قومی دھارا اور اقلیتیں؟


”قومی دھارا“ عرصہ دراز سے زیر بحث ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اقلیتیں مخلوط طرز انتخاب یا متناسب نمائندگی یا موجودہ سلیکشن سسٹم سے قومی دھارے میں ہیں اور جدا گانہ انتخابات سے قومی دھارے سے جدا ہو جاتی ہیں۔ انتخابی سسٹم پر بحث کرنے سے پہلے اگر ہم قومی دھارا کی تعریف کو سمجھ لیں تو بہتر ہو گا کہ قومی دھارا ہے کیا؟ انگریری میں قومی دھارے کا مطلب ہے۔ ”National stream“ یعنی ایک مرکز میں سب کا اکٹھا ہونا یا جمع ہونا۔

اور حکومتی امور میں بھر پور کردار ادا کرنا، بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب برابر کے شہری اور برابری کے حقوق حاصل ہونا، چاہے وہ حکومتی امور ہوں، سیاسی حقوق، مذہبی آزادی کے حقوق، سماجی، معاشی اور معاشرتی حقوق یعنی ہر طور پر وہ مکمل آزاد ہوں اور ان سے کسی بھی قسم کا امتیاز نہ برتا جائے۔ آسان لفظوں میں سمجھنے کے لئے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر سن لیں جو انہوں نے 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں کی، کہ پاکستان میں آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔

آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اقلیتیں ان تمام کسوٹیوں پر پورا اترتے ہیں۔ حکومتی امور میں ہمارا کردار کیا ہے۔ سیاسی سطح پر ، ہمیں اپنے ووٹ سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق بھی حاصل نہیں جو جمہوریت کا حسن ہے۔ اقلیتی نمائندے کئی بار یہ طعنہ سن چکے ہیں کہ یہ نشست انہیں خیرات میں دی گئی ہے۔ اور اقلیتی نمائندے خود اپنی کمیونٹی کو متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ ہم تمہارے ووٹوں سے قومی یا صوبائی اسمبلی میں منتخب نہیں ہوئے ہیں۔

قومی و صوبائی کی مخصوص نشستیں سلیکشن سے پر کرنا غیر جمہوری عمل ہے۔ رکن قومی یا صوبائی اسمبلی اپنی کمیونٹی کے لئے کام نہیں کرتے بلکہ اپنی منتخب کروانے والی سیاسی پارٹی کے منشور پر کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی نمائندہ اقلیتوں کے لئے قانون سازی نہیں کروا سکا سوائے کوٹہ سسٹم کے۔ قانون سازی یا حکومتی امور میں اقلیتی نمائندوں کی رائے تو دور کی بات، انہیں تو اتنا حق اور فنڈ نہیں دیا جاتا کہ آسمانی آفات کے وقت اپنے لوگوں کی کچھ مدد کر سکیں۔

ملک میں جب کبھی آسمانی آفات آتی ہیں تو اقلیتوں، خصوصاً مسیحیوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ یہ زکواۃ کا پیسہ ہے جو غیر مسلمز کے لئے نہیں۔ اگر کچھ بچ جائے گا تو پھر دوسروں کی باری آئے گی۔ مجبوراً مسیحیوں کی اپنی فلاحی تنظیمیں میدان میں آتی ہیں اور اپنی کمیونٹی کی مدد کرتی ہیں۔ حتی کہ افغانستان سے آئے ہوئے مسیحی مہاجرین کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ریاستی آئین کے مطابق اقلیتی رکن کسی بھی اعلیٰ حکومتی ادارے کا سربراہ، صدر یا وزیر اعظم یا آرمی چیف آف سٹاف نہیں بن سکتا۔

اور اقلیتوں کے سلیکٹڈ نمائندوں کی کار کردگی سب کے سامنے ہے۔ مذہبی آزادی کی تو بات ہی نہ کریں۔ کیونکہ مذہب ہی کی وجہ سے ہمارے ساتھ طرح طرح کا امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ 295 Cکا قانون اقلیتوں کی گردن پر ایسی لٹکتی ہوئی تلوار ہے۔ جس نے ہر مسیحی کو سہما رکھا ہے۔ اس قانون کی آڑ لے کر اکثریتی لوگوں نے بہت اقلیتی لوگوں کی جانیں لی ہیں۔ اور گستاخ رسول کی دھمکی کو لوگوں نے اپنا طرۂ امتیاز بنا لیا ہے اور اس دھمکی کو اتنا عام کر دیا ہے کہ ہر ایرا غیرا یہ دھمکی دے کر اور جھوٹا الزام لگا کر کسی کی بھی جان لے سکتا ہے چاہے وہ کوئی اقلیتی اعلیٰ افسر ہی کیوں نہ ہو۔

پاکستان میں ہزاروں لوگ غیر مسلم و مسلم توہین رسالت کے جھوٹے الزام کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ حال ہی میں کراچی کی عورت کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دینے کی پاداش میں اسے توہین رسالت کے جرم میں پھنسانے کی کوشش کی گئی۔ خدا نے اسے بروقت عقل و فہم و ہمت دی کہ اس نے اپنی سچائی کی ویڈیو بنا لی۔ الزام لگانے والا اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس جھوٹے ڈرامے نے بہت سے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری، اور کئی علماء اکرام نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔

آخر یہ جھوٹے الزام کب تک لگتے رہیں گے۔ خدا کے واسطے اس قانون کا ناجائز استعمال بند کریں۔ اور اقلیتوں کو بے موت مرنے سے بچائیں۔ اس ہراسانی کے چکر میں ہمارا ملک خود گھن چکر بن کر رہ گیا ہے۔ یہ ہراسانی اور پھر کہنا کہ ہم قومی دھارے میں شامل ہیں۔ ہم کیونکر قومی دھارے میں شامل ہیں۔ حالانکہ مسیحیوں کو اقلیتوں میں شمار کرنا سراسر زیادتی ہے۔ کیونکہ انہوں نے حصول پاکستان میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھلے متناسب نمائندگی انہیں دی جائے مگر ووٹ کا حق دیا جائے تاکہ ان کے نمائندے اپنی کمیونٹی کے سامنے جواب دہ ہوں۔ اور جس طرح مسلم علما کی مجلس شوریٰ ہے، اسی طرح مسیحیوں، ہندووں اور سکھوں کی بھی باقاعدہ رجسٹرڈ مجلس شوریٰ ہونی چاہیے تاکہ جب غیر مسلمز کے مذہبی معاملات کے لئے مشاورت درکار ہو تو ان مجالس سے اصلاح لی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments