کچی عمر کا رومان


اس کا تعلق وسطی پنجاب کے ایک دیہی گھرانے سے ہے، کئی نسلوں سے ذریعہ معاش زراعت تھا لیکن اس کے والد نے کچھ عرصہ سرکار کی ملازمت کی تھی اور گاؤں کے معززین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ گاؤں کے ایک کنارے قبرستان اور اس قبرستان میں ایک بزرگ کا مزار ہے، جن سے کئی قصے کہانیاں منسوب ہیں۔ انہی بزرگ کی اولاد اس گاؤں میں بستی ہے ان کے نام کا سالانہ میلہ لگواتی ہے۔ وہ بھی انہی بزرگ کی آل اولاد میں سے ہے۔

اس نے شعور سنبھالا تو خود کو گاؤں کی گلیوں میں پایا۔ گاؤں میں ایک سکول تھا جہاں اس کے تایا اور ماموں پڑھاتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ وہاں جایا کرتا۔ سکول کا ماحول کچھ اس طرح تھا کہ طلبا سب سے پہلے استاد کی کرسی سکول کے اکلوتے کمرے سے نکال کر برگد کے درخت تلے رکھتے، اس کے بعد اپنے بستے سے ٹاٹ نکال کر بچھاتے اور پھر پڑھائی کا آغاز کیا جاتا۔ پڑھائی کا معاملہ کچھ اس طرح تھا کہ جب استاد متوجہ ہوتا تو خوب زور سے الف انار اور بے بکری کی صدا بلند ہوتی، ورنہ باقی وقت قلم دوات کے بھاؤ تاؤ، تختی گم ہو جانے کی شکایت اور استاد کے ڈنڈے کی جارحیت سے بچنے کی سکیمیں بنانے میں گزر جاتا

وہ چونکہ ایک استاد کا بھانجا اور دوسرے کا بھتیجا تھا، اس لیے اسے پانچویں جماعت کے سینئر طلبہ کے ساتھ بینچ پر جگہ ملتی۔ زمینداروں کا بچہ ہونے کے ناتے کمیوں کے لڑکوں کو حسب ضرورت گالی بھی دے لیتا۔

ابھی گاؤں کے پرائمری سکول میں دو چار مہینے ہوئے تھے کہ اس کو دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ شہر بھجوا دیا گیا جہاں ایک پرائیویٹ سکول سے پرائمری کرنے کے بعد شہر کے ایک نیم سرکاری ادارے میں داخل کروا دیا گیا۔ 200 ایکڑ پر مشتمل کالج اپنے آپ میں ایک الگ دنیا تھی میٹرک، ایف ایس سی، او لیول، اے لیول سب کچھ کروایا جاتا۔ کون سے کھیل کی ٹرینگ کے لیے کوچ نہیں تھا، ہر کھیل کے لیے الگ سے میدان، لائیبریری کثیرالمقاصد ہال، لگژری ہاسٹل، ہم نصابی سرگرمیاں اور تقاریب، سالانہ مشاعرہ، درجن بھر سوسائٹیاں کالج کی روایات تھیں۔

کالج میں شہر کے برگر بچوں سے لے کر دیہاتی پس منظر کے اجڈ اور چھٹے ہوئے لڑکوں کے علاوہ بلوچستان کے علیحدگی پسند رجحان رکھنے والے طلبا سے بھی اس کا سابقہ پڑا۔ اس نے کالج میں سات سالہ قیام کے دوران مخلوط تقاریب میں خوب تاکا جھانکی کی، دو چار مرتبہ آنکھ بھی لڑ گئی، ایک معاشقہ بھی چلا، پھر غلط فہمی پیدا ہوئی جس کا انجام بہت نا خوشگوار واقع ہوا۔ کلاسز بنک کیں، کچھ لڑائیاں کیں اور پھر کچھ عرصہ کے لیے کالج سے نکال دیا گیا۔

غیر نصابی کتب پڑھنے کا ٹھرک کافی پرانا تھا اس لیے کالج کی لائیبریری کا شاہد ہی کوئی ناول ہو جو اس نے چھوڑا ہو اور یوں کچھ لکھنے لکھانے کا چسکا بھی پڑ گیا۔ تاریخ، فلسفہ، سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ میٹرک کے بعد اس کا دل تھا کہ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کی جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ دراصل گورنمنٹ کالج لاہور اس کا خواب تھا، جس کی برصغیر میں اعلٰی تعلیم کے حوالے سے ایک الگ تاریخ ہے۔ اقبال، فیض، ن م راشد، پطرس بخاری، بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور قدرت اللہ شہاب جیسے ادیب، درجنوں اداکار، سیاستدان، عدلیہ کے ججز، سول اور فوجی افسران کی ایک لمبی فہرست اس تاریخ کا حصہ ہے

ایف ایس سی کے بعد پھر سے اس کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں داخلے کا جنون اٹھا۔ اس کا جی تھا کہ گورنمنٹ کالج میں انگریزی ادب یا سیاسیات میں داخلہ لیا جائے۔ دوسری جانب اس کے والد چاہتے تھے کہ ایف ایس سی میں اچھے نمبرز لینے کے بعد انجینئرنگ ہی مناسب فیلڈ ہے۔ اس کا نتیجہ یوں نکلا کہ اس نے یو ای ٹی اور گورنمنٹ کالج میں داخلے کے امتحان دیے اور دونوں جگہ داخلہ ہو گیا مگر والدین اور دیگر لوگوں کے اصرار پر اس کو یو ای ٹی ہی آنا پڑا۔

یو ای ٹی آنے سے قبل جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں انٹرویو کے لیے گیا، تو سب سے پہلے گوتھک لیڈی نامی مینار پر نظر پڑی اور اس کے سامنے اوول گراؤنڈ تھا۔ اس کو نہیں معلوم اس ڈیڑھ سو سال پرانے مینار اور اس میں لگے گھڑیال میں کیا تھا، لیکن ایک عجیب کشش تھی۔ کہتے ہیں کہ جب ایوب خان حکومت نے فیض احمد فیض کے لیے گورنمنٹ کالج میں پڑھانے پر پابندی لگا دی تو وہ اوول گراؤنڈ میں بیٹھ کر صرف اس مینار کو تکتے رہتے۔

اسکے بعد شعبہ انگریزی ادب کی تنگ سیڑھیاں اور بالکونی کی راہداری میں فیض، پطرس، صوفی تبسم اور ن م راشد کے ناموں کی تختیاں لگی تھیں، جن کی وجہ سے کالج کے لئے اس کی محبت و عقیدت بڑھ رہی تھی۔ ساتھ ہی اس نے لو گارڈن ( love garden) دیکھا، جہاں رومان اور محبت کی مد میں کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، اور یونیورسٹی انتظامیہ اس کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ اس سے گورنمنٹ کالج کی ڈیڑھ سو سال کی لبرل روایات کو خطرہ پڑ سکتا ہے۔

پھر وہ باغیچہ شہاب گیا، جہاں قدرت اللہ شہاب اپنی کلاسز چھوڑ کر چندرا وتی نام کی ہندو لڑکی کو انگریزی پڑھاتے تھے۔ اس کے بعد وہ ایمپی تھیٹر گیا جہاں ہر شام ایک نئے رنگ کے ساتھ ڈھلتی ہے۔ یہ وہ جگہ تھی کہ جہاں عاطف اسلم، علی ظفر، اور حدیقہ کیانی جیسے فنکار اپنے زمانہ طالبعلمی میں گٹار بجایا کرتے تھے۔ ہاسٹل میں ایک کمرے کو اقبال روم کہا جاتا تھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے زمانہ طالب علمی کے دوران قیام کیا تھا۔ جب اس کے والد نے کہا کہ انگریزی ادب اور سیاسیات پڑھنے کے بعد کیا کرو گے، اس نے جھٹ سے کہا مقابلے کے امتحانات دوں گا۔

”اور اگر وہ پاس نہ کر سکے تو کیا آپشن ہو گا تمھارے لیے“ والد صاحب نے سوال کیا اور وہ لاجواب ہو گیا۔

”تم سی ایس ایس، پی ایم ایس اور دیگر امتحان دینا اور میری دعا ہے کہ تمہیں زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی ملے، لیکن یہ سب تم انجینئرنگ کے بعد بھی کر سکتے ہو اور اس طرح تمھارے پاس دوسرا آپشن بھی ہو گا“ والد صاحب نے نصیحت نما مشورہ دیا۔

” میں ایل ایل بی کر لیتا ہوں، اس طرح میرے پاس وکالت کا دوسرا آپشن بھی ہو گا اور مقابلے کے امتحان کی تیاری کا موقع بھی مل جائے گا“ اس نے درمیانی راستہ نکالا۔

”نہیں تم کل ٹیکسلا جاؤ اور اپنی داخلہ فیس جمع کروا آؤ“ اب کی بار نہ تو نصیحت تھی اور نہ ہی مشورہ بلکہ حکم تھا۔

”اماں تم کچھ کرو نا، وہ یونیورسٹی میرا خواب ہے، میں آٹھویں کلاس میں تھا جب میرا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی پر دل آیا تھا“ اس نے اپنی والدہ سے بڑے دکھی انداز میں کہا۔

”بالکل بھی وہاں نہیں جانا، وہ فلانی کا پتر وہاں پڑھنے گیا تھا، اور وہیں شادی کر لی، اب وہ نا مراد نہ خود یہاں آتی ہے نہ اس کے پتر کو آنے دیتی ہے“ اماں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ شاید اماں کی برین واشنگ کی گئی تھی

”اماں اس کا بیٹا ڈی پی او ہے اور اس کی نامراد بیوی فارن سروس میں ہے“ ۔ اس نے معاملہ واضح کرنے کی کوشش کی لیکن اماں نے کوئی توجہ نہ دی۔

پھر وہ یو ای ٹی آ گیا۔ یو ای ٹی بہت اچھی یونیورسٹی ہے، بہت خوبصورت ہے لیکن وہ گورنمنٹ کالج نہیں ہے۔ اس کو اچھے کلاس فیلو ملے، یونیورسٹی کی سیاست، کلاس کے جھگڑے تنازعے دیکھے، ان سے سیکھا اور سب سے بڑھ کر بہترین رومیٹ ملے لیکن پھر بھی کسی چیز کی کمی ہے

ہو سکتا ہے کل اس کے خیالات بدل جائیں لیکن گورنمنٹ کالج لاہور اس کی کچی عمر کا رومان ہے اور ایسی عمر کے رومان کبھی بھولا نہیں کرتے۔

فراست حسن، ٹیکسلا
Latest posts by فراست حسن، ٹیکسلا (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments