نفسیات کی رصد گاہ سے ذہنی حفظان صحت سب کے لئے


نفسیات کی رصدگاہ کے عنوان سے مضامین کا یہ سلسلہ عوام الناس کی فلاح کے لئے ایک کوشش ہے تاکہ وہ اپنی اور اپنے ارد گرد لوگوں کی ذہنی حفظان صحت کے اصولوں سے آگاہی حاصل کر سکیں گے۔ اس میں کسی جارگن اور خشک تحقیقات کے حوالہ جات سے حتی الامکان گریز کیا جائے گا تاکہ یہ عام فہم ہو۔

آج اس سلسلے کی پہلی کڑی شروع کی جاتی ہے جو نفسیات کے علمی مطالعے کی پہلی سیڑھی ہے۔

درون بینی مشاہدہ یا مشاہدہ باطن

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ صحت جسمانی اور ذہنی صحت الگ چیزیں ہیں۔ اب تک یہی سمجھا جا رہا ہے اگرچہ اس دماغ اور جسم کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے نفسیات کی کوششیں جاری ہیں۔ بہت سوں کو اگر سمجھ آ بھی گئی ہے تو ان کے ارد گرد کے لوگ اس سوچ کو ابھی تسلیم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں یا ڈینائیل جیسی ذہنی میکانیت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہم میں سے کچھ لوگ دانستہ ایسا کرتے ہوں یا لا علمی میں۔

عجیب بات ہے کہ سائنس کی ترقی خاص طور پر میڈیکل سائنس کے کرشمے ایجادات، اور دریافتوں کی صورت میں اب دور دراز دیہاتوں میں بھی پہنچ چکے ہیں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ آج شہروں بلکہ دیہاتوں میں بھی تھرما میٹر، بلڈ پریشر ناپنے کا الہ، شوگر ٹیسٹ، وزن پیما، حمل ٹیسٹ اور اب کرونا کی مہربانی سے کووڈ ٹیسٹ اور آکسیجن کا لیول ناپنے کے لئے آلات موجود ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ یہ طبی آلات لوگوں کی میڈیکل الماریوں پڑے ایک طرف فوری تشخیص اور فوری طبی امداد کا باعث ہیں تو دوسری طرف سٹیٹس سمبل بھی ہیں۔

کہیں کسی کو ملنے چلے جائیں اگر آپ اچھا محسوس نہیں کر رہے تو میزبان خیال خاطر احباب کے دیگر لوازمات کے ساتھ آپ کے لئے ٹرے میں رکھ کر بلڈ پریشر کا آلہ اور آکسو میٹر بھی پیش کریں گے۔ میزبان کو جہاں آپ کی صحت کا خیال دامن گیر ہے وہاں یہ موقع بھی ہاتھ سے نہیں گنوایا جاتا کہ وہ آپ کو باور کرائیں کہ وہ اتنے متمول ہیں کہ میڈیکل سائنس کے کرشمے بھی انہوں نے خرید کر رکھے ہوئے ہیں۔

اچھی بات ہے کہ میڈیکل سائنس کی سہولیات ڈور سٹیپ پر ہیں۔ موت پر اختیار نہ سہی جسم کی بیماریوں کی نشاندہی اور علاج کی فوری دستیابی کا معاملہ تو شروع ہو ہی جاتا ہے۔

لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ جسم کی تکلیفوں کی نشاندہی کے آلات کے ساتھ ذہنی تکالیف اور بیماریوں کی فوری نشاندہی کے سامان بھی موجود ہیں؟

نہیں ایسا نہیں ہے۔ میزبان یا دوسرے غیر متعلقہ لوگ تو کیا بہت قریبی خاندان کے لوگ بھی ذہنی صحت کے تشخیصی ٹولز فراہم کرنا اور علاج کروانے میں مدد کرنا تو درکنار اس کو مریض ہی نہیں سمجھتے اور اس کو ناقابل برداشت گردان کر اسے اپنے سے دور کر دیتے ہیں۔ جب کہ سوال یہ ہے کہ کیا دیگر جسمانی بیماریوں کی طرف بھی ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے؟

اس سوال کے جواب کے لیے پہلے ہمیں ماننا ہو گا کہ ذہن بھی جسم کا حصہ ہے۔ اس کے کرب اور دکھوں کو بھی بیماری تسلیم کرنا ہو گا اور اس کے علاج کو بھی جسمانی بیماریوں کی طرح فوری توجہ دینی ہو گی اور اسی طرح یوزر فرینڈلی تشخیصی سامان مہیا کرنا ہو گا۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لئے کچھ دیر کو اس تحریر میں مندرجہ ذیل علمی ذائقے کو برداشت کرنا ہو گا۔ تاکہ اس مضمون کو سیاق و سباق کے ساتھ سمجھا جائے۔

قصہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ فلسفہ تمام علوم کی ماں ہے۔ کسی بھی سائنسی نظریے، ایجاد اور دریافت کا آغاز مشاہدہ اور پھر تشکیک سے ہوتا ہے۔

تشکیک کے بعد تکراری مشاہدوں کو اختبار گاہ یعنی لیبارٹری میں لے جا کر دوبارہ پرکھا جاتا ہے اور یوں مشاہدہ در مشاہدہ تشکیک اور تحقیق در تحقیق کا سفر مزید آگے بڑھتا ہے اور عمومی نظریے قائم ہوتے ہیں اور ان کو منطقی بنیادوں پر جانچ پرکھ کر بنی نوع انسان کے لئے فائدہ مند بنایا جاتا ہے۔ جیسے طب میں پینسلین کی ایجاد، اور چیچک کی ویکسین وغیرہ۔ ان تمام سود مند انقلابات کا آغاز مشاہدے سے ہی ہوا اور یہ سب مشاہدات اتفاقی مشاہدات سے شعوری کاوشوں میں بدلے تو علم طب میں انقلاب لاکر لاکھوں لوگوں کی جانوں کو بچایا گیا۔

علم نفسیات نے بھی دیگر سائنسز کی طرح فلسفہ کی کوکھ سے جنم لیا تو ڈرائینگ روم فلاسفی سے نکل کر مشاہدے کا ہی اسلوب اپنایا اور اپنے ارتقاء کی منازل طے کر کے اپنے آپ کو باقاعدہ سائنسز کی صف میں لا کھڑا کیا۔ چونکہ نفسیات اب کردار کی سائنس کہلاتی ہے لیکن کردار کے پیچھے اعلی مگر پیچیدہ ذہنی افعال جیسے شعور، حکمت، عقل، احساسات اور جذبات و خیالات اور سوچ کار فرما ہوتی ہے۔ اور ان افعال کا مطالعہ آسان نہیں ہوتا کیونکہ یہ پیچیدہ اور یونیک ہونے کی وجہ سے معروضیت کی نسبت موضوعیت جیسی خاصیت رکھتے ہیں اور ان سے مشاہدے، تجربے اور تحقیق کے بعد معروضی حتمی نتائج نکالنا مشکل ہوتا ہے۔

اس لئے علم نفسیات کو معروضی سائنس بننے کے لئے ابھی مزید سفر درکار ہے لیکن سائکیاٹری جو بلا واسطہ طب کا ذہنی شعبہ ہے بڑی کامیابی سے ذہنی بیماریوں کا علاج کرنے میں مشغول ہے اور مینٹل ہیلتھ کے شعبے میں بہت پیش رفت ہوئی ہے جس میں سائیکارٹرسٹ کے ساتھ سائیکولوجسٹ اور دیگر مینٹل ہیلتھ پروفیشنل ایک ٹیم کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ اس سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کرتے ہوئے علم نفسیات انسانی زندگی کے ہر پہلو میں شامل ہو کر ایک کار آمد علم بن گیا ہے اور اس کی بے شمار شاخیں تناور درخت کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔ جیسے کلینکل سائیکولوجی، ایجوکیشنل سائیکولوجی، انڈسٹریل سائیکولوجی، سوشل سائیکولوجی، کرمنل سائیکولوجی، اینیمل سائیکولوجی، چائلڈ ڈیویلپمنٹ، پرسنیلٹی سائیکولوجی اور ان گنت میدان جہاں نفسیات کارفرما ہے۔ لیکن ہر شعبے میں جو اولین اسلوب ہے وہ مشاہدہ ہی ہے۔

علم نفسیات میں جب مشاہدے کی بات ہوتی ہے تو دو قسم کے مشاہداتی اسلوب ملتے ہیں :
مشاہدہ باطن یا درون بینی
( Introspection)
مشاہدہ ظاہر یا بیرون بینی
( Extrospection)

مشاہدہ ظاہر یا بیرون بینی ظاہری اور نظر آنے والے کرداروں اور ارد گرد ہونے والے واقعات اور عوامل کی پرکھ کے لئے اہم ہے اور اس کا کرداری نفسیات میں بہت اہم مقام ہے۔

لیکن اس مضمون میں صرف مشاہدہ باطن یا درون بینی کا ذکر کیا جائے گا۔ راقم الحروف کو اس اسلوب سے ذاتی طور پر بہت دلچسپی ہے اس دلچسپی کی وجہ ایک شعر ہے جو اردو کے لازمی کورس میں پڑھنے کو ملا جس کو جب مشاہدہ باطن سے ملایا تو شعر بھی سمجھ آ گیا اور درون بینی کی اہمیت بھی واضح ہو گئی۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

علامہ اقبال نے بھی شاید فلسفے کی تعلیم کے دوران مشاہدہ باطن سے متاثر ہو کر یہ شعر کہا ہو۔ آج ہم ادب پارے کے صرف اس شعر کو نکال کر دیکھیں تو ہمارے آج کے اس مضمون کو سمجھانے اور سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ کس طرح اپنے من یا باطن میں غوطہ زن ہو کر زندگی کا سراغ پایا جا سکتا ہے۔

درون بینی یا انٹروسپیکشن کے اسلوب میں کوئی فرد اپنے ہی ذہن کے ایسے پیچیدہ اعلی ذہنی افعال کو اپنے ہی ذہن کی آنکھ سے دیکھتا ہے جو دوسروں کو تو نظر آتے ہی نہیں تھے خود اس کے ادراک میں بھی نہیں تھے۔ لیکن جوں ہی اس کو درون بینی کی مدد سے یہ افعال یعنی احساسات، خیالات، جذبات اور صلاحیتیں اور قابلیتیں اس کو نظر آنا شروع ہوئیں۔ وہ خود ہی ان سے واقف ہوتا گیا جبکہ وہ پہلے یہ خیال کر رہا تھا کہ اس میں ان صلاحیتوں کا فقدان تھا اور وہ قدم بڑھانے سے جھجک رہا تھا۔

لیکن درون بینی سے نہ صرف وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں، قابلیتوں سے آگاہ ہو گیا بلکہ مزید گہرے مطالعے سے ان کی جانچ، پرکھ کرنے کے بعد ان کو کنٹرول بھی کر سکتا ہے۔ اور یہیں سے اس کی اپنی ہی ذہنی بالیدگی اور ارتقا اور بقا کو پائیداری ملتی ہے۔ اور بعد ازاں اپنے انٹروسپیکشن کی بنیاد پر دوسرے افراد کے ذہن میں بھی جھانک کر انہیں سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے اور منطقی بنیادوں پر عمومی نظریات قائم کر کے بیرونی کرداروں اور رویوں کے پس منظری اندرونی کو سمجھ لیتا ہے۔ اور کردار کی سائنس اس کی دسترس میں آنے لگتی ہے۔

ماہر نفسیات ولیم جیمز کے مطابق مشاہدہ باطن یا درون بینی فرد کی شعوری کوشش سے عمل میں آتا ہے اور دو طرح کا ہوتا ہے :

مثبت درون بینی جسے وہ سیلف ریفلیکشن کا نام دیتا ہے
منفی درون بینی جسے وہ سیلف رومینیشن کا نام دیتا ہے۔

سیلف ریفلیکشن کے طریقے میں وہ اپنے ذہن میں اس مقصد کے لئے جھانک کر دیکھتا ہے کہ اس کو اپنی مثبت صلاحیتوں، خیالات، جذبات اور احساسات کا احساس اور آگہی ہو سکے

جبکہ سیلف رومینیشن کے تحت اس کا میلان صرف منفی افعال دیکھنے پر ہوتا ہے۔ اگرچہ سیلف رومینیشن میں بھی شعوری کوشش کا عمل دخل ہوتا ہے لیکن بیشتر اوقات اس شعور کے استعمال میں تھیراپسٹ کو مدد کرنی پڑتی ہے

منفی درون بینی یا انٹروسپیکشن میں وہ ماضی میں زیادہ جھا نکتا ہے اور اپنے گزشتہ افعال کو منفی رنگ دینے لگ جاتا ہے۔ اور اکثر احساس جرم کا شکار بھی ہو سکتا ہے یا مستقبل کے بارے میں منفی انداز فکر کی وجہ سے سوچ سوچ کر ہلکان ہو سکتا ہے نتیجتاً اینگزائٹی ڈس آرڈر اور خبط ( او۔ سی۔ ڈی) کے مسائل سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ایسی سوچوں کا کوئی سوئچ اف بٹن نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ فرد کو پیشہ ورانہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے جس میں کوئی ماہر نفسیات تھیراپی کے دوران رہنمائی کر کے فرد کو منفی سوچوں سے نکالتا ہے۔ اکثر اوقات ادویات کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے۔

اب ہم اپ کو بتاتے ہیں سیلف ریفلیکشن یعنی مثبت افعال کی کھوج کے لئے درون بینی کو کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے کہ آپ اپنی ذاتی رصد گاہ سے بغیر کسی مددگار تھیراپسٹ کے درون بینی کے ذریعے اپنے ذہن کے مثبت افعال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

لیکن یہ کام آپ خود اسی صورت میں کامیابی سے سر انجام دے سکتے ہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اپ ایک چوکس دماغ کے مالک ہیں یعنی مائنڈفل ہیں۔

یہ رصد گاہ اپ کا اپنا ہی ذہن ہے
اس رصد گاہ میں آپ اپنی شعوری کوشش سے بیٹھتے ہیں
اس رصد گاہ میں تنہائی اور مکمل سکوت جسے سیرینٹی کہا جا سکتا ہے

آپ الگ تھلگ گوشے میں ہوتے ہین۔ یہ گوشہ کبھی تجربہ گاہ کا مکمل خالی اور لوگوں اور اشیاء سے عاری کمرہ ہو سکتا ہے اور کبھی آپ کی اپنی چوائس سے فطرت کے خاموش نظاروں سے بھرپور یعنی جھیل کے کنارے کسی پتھر پر بیٹھنا یا جھیل کے ساتھ ساتھ تنہا چلنا اور کبھی پہاڑ کی اونچائی سے خاموشی سے نیچے دیکھنا اور کبھی چاند کی دودھیا روشنی اور کبھی اماوس کی راتوں میں۔ اگر اپ مائنڈ فل ہیں تو مشاہدہ باطن کسی بھی فطری صورتحال میں ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ کو اپنے مشاہدہ باطن سے ادراک میں آنے والے افعال کو چشم زدن میں اپنے کنٹرول میں کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہوں۔

اس رصد گاہ کی دوربین بھی آپ کے اپنے ہی ذہن میں نصب ہے
اس دور بین سے آپ اپنے ہی ذہن کی کہکشاؤں کا
مشاہدہ کرتے ہیں
اس رصد گاہ میں مکمل سکوت ہوتا ہے
اس رصد گاہ میں آپ چوکس ہو کر بیٹھتے ہیں۔
اس رصد گاہ میں مراقبہ کا کوئی طریقہ اپنانا پڑتا ہے یا مراقبے کی کیفیت طاری کرنی پڑتی ہے۔

آپ کی اس رصد گاہ میں آپ کو اپنے خیالات، احساسات، صلاحیتوں اور جذبات کے مطالعے اور مشاہدے کے دوران لکھنے کے لئے نوٹ بک رکھنی ہوتی ہے تاکہ اپ فوری طور پر اپنے خیالات و احساسات کو نوٹ کر سکیں۔ یہ لکھے ہوئے ذہنی افعال آپ کے مشاہدے کا اثاثہ ہیں اور ائندہ اور اگلے مشاہدے میں سنگ میل کا کام کرتے ہیں اور اسی طرح مشاہدہ در مشاہدہ اور تحریر در تحریر اپ کے ذہن کی کہکشاؤں کو دیکھنے ان کو پرکھنے اور ان کو کنٹرول کر کے اپ کے ذہن کے پاتالی اندھیروں سے اپ کے اپنے ہی قطرہ ہائے انفعال اپ کو تھما دے گا جو کبھی شان کریمی چن لیتی ہے۔ اور آپ بہت کچھ کر گزرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ اس درون بینی کے نقصانات او فائدے کیا ہیں؟
پہلے ہم اس کے نقصانات سے اگاہ کریں گے۔

جیسے ہر دوا کے سائڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں یا یوں سمجھتے ہیں ایکسرے کا زیادہ استعمال کرنے سے شعائیں بدن کو متاثر کرتی ہیں اور اگر احتیاطی تدابیر نہ ہوں تو ایکسرے کی شعا عیں دوسروں کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ یہ دونوں صورتوں میں ہو سکتا ہے ایک تو اس صورت میں بھی جب فرد بے شک ذہنی طور پر پوری شعوری قوت سے رضاکارانہ طور پر اختبار گاہ میں ماہر کی نگرانی میں یا بغیر نگرانی کے مشاہدہ کے عمل میں حصہ لیتا ہے۔ لیکن مثبت افعال کا مشاہدہ کرتے کرتے وہ بھٹک جاتا ہے جب اس کے ذہن کی دور بین ہلکی سی جنبش سے ادھر ادھر ہو جاتی ہے اور ایسے میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی دوربین میں ماضی کے منفی منظر آنے لگتے ہیں یا مستقبل میں درپیش معاملات سے متعلق فکریں دامن گیر ہونے لگتی ہیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی توجہ مستقل طور پر ان بے مقصد منفی افعال میں اٹک کر وقت ضائع کر سکتا ہے۔ اورذہنی امراض کی طرف چل نکلتا ہے۔ اگرچہ ایک شعور رکھنے والا چوکس فرد جلد ہی خود یا تھیراپسٹ کی مدد سے ان منفی افعال سے دوربین کا رخ بدل کر واپس مثبت پہلو پر لے آتا ہے۔ بالاخرفرد اس کشمکش سے بار بار کی مشقوں اور منطقی تجزیوں اور غور فکر کے بعد نکل آتا ہے۔

لیکن مشاہدہ باطن ان افراد کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے جو بغیر شعوری کوشش کے دوربین ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور وہ افراد جو کمتر ارتکاز توجہ کے حامل ہوں اور چوکس نہ ہونے کی وجہ سے سیلف کنٹرول نہ کر سکیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ایسے افراد یا تو پہلے سے ہی ذہنی امراض مثلاً اینگزائٹی ڈس ارڈر اور خبط یعنی او۔ سی۔ ڈی میں مبتلا ہوتے ہیں۔

اس صورت میں ان افراد اور ان کے گھر والوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ مریض کو کسی سند یافتہ مینٹل ہیلتھ پروفیشنل کی نگرانی میں لے جایا جائے جہاں وہ اختبار گاہ یعنی تھیراپسٹ سا سائیکولوجسٹ کا کمرے میں بیٹھ کر مشاہدہ باطن کرے۔ تھیراپسٹ تمام مراحل میں مریض کی مدد کرتا ہے مثلا:

ممشاہدہ باطن کی طرف راغب کرنا
کن احساسات، جذبات اور خیالات کو دیکھنا ہے اس سلسلے میں رہ نمائی کرنا

مثبت کارآمد صلاحیتوں، خیالات اور جذبات کو باہر نکال کر مریض کے علم میں لانا اور مریض کو مکمل اگاہی دے کر ان مثبت خیالات، احساسات اور جذبات کو مریض کی عملی زندگی میں استعمال کے طریقے سکھانا۔

سیلف کنٹرول سکھانا
باقاعدہ مراقبے کی مشقیں اور ریلیکسیشن اور سانس کی مشقیں کروانا
اور روزنامچے ڈائر ی لکھنے کی عادت ڈالنا۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر شخص مشاہدہ باطن یا انٹروسپیکشن کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ مشاہدہ باطن یا درون بینی جس کا انگریزی ترجمہ انٹروسپیکشن ہے اس کے کیا فائدے ہیں کہ یہ تمام نفسیاتی مطالعات کی اساس اور لازمی جز ہے خواہ یہ تھراپسٹ کی نگرانی میں ہو، اختیار گاہ میں یا فطری ماحول میں منظم یا غیر منظم (Structured/non structured) ہو یہ وہ نفسیاتی طریقہ جس سے ایک طالبعلم اپنی ان صلاحیتوں سے آگاہ ہوتا ہے جن سے پہلے وہ واقف نہ تھا اور اس کو زبردستی ان مضامین کا انتخاب کرنے کو کہا جاتا ہے جن کے لئے وہ رجحان اور استعداد نہیں رکھتا جیسے ایک ریاضی میں کمزور طالب علم کو جبرا ڈاکٹر، انجنئر اور نیچرل ساینسز پڑھنے کو کہا جاتا ہے اور والدین اس کے نمبر کم آنے پر تلافی کے لئے ٹیوشن کے اخراجات بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ ناکام ہی رہتے ہیں اور میڈیکل سکول نہیں جا سکتے۔ اور پھر اس کے نتیجے میں ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک چوکس اور سمارٹ طالبعلم خود اپنے ذہن میں جھانکتا ہے اور اپنی مثبت صلاحیتوں کی کھوج لگا کر ان سے فائدہ اٹھتا ہے اور اس شعبے میں چمکتا ستارہ بن سکتا ہے۔

میں دو رشتہ دار طالبعلموں کو جانتی ہوں۔ ایک امیر گھرانے کا میٹرک میں اول انے والا جب ایف ایس سی میں پہنچا تو اس کی صلاحیتیں کم پڑنے لگ گئیں اور وہ فیل ہو گیا۔ اور اب تک جب کہ وہ ستر سال کا بھی ہو گیا ہے ڈپریشن کا مریض بن کر زندگی گزار رہا ہے اور ہر ملنے والے کے پاس اپنی ناکامی کا ماتم کرتا ہے۔ میری اس کے ساتھ ہر مرتبہ گفتگو کے دوران یہی پتہ چلا کہ اس کو بچپن سے شعر وشاعری اور ادب کا شوق تھا لیکن اس کو کبھی اپنے اس جوہر کا علم ہی نہ ہوا۔ اور نہ اس نے اپنی شعوری کاوش سے اپنے ذہن کا مطالعہ کر کے دوسری متبادل قابلیتوں کی طرف نظر ڈالی۔ جب کہ اسے اندر تخلیقی صلاحیتوں کا خزانہ تھا اور وہ بہترین ادب تخلیق کر کے کامیاب اور مشہور ہو سکتا تھا۔

جبکہ ایک دوسرا بچہ جو میرا قریبی رشتہ دار ہے وہ ساینس پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا لیکن ذہنی طور پر چوکس تھا۔ اس نے اپنی شعوری کاوش سے روایتی پن سے ہٹ کر اپنے اندر رضاکارانہ طور پر اپنی کھوج لگائی اور والدین کو کہا مجھے معلوم ہے مجھے کیا کرنا ہے۔ اس نے اردو اور انگریزی ادب کو بطور مضمون اپنایا پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اب وہ ایک کامیاب پروفیسر اور مشہور لکھاری اور نقاد ہے۔

اسی طرح دیگر صلاحیتوں کی کھوج لگا کر ہم اپنے لئے موزوں پیشے، تعلیمی شعبوں اور فرصت کے لمحات کا بہترین مصرف نکال سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے بہت جلد واقف ہو جاتے ہیں لیکن روزگار زندگی سے فراغت پانے، ریٹائرمنٹ کے بعد ، اور بڑھاپے میں ان کو استعمال کر کے اپنی زندگیوں کو جوان اور رواں دواں رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ مصوری، ادب، مجسمہ سازی، حتی کہ ایکٹنگ اور ڈانس میں بھی اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ریٹایرمنٹ کے بعد رات کو موت کا انتظار کرتے ہیں اور دن میں اپنے بچوں کی زندگیوں میں دخل در معقولات سے اپنی اور اولاد کی زندگیوں کو جہنم بناتے ہیں۔ لیکن پرو ایکٹو سمارٹ چوکس لوگ بہت پہلے سے اپنی نفسیاتی رصد گاہ میں دوربینیں نصب کر کے باطن سے انفعال کے قطرے جمع کرتے رہتے ہیں اور اپنے اعلی مقاصد کے ہدف بنا لیتے ہیں اور بڑھاپے میں ان مشاغل سے حرارت زندگی لیتے رہتے ہیں اور ایسے تخلیقی جوہر دکھاتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی ان کی بقا کا کاروبار چلتا رہتا ہے بے شک یہی لوگ عقلمند ہیں۔

یوں کہنا بجا ہو گا کہ درون بینی یا انٹروسپیکشن محض نفسیاتی مطالعے اسلوب ہی نہیں ہے بلکہ انسانی ذہن اور شعور کا ارتقا اور بقا کا طریقہ ہے جس سے سائنس اور فنون کے سوتے پھوٹتے ہیں اور فرد واحد ہی نہیں اجتماعی ارتقا کا عمل تیز ہوتا ہے۔ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو انفرادی اور اجتماعی فکر، سوال و جواب، ، تشکیک، مشاہدہ اور اس کی بنیادوں پر منطقی نتائج کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اور یوں معاشرہ پر سکون اور ماحول کے رویے صحتمند رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments