آ کر یا پریشان ہو کر ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو اگر ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ڈاکٹر آگے سے کہے کہ آپ کا مرض آخری اسٹیج پر ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے یا یہ مرض لاعلاج ہے ’یہ بیماری جان لیوا ہے‘ آپ کچھ ہی دنوں کے مہمان رہ گئے ہیں تو آپ یقین کریں کہ مریض کی حالت مزید خراب ہو جائے گی وہ مایوسی کی حد تک پہنچ جائے گا۔

بے شک زندگی اور موت اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے اور اس کا وقت مقرر ہے لیکن وہ منفی سوچ سوچ کر ہی مر جائے گا بلکہ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہی اس کی حالت بری ہو جائے گی۔ اس کے برعکس اگر ڈاکٹر بڑے اطمینان سے مریض کی بات سنے اس کا معائنہ کرے ’اپنائیت سے بات کرے اور کہے کہ آپ کا مرض کافی بگڑ گیا ہے لیکن آپ بڑے صحیح وقت پر آ گئے ہیں‘ بہت جلد آپ صحت یاب ہو جائیں گے۔ پریشانی یا گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں تو آپ دیکھیں گے کہ ان الفاظ کا جادوئی اثر ہو گا جو مریض کو جلد صحت یابی کی طرف لے آئے گا۔

ایک واقع ہے کہ لندن میں آپریشن سے پہلے مریض کے کمرے میں ایک نرس داخل ہوئی دراصل وہ ہسپتال کی ماہر نفسیات تھی اس نے گلدان ٹھیک کرنے کے بہانے مریض سے بات چیت شروع کی اور ڈاکٹر کا نام پوچھا جو آپریشن کرنے والا تھا۔ کیونکہ وہ خاتون نفسیات کی ماہر تھی لہذا اس نے کہنا شروع کیا کہ واہ کمال کی بات ہے یہ ڈاکٹر تو بہت قابل ہے اور بہت کامیاب سرجن ہے آج تک جتنے آپریشن کیے سب کامیاب ہوئے ہیں۔ اس ڈاکٹر کا وقت ملنا تو بہت بڑی بات ہے۔

آپ تو بڑے قسمت والے ہیں کہ ان ڈاکٹر سے آپریشن کروا رہے ہیں۔ اب جو مریض کچھ دیر پہلے اپنی سوچوں میں گم تھا اور کئی منفی سوچیں اسے گھیرے ہوئی تھیں ایک دم سے مطمئن ہو گیا کہ واقعی وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اس کا ڈاکٹر بہت قابل ہے۔ اس کا آپریشن ضرور کامیاب ہو جائے گا اور وہ زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔ یہ ہوتی ہے لفظوں کی طاقت جو دوسروں کی سوچ کو ان کے خدشات کو یکسر بدل کر رکھ دیتی ہے۔

اسی طرح جب کسی بچے کو چوٹ لگتی ہے تو اکثر ہم کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوا ’معمولی سی چوٹ ہے ابھی ٹھیک ہو جائے گی اور اکثر مائیں پیار کرتی ہیں تو بچے ٹھیک ہو جاتے ہیں یا رونا بند کر دیتے ہیں۔

الفاظ کا اور نفسیات کا گہرا تعلق ہے لہذا لفظوں کا چناؤ بہت احتیاط سے کریں کیونکہ یہ الفاظ ایسی کرامات دکھاتے ہیں کہ ہم ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان میں کسی کی زندگی بدلنے کی طاقت ہوتی ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک دفعہ بولے گئے الفاظ کبھی واپس نہیں آتے نہ ہی لئے جا سکتے ہیں بس پھر ان کے اثرات ہی ہماری اور دوسروں کی زندگیوں میں مرتب ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments