نیوٹریلٹی : ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور


نہ تو قاسم علی شاہ پہلا شکار ہے اور نہ ہی یہ سلسلہ رکے گا، یہ سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہے بلکہ پی ٹی آئی بنیادی ہتھیار ہی یہی ہے کہ جو سچ بولے اسے اتنا دباؤ کہ وہ زچ ہو کر معافی مانگ لے، اگر وہ معافی نہ مانگے تو اس کے بارے میں اتنا پروپیگنڈا کرو کہ سچ، جھوٹ کی دبیز تہہ میں چھپ جائے اور جھوٹ ہی سچ بن جائے، اس کی بہت مثالیں ہیں لیکن باقی اگر عوام کے ذہنوں سے اتر گئی ہوں تو ڈیلی میل والا کیس تو ابھی کل کی بات ہے کہ کس طرح شہباز شریف کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس نے مظلوموں کے پیسے کھائے ہیں لیکن جب وہاں کیس کیا گیا تو ایسا کچھ نہ نکلا، مذکورہ اخبار نے معافی بھی مانگی اور بذریعہ گوگل وہ خبر بھی تمام ممکنہ پلیٹ فارموں سے ہٹوائی، لیکن چونکہ نون لیگ کے پاس سوشل میڈیا کی طاقت نہیں لہذا یہ اپنا سچ اور بے گناہی اس طرح کیش نہیں کرا سکے جس طرح عمران خان نے جھوٹ کیش کیا تھا۔

بات یہیں تک نہیں رکتی بلکہ اس مقصد کے لیے انھوں نے ”پوسٹ ٹروتھ“ حکمت عملی بھی تیار کر رکھی ہے، اس پر میرا ایک پورا کالم موجود ہے لیکن سردست ایک مثال دیتا چلا کہ جب مذکورہ صحافی اور اخبار نے معافی مانگی تو ”پوسٹ ٹروتھ“ حکمت عملی کے تحت ایک بار سوشل میڈیا ٹیم جھوٹ کے گھوڑے پر سوار ہو کر آئی اور یہ گرد اڑائی کہ نون لیگ نے عدالت کے باہر معاملات طے کیے ہیں اور معافی مانگ کر کیس سیٹل کیا ہے، ثبوت کے طور پر ڈیوڈ روز کی اک ٹویٹ پیش کی گئی، میں نے صحافی کے روپ میں چھپے ایک مشہور ”ٹرول“ جو بہت شور کر رہا تھا، سے کہا کہ کیا آپ برطانوی نظام عدل کو ٹیگ کرتے ہوئے یہی ٹویٹ انگریزی میں کر سکتے ہیں کہ برطانوی عدالت نے انصاف نہیں کیا بلکہ معاملہ باہر سیٹل کیا ہے؟

اس نے ایسا کرنے کی بجائے مجھے ڈیوڈ روز کے ٹویٹ کا سکرین شاٹ بھیج دیا، میں چونکہ ان کی ”دجالیت“ سے واقف ہوں اور ان کی حکمت عملی سمجھتا بھی ہوں لہذا میں نے متاثر ہونے کی بجائے ڈیوڈ روز کے اکاؤنٹ کو کھنگالا تو معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی کے ”ڈیوڈروز“ نے اپنا یہ ٹویٹر اکاؤنٹ نومبر 2012 میں بنایا لیکن اپنا پہلا ٹویٹ 14 جنوری 2022 کو رات 12:50 AM پر کیا، میں نے اس ”حق پرست صحافٹرول“ کو جواب دیا کہ جناب مجھے ایک سوال کا جواب تو دیں کہ ڈیوڈ روز اپنا ٹویٹر اکاؤنٹ بنانے کے بعد دس سال خاموش کیوں رہا؟ اور اگر اس نے ٹویٹس کیے تھے تو دس سالہ ٹویٹ کو ڈیلیٹ کرنے کی ایسی کیا مجبوری آن پڑی تھی اور وہ بھی اچانک؟ اس بات کا جواب موصوف ہی کیا پوری پی ٹی آئی کے پاس نہ تھا اور نہ ہی ہو گا۔

عمران خان یہ سب کچھ سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے کرتے ہیں، سوشل میڈیا، اس کے جدید ٹول، ان کی افادیت اور ان کے ذریعے لوگوں کو یرغمال بنانے کے طریقوں پر انھی صفحات پر میرے کم و بیش پانچ چھ کالم موجود ہیں لیکن سردست میں اس بات کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ عمران خان کو یہ پاور ”انھوں“ نے دستیاب کی تھی جن کے متعلق اس وقت کہا جا رہا ہے کہ وہ نیوٹرل ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح سوشل میڈیا ٹیمیں بنائی گئیں؟

فالورز کا خام مال کیسے تیار کیا گیا؟ کیسے ہیش ٹیگ بنائے گئے؟ کس طرح ڈیٹا کمپنیوں سے مائیکرو پروفائلنگ کرا کے لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا اور انٹرن شپ کے لیے آنے والوں کو کیسے عمران نیازی کا سپاہی بنایا گیا؟ ہم اور وہ جانتے ہیں کہ کیسے ایک طرف بندر کے ہاتھ میں استرا دیا جا رہا تھا تو دوسری طرف کیسے محض ذاتی ناپسند کی وجہ سے نواز شریف کو پچھاڑا جا رہا تھا، کیسے کہیں پر ٹکٹ واپس کرائے جا رہے تھے اور کہیں دلوائے جا رہے تھے؟ کیسے فیصلے لکھوائے جا رہے تھے؟ کیسے ججوں سے ان کے کمروں میں ملا جا رہا تھا؟ یہ سب اب راز نہیں رہا بلکہ جب سے اس فلم کے ہیرو اور سائیڈ ہیرو آپس میں ”دشمن“ بنے ہیں تب سے سب کچھ واضح طور باہر آ چکا ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

صرف یہی نہیں کہ ”پاکستان توڑ“ فلم تبدیلی کا کچا چٹھا باہر آ چکا بلکہ اس کے بعد بھی ملکی سلامتی سے کھلواڑ کرنے کے تمام سین بھی آشکارا ہو چکے کہ کیسے امریکی سازش کا ڈراما تیار ہوا؟ کیسے آئی ایم ایف کو فون کر کے ملک کو دیوالیہ کرنے کی سازش ہوئی؟ کیسے پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار بنایا گیا؟ چند سالوں میں کیونکر سابقہ ملکی قرضے جتنا قرضہ لیا گیا؟ کشمیر فروشی کیسے ہوئی؟ کرونا سیزن میں کیسے عوام کو تجربات کی بھینٹ چڑھایا گیا اور بدلے میں ملنے والا پیسا کیسے ڈکارا گیا؟

پارلیمنٹ پر قبضے کے لیے کیسے بارہ سو لوگوں کو تبدیلی کے چرنوں میں قربان کرنے کا منصوبہ بنایا گیا؟ سستی گیس کیوں نہ لی گئی؟ یہ دیگ کے چند دانے ہیں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اداکار تو کجا کسی ایک ایکسٹرا کے خلاف بھی اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی، کیا نون لیگ مجبور ہے یا کوئی کسی کو بچانا چاہتا ہے، چاہے کچھ بھی ہو ”نیوٹرلز“ ہونا اس وقت بنتا تھا جب یہ بلنڈر کیے جا رہے تھے، یہ کوئی نیوٹریلٹی نہیں کہ کسی کو بے گناہ ٹانگ دیا جائے اور کسی کو اس سب کے باوجود محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی جائیں، یہ نیوٹریلٹی نہیں بلکہ بجائے قیام سجدہ ہے اور وہ بھی ”بے وقتاً اور آخر میں ایک سوال کہ اگر نون لیگ اتنی ہی مجبور ہے تو کیا ضرورت تھی لعنتوں کا طوق گلے میں ڈالنے کی؟ لگتا ایسے ہے کہ جو کام چھ سالہ“ باج شاہی ”نہ کر سکی وہ کام چاچو کا“ شوق شیروانی ”کر گزرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments