مشرف دور پالیسیاں کراچی میں دوبارہ لانے کی تیاریاں؟


فوجی آمریت اور پاکستانی سیاسی آمریت میں صرف اتنا فرق ہے کہ فوجی حکومت میں ہر ادارے پر فوج کا کنٹرول ہوتا ہے جبکہ سیاسی حکومت میں ادارے سیاست دانوں کے رشتہ داروں اور خیرخواہوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں بلکہ ”آمریت“ میں بڑے اداروں میں کوئی ایک یا دو فوجی افسر تعینات ہوتے ہوں گے پالیسیاں یقیناً اپنی مرضی سے بناتے ہوں گے اس کے برعکس سیاسی حکومت میں سیاسی پارٹیوں کے رکن قومی و صوبائی اسمبلی حتیٰ کہ عہدیداران اپنے حلقہ انتخاب میں مرضی سے ادارے چلاتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اداروں کے تمام قواعد و ضوابط اور پالیسیاں طاق نسیاں ہو کر رہ جاتی ہیں۔

اس بات کی نفی کوئی نہیں کر سکتا کہ کراچی ملک کا معاشی حب ہے۔ جب کراچی چلتا ہے تو ملک چلتا ہے۔ جب کراچی کا تاجر امن و سکون کے ساتھ تجارت کرتا ہے تو ملک کی بڑی صنعتیں دوڑنے لگ جاتی ہیں۔ مشرف دور میں اختیارات کی تقسیم کا منصوبہ سب سے زیادہ کراچی کے حق میں رہا کیونکہ کراچی والے فیصلہ سازی میں اپنے آپ کو شریک سمجھتے تھے ان دنوں میں تعمیر بھی ہوئی ’ترقی بھی‘ امن بھی رہا۔ مقامی اداروں میں سبھی لسانی گروپوں کو نمائندگی میسر آئی۔

پہلے دور میں جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان ناظم تھے ’دوسرے میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال۔ دونوں کے کارناموں کو صرف اہل کراچی ہی نہیں بلکہ اہل پاکستان بھی یاد رکھتے ہیں۔ پھر جب سے سیاسی جماعتوں کی حکومتیں آئی ہیں‘ مقامی حکومتوں کے لئے الیکشن ہی نہیں ہوئے۔ شاید یہی بنیادی وجہ ہے کہ کراچی کے شہری آج بھی خود کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہیں محسوس کرتے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بروقت انتخابات اور با اختیار بلدیاتی حکومتوں کو یقینی بنایا۔

ان اقدامات کے نتیجے میں بلدیاتی حکومت کا ایک معقول نظام متعارف کروانے میں مدد ملی۔ اس سے شراکتی جمہوریت، نچلی سطح تک اہلیت سازی، کمزور طبقات کو با اختیار بنانے، حکومت میں خواتین کی شمولیت میں اضافے اور گراس روٹ سطح پر جمہوری روایات پروان چڑھانے میں مدد ملی۔ پرویز مشرف کے دور میں کراچی کو سٹی ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا گیا۔ تاہم ’جمہوری طور پر منتخب‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اسے دوبارہ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔

اگر موجودہ تقسیم کے اعتبار سے ہی انتخابات ہوتے ہیں تو کراچی میں 25 ٹاؤن ایڈمنسٹریٹر اور 233 یونین کمیٹیاں ہوں گی۔ ان انتخابات میں جو بھی اکثریت حاصل کرے گا اسے میئر کے انتخابات کے لیے بہت ہی پیچیدہ طریقہ کار کے ساتھ ساتھ کم اختیارات اور محدود ریونیو ذرائع کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان وجوہات کی بنا پر یہ سوچنا غلط فہمی ہوگی کہ منتخب بلدیاتی ادارے شہر کو درپیش پرانے مسائل کو حل کرسکیں گے۔ 18 ویں ترمیم کے باعث 2010 ء سے ہی صوبائی حکومت کو غیر معمولی وسائل فراہم ہوچکے ہیں۔

ان وسائل کے علاوہ صوبائی محکموں نے تمام شہری امور کا کنٹرول بھی سنبھالا ہوا ہے۔ یوں پانی کی فراہمی، سیوریج، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ، شہری منصوبہ بندی، ٹرانسپورٹ، اراضی کا انتظام، ہاؤسنگ اور انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ، صحت، تعلیم، اربن ایگریکلچر، صنعتی ترقی، ماحولیات، بلڈنگ کنٹرول اور ان جیسے دیگر کئی ادارے اور سہولیات اب صوبائی حکومت کے پاس ہیں۔ چند امور جن میں کچھ پارکوں، نالوں اور سڑکوں کا انتظام شامل ہے وہ کے ایم سی کے سپرد کئے گئے۔

اس وجہ سے ٹاؤن ایڈمنسٹریٹر اور یونین کمیٹیاں بہت ہی بنیادی نوعیت کے کام کرسکیں گی۔ پھر مالی طور پر زیر دست ہونے کا مطلب ہے کہ سیاسی اور مالی طور پر بھی ماتحت رہنا ہو گا۔ اگرچہ مالی وسائل کی دستیابی سے صوبے کو تو بہت فائدہ ہوا لیکن وہ فوائد شہر تک نہیں پہنچ سکے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے کراچی کے سرد موسم میں چلنی والی سیاسی سرد ہواؤں سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایک بار پھر کراچی کو مشرف فارمولے کے تحت چلانے کی تیاریاں شروع کردی گئیں ہیں۔

کراچی بلدیاتی انتخابات کے معاملے میں تاخیری حربے، مصطفیٰ کمال کا خالد مقبول صدیقی کے ساتھ بیٹھ جانا، ایم کیو ایم دھڑوں کا اچانک سے یکجا ہوجانا، کامران ٹیسوری کا اچانک گورنر سندھ بن جانا، ایڈمنسٹریٹر کراچی بھی ایم کیو ایم کا بن جانا، پیپلز پارٹی کا ایم کیو ایم کی کڑی تنقید پر خاموشی اختیار کرلینا، ایم کیو ایم انٹرنیشل کا سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن جانا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے۔ کراچی کو ماضی میں جنرل مشرف کی بنائی گئی مضبوط پالیسیوں کے تحت دوبارہ با اختیار بنایا جا رہا ہے، مصطفیٰ کمال کی ایم کیو ایم میں شمولیت سے یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں مصطفیٰ کمال کو ہی کراچی کا مئیر بنا کر کراچی کی روشنیاں بحال کرنے کا ٹاسک سونپ دیا جائے، کیونکہ کراچی کے عوام بھلے مصطفیٰ کمال سے جتنے بھی سیاسی اور نظریاتی اختلافات رکھتے ہوں مگر وہ بھی اس بات کی تعریف کرتے ہیں کہ مصطفیٰ کمال نے شہر کی ترقی میں بھر پور کردار ادا کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں مصطفیٰ کمال کے پاس شہر کی ترقی اور انتظامی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کا بہترین ماسٹر پلان موجود ہے۔ جہاں بات ہو رہی ہے کراچی کو دوبارہ بحالی کی طرف لے جانے کی وہیں ماضی میں سندھ میں طویل عرصے تک گورنر کے عہدے پر براجمان رہنے والے ڈاکٹر عشرت العباد کی بھی جلد پاکستان کی سیاست میں واپسی اور ایک بار پھر گورنر سندھ کے عہدے پر فائز ہو کر کراچی کی سیاست میں امن و امان قائم کرنے کی جھلک بھی دکھائی دے رہی ہے۔

کیونکہ سابق گورنر سندھ کو کراچی میں اس دور میں جبکہ روزانہ درجنوں افراد ٹارگٹ کلنگ کی نذر ہو رہے تھے اور اغوا برائے تاوان کے واقعات عام تھے، گینگ وار اور دہشت گردوں کی کارروائیاں عروج پر تھیں، شٹر ڈاؤن ہڑتالوں سے پاکستان کی معیشت تباہ ہو رہی تھی، کراچی میں امن و استحکام قائم رکھنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عشرت العباد کو مشوروں پر ہی گرین لائن، ایم 9 موٹروے اور ملیر ایکسپریس کی منظوری دی گئی اور کام شروع ہوئے۔

ایم کیو ایم کی مشترکہ پریس کانفرنس میں کسی بھی رہنما کی جانب سے بانی ایم کیو ایم کی کھل کر مخالفت نا کرنا بھی اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ شاید بانی ایم کیو ایم کی ایک حد تک کے لئے مستقبل میں ایک بار پھر آواز پر سے عائد پابندی ہٹا دی جائے۔ گزشتہ دنوں ضمنی انتخابات میں اے این پی کے رہنما شاہی سید کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کا مطلب ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کی جگہ دوبارہ اے این پی کو کچھ علاقوں میں فعال کر دیا جائے۔

کراچی میں امن و امان کا قیام، اسٹریٹ کرائم کا خاتمہ اور شہر کی بہتری کے لئے کراچی کے منتخب نمائندوں اور کراچی کو مختلف خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے درمیان مستقل اور مسلسل رابطہ رہنا لازمی ہے، ممکن ہے اس کے لئے ایک کونسل قائم کی جائے جس میں کراچی کی منتخب مقامی حکومتوں کے عہدیداروں کے ساتھ کراچی الیکٹرک کارپوریشن ’کراچی پورٹ‘ بن قاسم پورٹ ’سول ایوی ایشن‘ کراچی واٹر بورڈ ’گیس کارپوریشن‘ کنٹونمنٹ ’کلفٹن‘ کراچی پولیس، رینجرز، آرمی ’بحریہ‘ فضائیہ کراچی چیمبر ’صنعتی علاقوں کی تنظیموں‘ مساجد کے آئمہ اور خطیبوں کے نمائندے بھی ممبر ہوں۔ امید ہے آنے والے 5 سال کراچی اور ملک کی ترقی کے لئے اہم ترین سال شمار ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments