کیا آپ ناز بیگم کے افسانوی اور حقیقی کردار کو جانتے ہیں؟


تحریر: ڈاکٹر لبنیٰ مرزا، ڈاکٹر خالد سہیل
۔ ۔

ڈیر ڈاکٹر سہیل،
میں نے دنیا میں پھیلے ہوئے کرداروں سے متاثر ہو کر ایک فکشنل کہانی لکھی ہے جو آپ کو بھیج رہی ہوں۔ میرے خیال میں ناز بیگم تبدیلی کی سطح سے بہت آگے نکل چکی ہیں اور ان کے خیالات بدلنا نہایت مشکل کام ہے لیکن میں یہ کیس آپ کے سامنے رکھ رہی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی دانائی اور مسیحائی اس کہانی کا اختتام مثبت رخ میں موڑ کر اصل دنیا میں موجود کرداروں کو سلجھنے میں مدد دے سکے۔

شکریہ
لبنیٰ مرزا۔ ایم ڈی، ایف اے سی ای
۔ ۔ ۔
کاش وہ جان سے مر جائے تو میرے دل کو کچھ سکون آئے! ناز بیگم نے پہلو بدلتے ہوئے نہایت غصے سے کہا۔

ڈاکٹر سہیل نے اپنے چشمے کے اوپر سے ناز بیگم کو دیکھا۔ ناز بیگم کی عمر تقریباً پینسٹھ سال کے قریب تھی۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو کوئی دو سال پہلے ایک گاڑی کے حادثے میں جان بحق ہو گیا تھا۔ اس وقت وہ اپنی سابقہ بہو کے بارے میں نہایت غصے میں تھیں۔ ناز بیگم کو ان کے فیملی ڈاکٹر نے سینے میں تکلیف اور بلڈ پریشر کے بڑھنے کی وجہ سے نفسیات دان کے پاس ریفر کیا تھا کیونکہ ان کے دل کے تمام ٹیسٹ نارمل آئے تھے۔

ڈاکٹر سہیل: آخر ایسی کیا بات ہوئی ہے جو آپ اس قدر غصے میں ہیں؟

ناز بیگم: میرا جوان جہان بیٹا گزر گیا اور اس عورت کو اس کا مکان، پیسہ، لائف انشورنس کی رقم سب کچھ مل گیا۔ کینیڈا میں بیوی کو ہی سب کچھ مل جاتا ہے۔ ہم پنجاب میں ہی رہ رہے ہوتے تو اس کی اتنی جرات نہ ہوتی کہ پورے گھر کی مالکہ بن کر بیٹھ جائے۔

ڈاکٹر سہیل: ناز بیگم آپ کا تو اپنا بھی عالیشان مکان ہے۔ آپ کے پاس اپنے لیے پیسے ہیں۔ اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر آپ کے بیٹے کی بیوہ کو اس کا چھوڑا ہوا اثاثہ مل جائے؟

ناز بیگم: اس عورت کو کیا معلوم ہے کہ زندگی کیسے گزارنی ہے؟ اس کو کیا معلوم ہے کہ پیسہ خرچ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

ڈاکٹر سہیل: لیکن آپ کی سابقہ بہو تو بیالیس سال کی عمر کی ہے۔ اس کے بچے بھی اب نوجوان ہیں۔ آپ ایسا کیوں سمجھتی ہیں کہ وہ اپنا گھر بار اور ذمہ داری خود نہیں سنبھال سکے گی؟

ناز بیگم: وہ نہایت بے وقوف عورت ہے۔ اس کو کوئی کام ڈھنگ سے کرنا نہیں آتا۔ ان کا خاندان ہمارے خاندان سے ہلکا ہے۔ وہ تو میرے بیٹے نے پسند کرلی ورنہ وہ ہمارے لائق ہر ہرگز نہیں تھی۔

ڈاکٹر سہیل: آپ کے چارٹ میں موجود انفارمیشن کے مطابق آپ کے بیٹے کا اس کی شادی کے دوران اپنی سیکرٹری کے ساتھ افیئر تھا جس کے بارے میں اس کی موت کے بعد معلوم ہوا کیونکہ وہ اس حادثے کے وقت گاڑی میں ساتھ میں تھے۔ دونوں نے شراب پی ہوئی تھی۔ یہ خبر اخبار میں بھی چھپی تھی۔

ناز بیگم: یہ بھی اسی عورت کی ساری غلطی ہے۔ اس کو اپنے شوہر پر نظر رکھنی چاہیے تھی۔ کوئی سمجھدار بیوی ہوتی تو آدمی کبھی نہیں بھٹکتا ہے۔

ڈاکٹر سہیل: لیکن یہ بات ایسی تو نہیں کہ آپ اس کے مرنے کی خواہش کرنے لگیں۔ ایسا کیا ہوا ہے کہ آپ یوں محسوس کر رہی ہیں؟

ناز بیگم نے اپنے فون کو آن کر کے اس میں فیس بک میں اپنی سابقہ بہو کا پروفائل کھولا اور اس میں ایک تصویر کی طرف اشارہ کیا: یہ دیکھیں کسی گورے کے ساتھ چپک کر کھڑی ہے۔ یہ کیا لگتا ہے اس کا؟ سنا ہے کہ ہر جگہ یہ دونوں ساتھ گھومتے پھر رہے ہیں۔

ڈاکٹر سہیل: ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں۔ کیا یہ ایک اچھا آدمی ہے؟
ناز بیگم: وہ اچھا ہو یا برا اس سے ہمیں کیا؟ لیکن وہ ہمارے خاندان کی بہو ہے اور۔ ۔ ۔

ڈاکٹر سہیل: بہو ہے نہیں بلکہ تھی۔ اب تو آپ کے بیٹے کی وفات ہو چکی ہے اور موت کے بعد شادی کا تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ اب وہ سنگل خاتون ہیں۔

ناز بیگم: ہم عزت دار لوگ ہیں۔ معاشرے میں ہمارا ایک مقام ہے اور اس پر فرض دائر ہوتا ہے کہ ہماری عزت کا پاس کرے۔

ڈاکٹر سہیل: یہ آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ آپ کی سابقہ بہو کو اپنے بیس سال کے ساتھی کی اچانک موت اور اس کی بے وفائی کا کوئی صدمہ نہیں ہوا ہو گا؟

ناز بیگم: اس عورت کو دیکھیں، اس نے نئے فیشن کے کپڑے پہن لیے، میک اپ بھی کیا ہوا ہے۔ یہ دیکھیں، کہیں فیشل کروا رہی ہے، کہیں موویاں دیکھ رہی ہے۔ کیا یہ سوگواروں کے چلن ہیں؟ اس کو میرے بیٹے کے مرنے کا کوئی غم نہیں ہے۔

ڈاکٹر سہیل: آپ کے شوہر کا اس معاملے میں کیا خیال ہے؟
ناز بیگم: ان کو کیا سمجھ ہے؟ وہ کچھ نہیں سمجھتے۔
ڈاکٹر سہیل: آپ کے پوتے پوتیوں کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

ناز بیگم: یہ بچے تو مکمل انگریز بن چکے ہیں۔ میں نے ان کو بھیجی تھیں یہ تصویریں تو الٹا مجھے کہنے لگے کہ اپنے کام سے کام رکھوں۔ آج کل کی نسل میں کوئی لحاظ ہی نہیں رہ گیا ہے۔

ڈاکٹر سہیل: اس کے شوہر کی وفات کو دو سال گزر چکے ہیں۔ آپ کیا چاہتی ہیں کہ آپ کی سابقہ بہو کیا کرے؟

ناز بیگم: میں چاہتی ہوں کہ وہ مر جائے تاکہ وہ میرے مرے ہوئے بیٹے کی جائیداد اور پیسے پر کوئی عیش نہ کرسکے اور یہ سب کچھ میرے پوتے پوتیوں کو مل جائے۔

ڈاکٹر سہیل: کیا آپ کی سابقہ بہو ایک اچھی ماں ہے۔
ناز بیگم آنکھیں چراتے ہوئے : ہاں وہ تو ہے۔
ڈاکٹر سہیل: کیا اس کے بچوں کو اس کی ضرورت ہے؟
ناز بیگم خاموش رہیں اور کھڑکی سے باہر دیکھتی رہیں۔

ڈاکٹر سہیل: آپ کے والد صاحب بھی کم عمری میں اس دنیا سے چل بسے تھے۔ جب آپ کے باپ کی وفات ہو گئی تھی تو آپ کی ماں نے کیا کیا؟
ناز بیگم: انہوں نے تمام زندگی سفید شلوار قمیض پہنی، ہمیشہ بچا کھچا کھایا، کبھی دوسری شادی نہیں کی اور اپنی زندگی ہمیں پالنے پر وقف کردی تھی۔

ڈاکٹر سہیل: کیا آپ اپنی ماں کے فیصلے پر خوش ہیں؟
ناز بیگم: میری ماں ہمیشہ دکھی اور خاموش رہتی تھیں۔ انہوں نے صبر اور شکر سے زندگی گزاری اور پچاس سال کی عمر میں دل کے دورے سے دنیا سے چل بسی تھیں۔

ڈاکٹر سہیل: اپنی ماں کی یاسیت کا آپ پر کیا اثر ہوتا تھا؟
ناز بیگم خاموش رہیں۔

ڈاکٹر سہیل: ان کی موت کا آپ پر کیا اثر ہوا؟
ناز بیگم کچھ دیر کے لیے یادوں میں کھو گئیں اور کچھ وقت کے بعد بولیں : حالانکہ ہم اس وقت چھوٹے بچے نہیں تھے لیکن ہم نے ان کی کمی کو شدت سے محسوس کیا۔ ہمیں اس وقت بھی ان کی مامتا کی، ان کے مشوروں کی اور ان کی صحبت کی ضرورت تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وقت کے ہاتھوں نے ان کو ہم سے بہت جلدی چھین لیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔

ڈاکٹر سہیل: آپ کے خیال میں ان کی موت کی وجہ کیا تھی؟
ناز بیگم: زندگی کے دکھ اور غم۔

ڈاکٹر سہیل: جس طرح آپ اپنی ماں سے محبت کرتی تھیں اسی طرح آپ کے پوتے پوتیاں بھی اپنی ماں سے محبت کرتے ہیں۔ آپ کی سابقہ بہو ان بچوں کی ماں ہے۔ آپ کی اب تک کی گفتگو سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کر رہی ہے۔ یقیناً وہ ان کو ان کا حق دے گی۔ آج نہیں تو کل، یہ سب کچھ انہی بچوں کا ہی ہے۔

ناز بیگم پہلو بدلتے ہوئے : لیکن، لیکن لوگ کیا کہیں گے؟

ڈاکٹر سہیل: اگر آپ اپنی سابقہ بہو اور اس کے گورے دوست کو اپنے گھر بلائیں اور ان کی دعوت کریں اور ان کو اپنے جاننے والوں سے فخریہ ملوائیں تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکے گا۔ آپ کی معاشرے میں ایک اہم جگہ ہے۔

ناز بیگم: یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ہمارے یہاں ایسا کچھ رواج نہیں ہے۔
ڈاکٹر سہیل: آج کا سیشن ختم ہو چکا ہے۔ اب اگلے ہفتے پھر ملاقات ہوگی۔
ناز بیگم زیر لب کچھ بڑبڑاتے ہوئے چل دیں۔
جاری ہے
…………………………..

ڈاکٹر خالد سہیل کا ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کو جواب
۔ ۔ ۔
ڈاکٹر لبنیٰ مرزا!

آپ نے جب مجھے فون پر بتایا کہ آپ نے ایک افسانہ لکھا ہے تو مجھے ایک خوش گوار حیرت ہوئی۔ میں نے آپ کے کالم تو پڑھے تھے کبھی افسانہ نہیں پڑھا تھا۔ آپ نے فون پر افسانہ سنایا تو میں مسکرایا کیونکہ آپ نے اپنے افسانے کے ماہر نفسیات کردار کا نام ڈاکٹر سہیل رکھا ہے۔

میں نے جب افسانہ دوبارہ پڑھا تو میں اور بھی حیران ہوا کیونکہ آپ نے ایک ایسا افسانہ لکھا ہے جو دلچسپ بھی ہے اور معنی خیز بھی۔ اس افسانے میں آپ نے انفرادی ’خاندانی اور سماجی مسائل کو بہت خوبصورتی سے ایک لڑی میں پرویا ہے اور ہمیں ایک سماجی آئینہ دکھایا ہے۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا!

آپ کے افسانے کا کردار۔ ناز بیگم۔ ایک جیتا جاگتا زندہ کردار ہے۔ یہ ایک ایسی عمر رسیدہ عورت کا کردار ہے جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہے جن کا اظہار ان کے اپنی بہو کے ساتھ غصے کی صورت میں ہوتا ہے اور وہ غصہ اتنا شدید ہے کہ ان کے دل میں اپنی بہو کے لیے ایک

ڈیتھ وش اختیار کر گیا ہے۔
’کاش وہ جان سے مر جائے تو میرے دل کو کچھ سکون آئے‘

آپ نے اپنے افسانے کا آغاز ہی ناز بیگم کے اس مکالمے سے کیا ہے جو کسی بھی افسانے کا بہت عمدہ آغاز ہے کیونکہ وہ جملہ اور مکالمہ قاری کو جکڑ لیتا ہے اسے اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا ہے اور پھر وہ اسے ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے۔

ناز بیگم ایک ایسی روایتی ساس ہیں جو زندگی کو انسانی اور نفسیاتی حوالے سے نہیں بلکہ مذہبی اور اخلاقی حوالے سے دیکھتی ہیں۔ وہ دل ہی دل میں اپنی بہو سے نفرت کرتی ہیں اور اس پر فتوے لگاتی ہیں۔ وہ ایک ایسا منفی کردار ہیں جو دوسروں کی خوشی دیکھ کر دکھی ہو جاتا ہے اور دوسروں کو دکھی دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے۔

ناز بیگم کو یہ گوارا نہیں کہ ان کے بیٹے کی وفات کے بعد ان کی بہو مسکرا رہی ہے۔ خوش ہے۔ دوستوں سے مل رہی ہے اور ایک نارمل زندگی گزار رہی ہے۔ چونکہ وہ خود دکھی ہیں وہ اپنی بہو کو بھی دکھی دیکھنا چاہتی ہیں۔

ناز بیگم کے دل میں بہت سے تعصبات پنپتے رہتے ہیں۔
ایک تعصب ذات پات طبقے اور کلاس کا تعصب ہے جس کا اظہار وہ ان الفاظ میں کرتی ہیں

’ ان کا خاندان ہمارے خاندان سے ہلکا ہے۔ وہ تو میرے بیٹے نے پسند کر لی ورنہ وہ ہمارے لائق ہرگز نہیں تھی‘
اس جملے میں بہو کے خاندان کے خلاف ہی تعصب نہیں محبت کے رشتے کے بارے میں بھی تعصب موجود ہے۔

ناز بیگم کو یہ دکھ ہے کہ ان کے بیٹے نے ان سے یہ حق چھین لیا کہ وہ اپنی بہو خود تلاش کریں۔ وہ نہیں جانتیں کہ ان کے جوان بیٹے کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے لیے اپنی مرضی سے اپنی شریک حیات تلاش کرے۔

ناز بیگم کے مکالموں سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنی بہو کو پہلے دن سے قبول نہیں کیا۔ بہو کو بیٹی بنانے کی بجائے انہوں نے بہو کو اپنا رقیب بنا لیا۔

ناز بیگم نے ایک جھوٹی عزت اور غیرت کو بھی دل سے لگا رکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں
’ ہم عزت دار لوگ ہیں۔ معاشرے میں ہمارا ایک مقام ہے اور اس پر فرض دائر ہوتا ہے کہ وہ ہماری عزت کا پاس کرے‘

ناز بیگم اس سماجی حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں کہ ان کا عزت کا تصور جعلی ہے جس کی بنیاد میں منافقت ہے۔ ایسے عزت دار سب کچھ کرتے ہیں لیکن چھپ چھپا کر تا کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے۔

اسی لیے ناز بیگم کو یہ خیال بھی دیمک کی طرح کھائے جا رہا ہے کہ
’لوگ کیا کہیں گے‘

ناز بیگم ایک ایسے معاشرے کی نمائندہ ہیں جہاں لوگ اپنی زندگی نہیں دوسروں کی زندگی گزارتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بے جا دخل اندازی کر کے خوش رہتے ہیں۔

ہم سب ایسی آنٹیوں کا جانتے ہیں جو ہر شادی بارات سالگرہ کے موقع پر نوجوان مردوں اور عورتوں سے بھری محفل میں نہایت ذاتی سوال پوچھتی ہیں

کنواروں سے پوچھتی ہیں۔
تم نے شادی کیوں نہیں کی؟
اور نئے شادی شدہ جوڑوں سے پوچھتی ہیں
تمہارے ہاں بچہ کیوں پیدا نہیں ہوا؟
اور پھر انہیں مفت مشورے بھی دیتی ہیں
فلاں بابا جی کے پاس جاؤ وہ تمہیں ایک تعویز دے دیں گے تا کہ تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہو جائے۔

ناز بیگم لاشعوری طور پر یہ بھی جانتی ہیں کہ ان کا دور گزر چکا ہے کیونکہ ان کے پوتے پوتیاں ان کے جعلی اخلاقی اور سماجی اقدار کو نہیں مانتے۔ اسی لیے جب وہ ان سے اپنی بہو کی شکایتیں کرتی ہیں تو انہیں ان کی توقع کے مطابق جواب نہیں ملتا۔ کہتی ہیں

’ یہ بچے تو مکمل انگریز بن چکے ہیں۔ میں نے ان کو بھیجی تھیں یہ تصویریں تو الٹا مجھے کہنے لگے کہ اپنے کام سے کام رکھوں۔ آج کل کی نسل میں کوئی لحاظ ہی نہیں رہ گیا ہے‘

ناز بیگم نہیں جانتیں کہ ان کا دور کب کا گزر چکا ہے۔ وہ ابھی بھی ماضی کی جہالت کے اس تاریک دور میں رہ رہی ہیں جہاں عورتوں

پیدائش سے موت تک دکھی رہتی تھیں افسردہ رہتی تھیں
غمگین رہتی تھیں
خاندان کی خدمت کرتے کرتے اور قربانیاں دیتے دیتے
ناز بیگم کی والدہ کی طرح وقت سے بہت پہلے مر جاتی تھیں۔

ناز بیگم نہیں جانتیں کہ ان کی بہو جس نے شوہر کی وفات کے دو سال بعد اپنی نئی زندگی تخلیق کی ہے۔ نئے دوست بنائے ہیں نیا محبوب بنایا ہے ایسا کرنے سے اس نے اپنے بچوں کو ایک نئی زندگی کا پیغام دیا ہے۔

ناز بیگم مشرقی معاشرے کے تکلیف دہ اور دکھی ماضی کا اور ان کی بہو جدید دور کے خوش حال اور خوش کن مستقبل کی نمائندگی کرتی ہیں۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا!

آپ نے ڈاکٹر سہیل کے کردار کو جس طرح مکالموں میں نبھایا ہے میں اس پر آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ آئندہ بھی افسانے لکھتی رہیں گی۔

آپ کے دل میں ایک افسانہ نگار اور دماغ میں ایک ماہر نفسیات چھپ چھپ کر رہتا ہے اب وقت آ گیا ہے ہے کہ وہ آپ کے دل اور دماغ سے نکل کر کاغذ پر کہانیاں رقم کریں اور دوسروں سے شیر کریں۔

اپنا افسانہ مجھ سے شیر کرنے اور اپنے ماہر نفسیات کے کردار کو ڈاکٹر سہیل کا نام دینے کا شکریہ،
آپ کا مداح
خالد سہیل
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments