نون لیگ کے سینیئر لیڈر مریم نواز کی ماتحتی میں کام کرنے کو تیار نہیں


میاں نواز شریف نے مریم نواز کو مسلم لیگ نون کا سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنایا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ نون پر عملاً مریم نواز کا کنٹرول ہو گا۔ میاں نواز شریف نے دو ہزار اٹھارہ میں جب ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ بلند کیا تو مریم نواز ان کے شانہ بشانہ رہی۔

میاں نواز شریف کی لندن روانگی اور نون لیگ کی مصلحت کی چادر اوڑھنے کے بعد ووٹ کو عزت دو نعرہ کی گونج مدھم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گئی۔ مریم نواز کی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی بجائے عمران خان کی طرف ہو گیا۔ کسی بھی پریس کانفرنس میں ووٹ کو عزت دو کے حوالے سے جب ان سے سوال کیا جاتا تو وہ خوبصورتی سے اسے ٹال دیتی یا پھر پلیز اگلا سوال کہہ دیتی۔ پبلک جاننا چاہتی تھی کہ نون لیگ معروف بیانیہ سے پیچھے کیوں ہٹی؟ یہ تو بعد میں آشکار ہوا کہ اس کے پیچھے شہباز شریف کی مبینہ طور پر گاڑی کی ڈگی میں بیٹھ کر اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ سے ملاقاتیں تھیں۔

مسلم لیگ ہر دور میں جرنیلوں کی محبوب جماعت رہی۔ ہر آمر کو اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے جب بھی کسی سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے مسلم لیگ کا انتخاب کیا بس مسلم لیگ کے آگے کسی ایک لفظ کا اضافہ کر دیا جاتا۔ مسلم لیگ کی اٹھان ہی بند کمروں سے ہوئی 1906 ء میں جب مسلم لیگ بنی تو اس سیاسی جماعت میں اشرافیہ شامل تھے جو بند کمروں میں فیصلہ کر کے حکم صادر کرتے۔

محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خان کے بعد کوئی ایسا رہنما نہ تھا جو مسلم لیگ کو زندہ رکھتا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے 1953 میں مسلم لیگ کو اتنی اذیت دی کہ وہ کومے میں چلی گئی۔

اکتوبر 1958 میں خود ساختہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1962 ء میں جب وہ صدر بنے تو ان کو اپنی صدارت کو جائز قرار دینے کے لیے ایک سیاسی جماعت کی ضرورت پڑی تو نگاہ انتخاب مسلم لیگ پر ٹھہری۔ کنونشن مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی۔ 1964 میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی جانب سے ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑ رہی تھیں۔ اصل میں وہ مسلم لیگ کے خلاف الیکشن میں حصہ لے رہی تھیں کیونکہ ایوب خان کنونشن مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔

کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اپنی ساری زندگی مسلم لیگ میں گزارنے والی محترمہ فاطمہ جناح مسلم لیگ کے خلاف الیکشن لڑ رہی تھیں؟ یقیناً نہیں کیونکہ اصل مسلم لیگ تو 1953 سے کومے میں ہے۔ ایوب خان کو اقتدار میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت تھی جو اس کی مرضی سے ناچتی رہے۔ ایوب خان کی کنونشن لیگ میں بلاول زرداری کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور چوہدری ظہور الہی دونوں شامل تھے۔ ذوالفقار بھٹو محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جنرل ایوب خان کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ ایوب خان اقتدار ختم ہوا تو کنونشن لیگ بھی دم توڑ گئی۔ 1970 ء کے انتخابات میں کنونشن لیگ کے پاس انتخابات میں حصہ لینے کے لیے امیدوار نہیں مل رہے تھے۔

ضیاءالحق کا مارشل لاء آیا تو مسلم لیگ کے بطن سے جونیجو لیگ اور نون لیگ پیدا ہوئیں۔ جنرل مشرف آیا تو اس نے مسلم لیگ قائد اعظم بنائی تاکہ اپنی صدارت کو جائز قرار دلوا سکے۔

ن لیگ کا پنجاب میں طوطی بول رہا تھا۔ شریف خاندان چار دہائیوں تک پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ 2018 ء کے انتخابات میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو نون لیگ ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لے کر قریہ قریہ گھوم رہی تھی۔ عوام نے اس نعرے کو پذیرائی بخشی اور نون لیگ مقبولیت کی معراج کو چھونے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ انسان چاہتے ہوئے بھی ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا ماضی کی پرچھائیاں ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ میاں نواز شریف ماضی کی طرح ایک بار پھر مصلحت کی چادر اوڑھ کر جرنیلوں سے مک مکا کر کے لندن چلے گئے۔ وہ تین سال دو ماہ سے لندن میں مقیم ہیں۔

شہباز شریف گاڑیوں کی ڈگیوں میں بیٹھ کر رات کے اندھیروں میں جرنیلوں سے ملاقاتیں کرتے رہے جس کے نتیجے میں وزرات اعظمی کے نام کے بچے نے تو جنم دیا مگر نون لیگ کی سیاست عملاً ختم ہو کر رہ گئی۔ عمران خان کو اقتدار سے نکالا گیا تو ان کی جارحانہ سیاست اور بیانیہ سے نون لیگ نے ہر محاذ پر ہزیمت اٹھائی۔ پہلے پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتیجے میں نون لیگ کی سبکی ہوئی پھر پنجاب اسمبلی کی تحلیل پر نون لیگ بشمول پی ڈی ایم کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ن لیگ کی دم توڑتی سیاست کے دوبارہ احیا کے لیے نون لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کو پارٹی چیف آرگنائزر بنا کر عملاً پارٹی ان کے سپرد کر دی۔ میاں نواز شریف کے اس اقدام سے شریف خاندان میں بھی بے چینی پیدا ہو گئی۔ حمزہ شہباز منظر سے غائب ہیں۔ نون لیگ کے سینیئر لیڈر مریم نواز کی ماتحتی میں کام کرنے کو تیار نہیں۔ شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق اور مفتاح اسماعیل نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ”بوٹ کو عزت دو“ میں بدلنے کے بعد نون لیگ کو نیا بیانیہ بنانے میں شدید مشکلات ہیں۔ پارٹی شکست و ریخت کے عمل میں ہے۔ نواز شریف کی لندن طویل قیام نے بھی لیگی کارکنوں کو بددل کر دیا ہے۔

عمران خان کی پاکستان موجودگی سے تحریک انصاف کے کارکنان کا مورال بلند ہے۔ پچھلے نو ماہ سے عمران خان روزانہ کی بنیادوں پر عوام سے رابطے میں ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ مریم نواز جنوری کے آخری ہفتے میں وطن واپس آ رہی ہیں اور وہ دوبارہ جارحانہ سیاست کا آغاز کرنے جا رہی ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ ”بوٹ کو عزت دو“ سے ”ووٹ کو عزت دو“ میں واپسی کیسے ہو گی۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments