امداد سے خیرات تک


مئی 1998ء میں ہندوستان کے جواب میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں کیے ایٹمی دھماکے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی بار پاکستان کا دنیا سے راہیں جدا کرنے کی طرف پہلا قدم تھا۔ مئی کے مہینے میں جب یہ واقعہ ہوا تو پہلا اثر اس کا سیاحت اور تجارت پر پڑا۔ ایک طرف ملک میں آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں کمی آئی تو دوسری طرف یورپ اور امریکہ کی منڈیوں تک پاکستانی مال کی رسائی میں مشکلات پیش آنے لگیں۔

اگلے سال 1999ء میں جب کارگل میں دو ایٹمی ملکوں کے درمیان چھڑی جنگ دنیا کے امن پسند ملکوں اور لوگوں کے لئے بڑی سخت نا امیدی تھی۔ مجھے یاد ہے ان دنوں گلگت میں ایک بین الاقوامی سیاحتی کانفرنس منعقد کی جا رہی تھی جہاں ایک جاپانی خاتون نے جنگ کے بارے میں خبریں سننے کے بعد کھانا کھانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں دوسری بار ایٹمی جنگ نہیں دیکھنا چاہتی۔

ستمبر 2001ء میں ہونے والے واقعات نے رہی سہی کسر پوری کردی جب پاکستان کو مکمل طور پر دوسرے کیمپ میں دھکیل دیا گیا۔ سیاحت ختم ہو گئی، تجارت بند ہو گئی، امریکہ اور یورپ میں رہنے والے پاکستانی شہریوں کے لئے بھی جینا دوبھر ہو گیا تو وطن واپس آنے لگے۔ امریکی امداد اور سعودی آشیر باد سے لڑی گئی افغان جہاد کے مجاہد دہشت گرد ہو گئے اور ساری ذمہ داری پاکستان کے اوپر ڈال دی گئی۔ تاوان جنگ اور امریکی نقصان کے ازالہ کے لئے پاکستان نے اپنا کندھا ہی نہیں سب کچھ پیش کیا تو اس کے رد عمل میں پورا ملک جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔

اس دوران ملک کا سیاسی نظام بھی متزلزل رہا۔ بغیر کسی انتباہ اور اعلان کے چھڑنے والی کارگل کی جنگ نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کے لئے سبکی کا باعث بنی بلکہ ملک کے اندر منتخب حکومت کا خاتمہ بھی اسی جنگ کے الزام اور جوابی الزام کے نتیجے میں ہوا۔ جب ستمبر 11، 2001ء میں امریکہ پر ہوائی جہازوں کا حملہ ہوا تو پاکستان ایک بار بھر آمریت کے شکنجے میں تھا۔

پاکستان ایک ایسا دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آئین کی پاسداری اور تحفظ کی قسم اٹھانے والوں سے آئین کو بچانے کی کوشش وہ کرتے ہیں جن پر اس پاداش میں غداری کا الزام لگ جاتا ہے۔ ملک میں بار بار بے آئینی اور آئین کی بحالی کی جدوجہد نے سیاسی نظام میں ایک ہنگام سا برپا کیے رکھا ہے۔ سیاسی جماعتیں ہر دور میں اپنے ملک کی اسٹبلشمنٹ کے مد مقابل رہتی ہیں اور اسٹبلشمنٹ اپنے ہی ملک کی سیاسی جماعتوں کے خلاف صف آراء ہوتی ہے۔ ملک پونی صدی گزارنے کے بعد بھی حب الوطنی اور غداری کے جذباتی نعروں سے باہر نہیں آ سکا ہے۔

پاکستان سیاسی طور پر جس خطے میں واقع ہے وہ انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جنوبی اور وسط ایشیا کے بیچ میں سویت یونین اور ہندوستان کے درمیان حد فاصل کے طور پر پاکستان کا جھکاؤ ہمیشہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں طرف ہی رہا۔ افغانستان میں سویت مداخلت کے خلاف مزاحمت کاروں کی امداد کا مرکز ہونے کی وجہ سے پاکستان خود سماجی سیاسی اور مذہبی طور پر متاثر ہوا ہے۔ عدم برداشت، مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، خواتین اور اقلیتوں کے خلاف تعصب اس سماج کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔

جنوبی ایشیا کی کثیرالثقافتی، کثیرالسانی، کثیرالمذاہب اور کثیرالنسلی سرزمین کو مذہب کے نام پر پگھلا کر یکجا کرنے کے لئے جو کٹھالی بنائی گئی تھی وہ اپنے وجود میں آنے کے صرف دو دہائیوں میں ہی معاشی و سماجی نا انصافیوں کے ایندھن کی آنچ پر پریشر ککر ثابت ہوئی اور دو لخت ہو گئی۔

پاکستان جہاں واقع ہے یہ خطہ صرف سیاسی اہمیت کا حامل نہیں بلکہ جغرافیائی اور ارضیاتی اہمیت بھی رکھتا ہے۔ ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیوں سے بحیرہ عرب تک سندھو ندی پر ساحلوں، ندیوں، ریگستانوں، صحراؤں، میدانوں، مرغزاروں اور پہاڑوں پر مشتمل یہ ملک اب موسمیاتی تبدیلی کے منفی نتائج کا بھی شکار نظر آتا ہے۔ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں دنیا بڑی تیزی کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں سے گزرے گی تو پاکستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہو گا جو اس سے متاثر ہوں گے ۔

ایک ایسا ملک جو ہر وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو، جہاں لسانی، مذہبی اور نسلی اکائیاں مشترکہ لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہوں، جہاں آدھی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو وہاں قدرتی اور مصنوعی آفات المیہ بن جاتے ہیں ایک چھوٹے سے چھوٹا حادثہ بھی سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر ناقابل برداشت ہوتا ہے۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی اس کی معاشی بنیاد روس کی اشتراکیت کے خلاف مغربی سامراج کے لئے بطور سہولت کار کے کھڑی کر دی گئی تھی۔ نئے آزاد ہونے والے ممالک ہندوستان اور پاکستان کو جب امریکہ نے امداد کی پیش کش کی تو بھارت نے سائنس اور ٹیکنالوجی مانگی اور پاکستان نے عسکری امداد۔ لیاقت علی خان کا روس کے بجائے امریکہ کا دورہ نادانستگی میں نہیں ہوا تھا بلکہ اس بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی بات پہلے ہی ہو چکی تھی اور یہ بھی طے تھا کہ اس دورے کا ایجنڈا کیا ہو گا۔ اس وقت سے آج تک پاکستان کی اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کی ترجیحات میں معیشت، تجارت، صنعت اور کاروبار کے بجائے دفاع اور دفاعی ضروریات ہی رہی ہیں۔ ان ہی ترجیحات کی وجہ سے ایک ایٹمی ملک جس کے پاس میزائل بنانے کی صلاحیت ہونے کے باوجود اتقصادی طور دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔

اشتراکیت کے خلاف عسکری طور پر مضبوط کیا گیا ملک پاکستان سویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد ویسے ہی امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لئے اہمیت کھو چکا ہے اب دوسرے کمیونسٹ ملک چین کے نزدیک آ گیا تو دوستوں کے بجائے دشمنوں کی صف میں بھی شامل ہو چکا ہے۔ دوسری طرف بھارت جو پہلے روسی اشتراکیت کا ہمنوا تھا اب چینی کمیونزم کے خلاف ایک سرخیل کے طور سامنے آ گیا تو امریکہ اور مغربی ممالک کا وزن بھی اسی کے پلڑے میں پڑ گیا جس کی وجہ سے خطے میں طاقت کا عدم توازن پیدا ہوا ہے۔

ایک ایسا ملک جس میں بار بار حکومتوں کا غیر آئینی طریقے سے تختہ الٹایا جاتا رہا ہو، جہاں سیاسی جماعتیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہوں، جہاں طاقتور اشرافیہ قانون سے بالا تر ہو، آدھی آبادی غربت کا شکار ہو، کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہوں، علاج معالجے کی بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہ ہوں، جہاں خواتین اور مذہبی و لسانی اقلیتیں شہری ہی نہ سمجھی جائیں وہاں صرف حکومت اور ریاست کی ہی ناکامی نہیں ہوتی ہے بلکہ پورا معاشرہ ہی زوال کا شکار ہوا ہوتا ہے۔

سیاسی، انتظامی، معاشی، اقتصادی، معاشرتی اور جغرافیائی ناہمواریوں سے نبرد آزما ملک کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قدرتی آفات بقاء کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ ان مسائل کا مقابلہ خیرات اور امداد کے بجائے مضبوط معاشی و حکمت عملی سے ممکن ہے۔

ابھی بھی اتنی دیر نہیں ہوئی کہ ملک کو اس بحران سے نہیں نکالا جاسکتا ہو، بس اس کے لئے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پہلے قدم کے طور پر ان مسائل اور اپنی کمزوریوں سے کنی کترانے کے بجائے تسلیم کیا جائے اور بیٹھ کر حل نکالنے کی کوشش کی جائے ورنہ مغربی ممالک جو کل اپنے مقاصد کے لئے ہمیں امداد دے رہے تھے آج ترس کھا کر خیرات دے رہیں وہ آنے والے کل میں اس سے بھی انکار کریں گے تو حالات اس سے بھی بدتر ہوسکتے ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan