شہباز اور عمران، علی وزیر کے لئے ایک پیج پر ہیں


عسکری اصطلاح میں خبروں کے نچوڑ کو انٹلیجنس کہتے ہیں جو ادارے کی یاداشت میں مسلسل فیڈ کی جاتی ہے۔ خبروں کا نچوڑ یہ ہے کہ ہاتھی کی یاداشت کی طرح ادارے کی یاداشت بھی بڑی مستحکم اور دیرپا ہوتی ہے، جہاں شکستوں اور حملوں کو بھلایا نہیں جاتا بلکہ اس کا حساب وقت آنے پر چکا دیا جاتا ہے۔ ماضی سے کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ جب وقت آیا تو کس طرح اور کس کس ملک اور شخصیت کا حساب چکایا گیا لیکن کالم کا موضوع وہ نہیں۔

میثاق جمہوریت اور مشرف کو کلین چٹ نہ دینے کی بنا پر نواز شریف کی حکومت کے دوران پانامہ اور اقامہ سے بے ضمیر ججوں کے ذریعے عمران خان کی سونامی تخلیق کی گئی جس کو آج ہر کوئی بھگت رہا ہے۔ آج بھی نون لیگ کی حکومت ہے اگرچہ وہ پی ڈی ایم کا حصہ ہے جس کے بڑے پارٹنرز مولانا اور زرداری ہیں لیکن نون لیگ کے حصے میں ’حکومت‘ کے ساتھ ساتھ مہنگائی بیروزگاری آٹے، گیس کی شارٹیج اور بدنامی بھی آئی ہے، جس سے باقی دونوں پارٹنرز بچے ہوئے ہیں۔ بلاول اور اسعد محمود کے حصے میں پوری وزارتیں آئی ہیں، جس کے ذریعے اول الذکر بیرون ملک اپنا پی آر بڑھا کر اونچی کرسی کا معتمد امیدوار بن سکتا ہے اور اخر الذکر پاکستان میں واحد چلنے والے ادارے یعنی مواصلات کے ذریعے اپنی پارٹی کے لئے زمین ہموار کر کے رابطے پکے کرا رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف شہباز شریف بمعہ نون لیگ بدنامی تنقید نا اہلی اور ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے اپنے مستقبل پر اسی طرح سمجھوتا کیے جا رہا ہے جس طرح نواز شریف اور مریم نواز نے ووٹ کو عزت دو، کے نعرے پر سمجھوتا کر لیا ہے۔

پاکستانی سیاست میں گاہے بگاہے وقوع پذیر ہونے والے اتفاقات منصوبہ سازوں کی بہترین حکمت عملی کا نتیجہ ہوتے ہیں جس میں طے شدہ مقاصد کے حصول کے لئے سب کچھ قابل استعمال اشیائے صرف ہوتے ہیں۔ کم ہوتا ہوا زر مبادلہ، خارجہ محاذ پر پسپائیاں اور روبہ قلت دوستانہ ممالک کی فہرست، ایک صفحے پر قائم حکومت کے اسی صفحے کی پھٹنے کی زوردار آواز، آپس میں دست و گریباں ہونے والے ڈرامے، بظاہر تو افراتفری لگ رہی تھے لیکن صرف یاداشت نہیں ان کی منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے جو آج وقوع پذیر ہونے والے اتفاقات کی شکل میں نظر آ رہی ہے۔

انجینئرنگ کمپنی نے خود کو دیوالیہ ظاہر کرنا شروع کیا تو نون لیگ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے ووٹ کو عزت دو پر سمجھوتا کرتے ہوئے ’ملک کو بچانا‘ ہے اور ’مشکل فیصلے کرنے ہیں‘ جیسے خود فریبی نعرے اپنائے۔ اس کا خیال تھا کہ آج حکومت ملے گی کل خلاف بنے ہوئے کیسز ختم کرا دیں گے اور پرسوں الیکشن ہو جائے گی۔ باجوہ اور ہمنوا ماضی، عمران اور سونامی جیل اور شریف راج کے پھریرے دوبارہ در و دیوار پر لہرائیں گے۔ لیکن اتحادی حکومت کو ہینڈل کرنا بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی اتحادی کسی بھی پالیسی میٹر میں ٹانگ اڑا کر حکومت کو کسی بھی معاملے میں مجبور کر سکتا ہے پھر ایسی حکومت کو سیدھا کرنا تو ان کے دائیں ہاتھ کا کمال ہوتا ہے، جس کا لیڈر جلاوطن ہو، جس کے خلاف بنے ہوئے کیسز عدالتوں میں اور جس کے خلاف مزاحمت کرنے والے سڑک پر ہوں۔

شاندار جلاوطنی وہ ہوتی ہے جس کی وطن واپسی شاندار ہو۔ جس حکومت میں نواز شریف خود اپنے ملک واپس آنے کا فیصلہ نہیں کر سکتا اس حکومت کے اختیارات اور حدود کہاں تک ہوں گی۔ کوئی اپنے سوٹڈ بوٹڈ وزیراعظم سے پوچھیں جن کی اب شدید خواہش ہے کہ کسی طرح آنے والے انتخابات ٹالے جا سکیں۔ جس نے عمران حکومت کی نا اہلی اور غیر مقبول ہونے کا فائدہ نہ اٹھا کر بروقت انتخابات کا موقع ضائع کر دیا ہے۔ اب غیر معمولی عبوری حکومت کے نام پر ٹیکنوکریٹ آئے یا کوئی اور لیکن انتخابات نہ ہوں، اس کی وہ واحد خواہش ہے جس کے راستے میں بہت سارے دوست اور نیوٹرل حائل ہیں۔ حکومت اگر ایک طرف قومی انتخابات کرانے پر تیار نہیں تو دوسری طرف ضمنی انتخابات میں عمران خان دوسری بار ساری خالی نشستوں پر واحد امیدوار بن کر اسے بند گلی کی آخری دیوار سے لگا چکا ہے۔

پنجاب میں اسمبلی تحلیل کرنے سے پہلے پرویز الٰہی کے ساتھ مل کر عمران خان نے نون لیگ کو جس طرح بدخوابی کا شکار کیا ہے اسے سمجھنے کے لئے اخبارات کا سرسری مطالعہ کافی ہے۔ سرخیاں پڑھیں : نون لیگ نوے دن میں انتخابات کے لئے تیار، پی ڈی ایم کا غیر معمولی اجلاس، ق لیگ پی ٹی آئی کا حصہ بنے گی، مریم واپس آ رہی ہے، امید ہے آرمی چیف شفاف انتخابات کرائیں گے (عمران خان) ۔

کراچی کے انتخابات میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کی ’شہرت‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ نون لیگ پنجاب کے لئے چھوڑی گئی ہے جس کو اس نے ق لیگ اور پی ٹی آئی سے واگزار کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے ووٹرز کو اپنی رواں حکومت کا حساب بھی دینا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی پہلی محبت جماعت اسلامی، دوسری کئی ناموں کے ساتھ حافظ سعید کی جماعت اور تیسری مختلف شکلوں اور ڈیوٹیوں میں مصروف دیوبندی جماعت ہے۔ لبیک کی بات ابھی نہیں کرتے۔

آنے والے انتخابات میں جماعت اسلامی سے غیر معمولی کامیابیاں ملنے کی امید کی جاتی ہے۔ کراچی اسلام آباد اور پختونخوا اس کے ٹارگٹس ہیں، جس کے لئے مذاکرات کے پہلے دور کے بعد خلیج میں بیٹھک متوقع ہے۔ جماعت سینیٹر مشتاق کے ذریعے پختونخوا میں، حافظ نعیم کے ذریعے کراچی میں اور ہدایت الرحمان کے ذریعے بلوچستان میں وہی نعرے لگا کر توجہ حاصل کر رہی ہے جو پختونخوا میں دہشت گردی سے تنگ پختون، بلوچستان میں نا انصافی کے خلاف لڑنے والے بلوچ اور کراچی میں بھتہ خوری اور بدامنی سے تنگ شہری لگاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی یاداشت اور جماعت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گیم اس وقت آخری مراحل میں ہے۔ پی ٹی آئی کو ابھی تک سپیس دے کر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو بارگیننگ پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ شہباز شریف اگر ایک طرف گڈ کاپ کھیلتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو انگیج کیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف پنجاب میں ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر اکٹھی کی گئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھیڑ کے سامنے اپنی بنائی ہوئی شہرت سے ہاتھ دھو رہا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس شکر ہے کوئی شہباز شریف تو نہیں ہے لیکن وہاں بہت سن رسیدہ شکاری زرداری موجود ہے جس نے اپنے بیٹے کو بیرون ملک متعارف کرا کر انٹرنیشنل میدان میں اسے قابل قبول بنوا دیا ہے جو ایک دن اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری بن کر دوسرا بھٹو بن سکتا ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کے لئے آج بھی عمران خان سے بہتر کوئی چوائس نہیں۔

جونیجو جمالی اور شوکت عزیز جیسے یس باس کمپنی پراڈکٹ بھی ان کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے لیکن عمران نے اس وقت تک ایسا کچھ نہیں کیا جب تک کہ وہ اس کے ساتھ تھے۔ اسے کرسی کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے اس کا حکومت کے حصول کے علاوہ کوئی منشور ہے اور نہ منصوبہ۔ جمالی جونیجو اور شوکت عزیز نے کبھی اسٹیبلشمنٹ کی خاطر سیاستدانوں کو گالی دی، جیلوں میں ڈالا اور نہ خڑکمر اور ساہیوال جیسے واقعات پر ان کو سپورٹ دیا اس لیے اب بھی معمولی ضمانتوں کے بعد ان کی بہترین چوائس عمران خان ہی ہو گا۔ باقی اور کس کے ساتھ مراد سعید شہریار آفریدی علی محمد خان جیسے حق گو اور فواد چوہدری جیسے ہر فن مولا موجود ہیں؟

ایم کیو ایم کا اچانک ادغام اور کراچی میں اس کا حالیہ الیکشن پر سمجھوتا، جماعت اسلامی کے ساتھ خفیہ رابطے اور مجوزہ کوٹا پر مذاکرات، پرویز الٰہی کا آخری چمتکار اور اس معاملے میں ’ان کی غیرجانبداری‘ کے علاوہ، وہ غیر سیاسی اور نیوٹرل تو کہیں نظر نہیں آتے۔ البتہ علی وزیر کی رہائی کے مطالبے پر وزیر خارجہ کا کسی اور دروازے پر جا کر دہائی دینے اور وزیراعظم سے علی وزیر کو مسلسل قید میں رکھنے کے سوال پر اس کا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا شکریہ ادا کرنے کا عمل حکومت کو علی وزیر کے بارے میں غیر جانبدار ضرور ثابت کرتا ہے بلکہ علی وزیر کے معاملے پر شہباز شریف کی حکومت اور عمران خان کی حکومت ایک پیج پر ہیں۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments