کراچی کے بلدیاتی انتخابات: کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا


کراچی میں دیر آید درست آید کے مصداق اللہ اللہ کر کے بلدیاتی انتخابات ہو گئے۔ اصولی طور پر الیکشن دو سال قبل ہی منعقد ہونا چاہیے تھا چونکہ مدت اگست 2020 میں ختم ہو چکی تھی اور آئینی طور پر چار ماہ میں عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار ملنا چاہیے تھا، مگر سندھ حکومت اس میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی۔ رکاوٹ ڈالنے کے لئے مختلف بہانے تراشے گئے، کبھی حلقہ بندیوں کے نام پر التوا ہوا، تو کبھی قدرتی آفات کو جواز بنا کر دو مرتبہ ان کے شیڈول میں تبدیلی کی گئی، مخالف جماعتوں کو ہر اس در پر دستک دینا پڑی جہاں سے ریلیف ممکن تھا۔

دنیا کی آبادی کے اعتبار سے 12 ویں بڑے شہر کراچی میں تین کروڑ افراد کا بسیرا ہے اس میں مجموعی طور پر پر امن انتخاب بڑی کامیابی ہے، یہ ایسا شہر ہے جہاں ماضی میں گن پوائنٹ پر ووٹ لئے جاتے تھے، عوام خوف کے مارے گھروں سے باہر نہیں نکلتے تھے مگر ان کا ووٹ بھی نتائج میں شامل ہوتا تھا۔

کراچی میں کئی دہائیوں تک بلا شرکت غیرے اقتدار کے مزے لوٹنے والی لسانی جماعت بھی عوام کو یہ حق دینے کے لئے تیار نہ تھی، حلقہ بندیوں کے نام پر وہ بھی عدالت جا پہنچی تاکہ مقامی انتخاب کو کسی صورت بھی منعقد نہ ہونے دیا جائے، ان کے قائدین نے تلخ لہجہ اپنا کر کہا کہ وہ یہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے، لیکن ایم۔ کیو۔ ایم کو عدالتی محاذ پر بھی ناکامی ہوئی، آخری حربہ کے طور پر اس نے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔

جماعت اسلامی کی انتخابی لحاظ سے اس شہر میں واپسی بڑی تبدیلی ہے، یہ کریڈٹ حافظ نعیم الرحمان کے سر ہے، جنہوں نے ہر محاذ پر عوام کی جنگ لڑی، واٹر بورڈ میں پانی چوری کا مسئلہ ہو یا بجلی، پانی، گیس کا ایشو انہوں نے عدالتوں کے در پر دستک دی۔ نسلہ ٹاور کے مکینوں کا معاملہ ہو یا سٹریٹ کرائم، حافظ نعیم الرحمان عوام کے شانہ بشانہ نظر آئے، کراچی کے تمام مسائل کو اجاگر کرنے اور ارباب اختیار کو آئینہ دکھانے و الی سب سے توانا آواز بھی انہی کی تھی، یہ خدمات بغیر اقتدار کے انجام دے کر عوامی نمائندگی کا حق ادا کیا۔

نسل نو کے لئے ”بنو قابل“ پروگرام شروع کر کے یہ پیغام دیا کہ وہ ہاتھ جن میں قلم، کتاب ہونی چاہیے تھی، ان ہاتھوں میں کلاشنکوف تھما کر روشنیوں کے شہر کو مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بنایا گیا۔ جماعت اسلامی کی سماجی تنظیم الخدمت نے سندھ میں 2010 ءکے سیلاب اور کرونا میں امدادی کاموں پر توجہ دی، مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کے چرچوں اور ہندوؤں کے مندروں میں اسپرے کیا اور امداد بھی دی۔

”حق دو کراچی“ کی برسوں کی مسلسل جدوجہد آخر رنگ لے آئی انتیس دن کا وہ دھرنا کراچی والے کبھی بھی نہیں بھولیں گے، جس کی سردیوں، بارشوں نے بھی آزمایا اور آندھی نے بھی خیمے اکھاڑ پھینکے۔ مرد کیا خواتین بھی اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ اس دھرنے میں شریک تھیں مگر کسی نے بھی اپنی جگہ نہ چھوڑی۔ 1979 سے 2016 تک چھ مئیر منتخب ہوئے ان میں سے تین کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا، عبدالستار افغانی دو دفعہ مئیر بنے جبکہ تین کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا، لیکن سیاسی مخالفین بھی مانتے ہیں کہ کراچی کو پرامن، ترقی یافتہ بنانے میں جماعت اسلامی کے میئرز نے کلیدی کردار ادا کیا۔

تین دہائیوں سے پیپلز پارٹی اس صوبہ میں حکمران ہے، مگر بنیادی سہولیات سے یہ شہر محروم ہے، روشنیوں کے شہر کی شناخت ٹوٹی، پھوٹی سڑکیں، پینے کا گندا پانی، غیر معیاری ٹرانسپورٹ ہے۔ کپتان وزیر اعظم تھے تو تحریک انصاف نے ”اتحادیوں“ کے ساتھ مل کر ایک بڑے پیکیج کا اعلان کیا تھا، مگر یہ بھی اہل کراچی کی قسمت بدلنے میں ناکام رہا۔

یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ کراچی کے معاملات میئر آزادی کے ساتھ چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا۔ صوبائی حکومت سندھ نے تمام اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور پی پی پی حکومت سے کام کروانا اتنا آسان نہیں ہے۔ گٹر لائن، سیوریج کا پانی، کتوں کی بھرمار، گندگی کے ڈھیر، تجاوزات، بھتا و رشوت خوروں کو لگام دینے کے لیے کام اور صرف کام پر توجہ دینا ہوگی۔ اسٹریٹ کرائمز، ڈکیتی اور لاقانونیت جیسے مسائل بھی ختم کرنے ہوں گے۔ تاکہ اہل کراچی، آرام سے اپنے گھروں، کاروبار کو دیکھیں اور رات سکون سے سوئیں۔

پیپلز پارٹی طویل عرصے سے کراچی پر قبضے کا خواب دیکھ رہی تھی، چیئرمین بلاول زرداری نے بھی کراچی کا اگلا میئر جیالا ہونے کا عندیہ دیا تھا۔ انتخابات میں سرکاری مشینری کا استعمال نہ ہو پاکستان میں یہ ممکن نہیں۔ بہرحال پیپلز پارٹی 91 اور جماعت اسلامی 88 نشستوں پر کامیاب قرار پائی جبکہ تحریک انصاف 40، نون لیگ 7، جے یو آئی 3، آزاد امیدوار 3، ٹی ایل پی، 2، مہاجر قومی مومنٹ ایک نشست پر کامیاب ہوئی۔ دھاندلی کے الزامات پر پیپلز پارٹی کراچی کے صدر اور صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ انتخابی دھاندلی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، ورنہ میرا اپنا بھائی یو سی الیکشن نہ ہارتا پیپلز پارٹی جماعت اسلامی سے میئر کے لیے بات چیت کرے گی۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی کے عوام نے ہم پر اعتماد کیا ہے، ہم ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔ جبکہ تحریک انصاف کے فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ ہم غیر مشروط طور پر جماعت اسلامی کی حمایت کریں گے۔

ترکی میں طیب اردوان استنبول شہر کے میئر بنے تھے اور انہوں نے استنبول کو جدید ترین شہر بنا دیا تھا جس کے نتیجے میں انہیں پورے ملک میں پذیرائی حاصل ہوئی اور وہ ترکی کے وزیراعظم منتخب ہو گئے کیا پاکستان میں بھی ایسا ممکن ہو سکے گا؟

پاکستان بننے کے بعد پہلے دس برسوں میں کراچی کی بیشتر آبادی مقامی سندھیوں اور مہاجروں پر مشتمل تھی مگر فی زمانہ یہ شہر قومیتوں کے اعتبار سے پورے پاکستان کی ایک تصویر ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاسی معاملات سے قطع نظر شہر کی حد تک اس کا انتظام قابل، ذمے دار، محنتی اور غیر جانبدار لوگوں کے سپرد کیا جاتا تاکہ وہ اس شہر کے مسائل کو سلیقے اور دانش مندی سے حل کرتے مگر ہوا یہ کہ مختلف سیاسی نعروں اور مافیاز کے کنٹرول کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی گئی اور اس شعر میں بیان کردہ یہ منظرنامہ تخلیق ہوا:

حکم حاکم ہے کہ اس محکمۂ عدل کے بیچ
دست فریاد کو اونچا نہ کرے فریادی

اگر قیام پاکستان کے فوراً بعد بلدیاتی نظام کے ذریعے عوام کو تحفظ اور اس کے نمایندوں کو وہ تربیت مل جاتی جس کے ساتھ وہ آگے چل کر اسمبلیوں میں جاتے اور وہاں بھی عوام دوست ماحول تخلیق کرتے تو آج وطن عزیز مسائلستان نہ بنا ہوتا۔

سندھ کے بلدیاتی انتخابات سے غالباً دو دن پہلے سپریم کورٹ کا صوبہ سندھ میں گھوسٹ سکولوں کے حوالے سے ریمارکس آئے۔ پاکستان میں 11000 گھوسٹ سکولوں میں سے سات ہزار گھوسٹ سکول سندھ میں ہیں۔ بات صرف گھوسٹ سکولوں تک ہی محدود نہیں ہے سندھ بھر میں بہت سے ایسے ملازمین بھی تنخواہیں لے رہے ہیں جو فائلوں میں نام کی حد تک درج ہیں لیکن ان کا وجود نہیں ہے۔ معاصر انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق صرف لاڑکانہ ڈسٹرکٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں 293 گھوسٹ ملازمین کام کر رہے ہیں۔

سب سے زیادہ تباہ کن صورتحال گھوسٹ سکولوں کا وجود ہے۔ سرکار کی فائلوں میں اسکول اور اساتذہ موجود ہیں۔ ان سکولوں کے لئے جن کا وجود ہی نہیں سرکاری خزانے سے کروڑوں کے فنڈ جاری ہوتے ہیں۔ عوام کے وسائل کا سیاسی وابستگیوں کے لیے استعمال ہی ہماری قومی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔

پینے کا صاف پانی اس وقت اندرون سندھ اور کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ صاف پانی پر کام کرنے والے ایک سرکاری ادارے نے چند سال پیشتر کراچی بھر سے پانی کے نمونے اکٹھے کیے۔ ان کا تجزیہ دل دہلا دینے والا تھا کہ کراچی کا اسی فیصد پانی پینے کے قابل نہیں اس میں انسانی فضلہ شامل ہے۔ اندرون سندھ میں پانی سے ہونے والی بیماریوں اور صاف پانی کی کمیابی کا ایک کیس 2017 میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں زیرسماعت رہا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اندرون سندھ کے پانی میں جگر کی مختلف بیماریوں کے وائرس پائے گئے ہیں۔ یہ پانی پینے سے لوگوں میں جان لیوا بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ کاش ہمارے حکمران اپنے مفادات سے ہٹ کر کچھ عوام کا بھی سوچ لیں۔

تبدیلی سے بھی لوگوں نے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں مگر وہ سب خاک ہو گئیں۔ ٹی وی سکرینوں پر براجمان بعض اینکر پرسنز، خان صاحب کے اب بھی گن گاتے ہیں اور کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی لینڈ سلائیڈنگ وکٹری کی خبریں سنا رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے دوسرے تجزیہ نگار اور سوشل میڈیا ہینڈلرز کہہ رہے تھے کہ کراچی کے 85 فیصد ووٹ پی ٹی آئی کو پڑیں گے۔ نتائج آنے لگے تو خود کچھ نہ کہہ سکے، پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے بیانات چلانے لگے کہ واردات ہو گئی!

اسی دوران عمران اسمعٰیل نے یہ خوش کن اطلاع بھی دی کہ نئے میئر کے نام کا اعلان عمران کریں گے۔ تحریک انصاف دھاندلی کی بات کرنے سے پہلے لیاری سے اپنے رکن اسمبلی سے پوچھ لیتی کہ ضمنی انتخابات سے پہلے اس نے استعفیٰ واپس کیوں لیا؟ اگر وہاں جیتنے کے امکانات ہوتے تو وہ کبھی اپنا استعفیٰ واپس نہ لیتے اور پھر ملیر کی سیٹ پر خود عمران خان کوایک بڑے مارجن سے شکست ہوئی تھی۔

ان انتخابی نتائج کا اثر صرف کراچی یا سندھ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ نوے دن بعد پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ہونے والے انتخابات پر بھی پڑے گا اور خان صاحب کی نام نہاد مقبولیت کے بل بوتے پر جس دو تہائی اکثریت کا پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کراچی کے انتخابی نتائج نے اس دو تہائی اکثریت کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے اور الیکٹرانک میڈیا کے ہمارے کچھ دوست جو دو تہائی اکثریت کے پروپیگنڈا کے قائل ہو رہے تھے انھیں بھی ان نتائج سے سمجھ آ گئی ہوگی۔

2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو کراچی کی 21 میں سے 14 نشستیں ملی تھیں لیکن بلدیاتی انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ کراچی میں کل 246 میں سے 235 نشستوں پر انتخابات ہوئے جبکہ گیارہ پر امیدواروں کے انتقال کی وجہ سے الیکشن ملتوی ہو گئے تھے۔ تحریک انصاف ان میں سے صرف 40 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر سکی جبکہ جماعت اسلامی 88 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور پاکستان پیپلز پارٹی 91 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ جو نتائج آئے ہیں ان پر ہر جماعت اپنے انداز سے تبصرے اور تجزیے کر رہی ہے لیکن کوئی کچھ بھی کہے ان نتائج نے ایک بات تو بہر حال ثابت کر دی کہ خان صاحب نے اپنے چار سالہ دور میں جو تیر مارے تھے ان انتخابات میں تحریک انصاف نے اس کا پھل پایا۔

دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کا مئیر کس جماعت سے بنتا ہے فی الحال تو کسی جماعت کے پاس اکثریت نہیں ہے لیکن کس کے پاس کتنی عددی اکثریت ہے اس کا پتا مخصوص نشستوں کے انتخابات کے بعد چلے گا۔ نتائج میں تاخیر کو لے کر دھاندلی کی بات کی جا رہی ہے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس مرتبہ تمام نتائج تیس گھنٹوں میں آ چکے تھے جبکہ 2015 کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو مکمل ہونے میں تین دن لگ گئے تھے یہی عالم 2018 میں تھا۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور ملک کا معاشی حب ہے اس لئے یقیناً ان انتخابات کی اپنی ایک اہمیت ہے۔

جماعت اسلامی کو تین بار کراچی کی میئر شپ ملی، جس میں ابتدائی دو ادوار وہ تھے جب ایم کیو ایم کا وجود ہی نہیں تھا، اور 2001 میں بھی ایم کیو ایم بائیکاٹ کے باعث جماعت اسلامی کو موقع ملا۔ اس دوسرے انتخابی مرحلہ سے تین دن قبل ایم کیو ایم کے مختلف الخیال گروپ متحد ہو گئے۔ مصطفی کمال کی پی ایس پی اور فاروق ستار کی بحالی رابطہ کمیٹی کے ایم کیو ایم میں شامل کیے جانے کے وقت تینوں تنظیموں کے رہنماؤں کی تند لب و لہجہ میں کی گئی پریس کانفرنس اور مصطفی کمال کے ذومعنی جملے ’ہم ذرا سا شریف کیا ہوئے پورا شہر ہی بدمعاش ہو گیا ”کراچی اور حیدر آباد کی سیاست کے پرانے رنگ ڈھنگ لوٹ آنے کے اشارے تھے۔ ایم کیو ایم نے دو بنیادی غلطیوں کی وجہ سے موجودہ انجام سے دوچار ہوئی۔ ایک 2016 میں بلدیاتی الیکشن جیتنے کے باوجود انتہائی مایوس کن کارکردگی اور دوسری 2018 میں باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت میں شامل ہونا اور پھر 2022 میں اس سے اتحاد توڑنا۔

حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم کا اعتراض اس کا سیاسی موقف ہے اس حوالے سے جو الزام لگایا جا رہا ہے ماضی کی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ایسا ہی الزام ایم کیو ایم پر لگتا رہا کہ اس نے فوجی ڈکٹیٹروں کی سرپرستی میں مرضی کی حلقہ بندیوں سے، سیاسی مخالفین کو نمائندگی کے حق سے محروم رکھا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اگر ایم کیو ایم کے خیال میں حلقہ بندیاں غیرفطری اور سیاسی عصبیت پر مبنی تھیں تو پی ڈی ایم سے اتحاد کے وقت پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی سے ہونے والے معاہدہ میں اس حوالے سے شق کیوں نہ لکھی گئی؟

بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلہ میں تلخیوں اور جھگڑوں کے چند اکا دکا واقعات کے علاوہ پولنگ کا عمل مجموعی طور پر پرامن رہا۔ سینہ زوری اور دھاندلی کے ایک دوسرے پر الزامات تقریباً سبھی نے لگائے پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے انتخابی ضابطہ اخلاق کو جس طرح پامال کیا ان افسوسناک واقعات کی وائرل ہونے والی ویڈیوز کی بنا پر الیکشن کمیشن، پولیس نے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

مناسب یہ ہو گا کہ انتخابی عمل میں حصہ لینے والی جماعتیں نتائج کو کھلے دل سے قبول اور بائیکاٹ کرنے والے اپنے فیصلے کے مضمرات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ الیکشن کمیشن، سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لائق تحسین ہیں کہ بائیکاٹ اور افواہوں سے بنائے گئے مصنوعی خوف کے ماحول میں وہ انتخابات کرانے میں کامیاب ہوئے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کا بھی فوج اور پولیس کی طرح پورا ایک ادارہ ہونا چاہیے جس کے ماتحت تمام عملہ ہو، نہ کہ اسے صوبائی حکومت یا مقامی انتظامیہ کی مدد درکار ہو ورنہ ”صاف و شفاف الیکشن“ کی حسرت رہے گی۔

کراچی الیکشن میں مایوس کن ٹرن آؤٹ کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ 1۔ سیاسی و انتخابی بے یقینی نہ صرف عوام میں بلکہ خود سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو بھی یقین نہیں تھا کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں۔ 2۔ ایم کیو ایم کا بائیکاٹ۔ 3 عوام کی پورے نظام سے عدم دلچسپی اور مایوسی۔ اگر مئیر شپ جماعت اسلامی کو ملتی ہے تو اس کے پاس تنظیم بھی ہے اور بلدیاتی الیکشن کا تجربہ بھی۔ دیکھتے ہیں آنے والے چار برسوں میں بلدیاتی ادارے با اختیار ہوتے ہیں یا بے اختیار ہی رہتے ہیں۔

پاکستان میں جمہوری حکومتوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا نہ ہونا ہے۔ بہترین طرز حکومت وہ ہوتا ہے جو نچلی سطح پر عوام کی مرضی سے عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلایا جائے اور اس کے لئے تمام ترقی یافتہ ممالک میں منتخب مقامی حکومتوں کا نظام رائج کیا جائے لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتیں قومی ہوں یا صوبائی، مقامی حکومتوں کی دل سے دشمن ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت کچھ اختیارات صوبوں کو منتقل ضرور کئے گئے لیکن کوئی بھی صوبہ ہو مسلم لیگ کی حکومت ہو، پیپلز پارٹی کی یا پی ٹی آئی کی، وہ اس کی روح کے مطابق پرووینشل فنانس کمیشن کے تحت اضلاع میں وسائل تقسیم کرنے کو تیار نہیں۔

عمران خان نے پنجاب میں اقتدار میں آتے ہی منتخب بلدیاتی ادارے توڑے اور ان کی جگہ بیوروکریسی کو مسلط کیے رکھا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی ممکن حد تک لیت و لعل سے کام لیتی رہی۔ بلوچستان اور پختونخوا میں بھی بلدیاتی اداروں کو مفلوج کرنے کی تمام حدیں پار کردی گئیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں لوکل کونسلیں نہیں بلکہ با اختیار بلدیاتی حکومتیں کام کر رہی ہیں جس کی وجہ سے وہاں کی جمہوریتیں ڈیلیور کر رہی ہیں۔

پولیس اور مقامی انتظامیہ مقامی حکومتوں کے کنٹرول میں ہوتی ہیں۔ گلی نالے یا اسکول وغیرہ سے وفاقی یا صوبائی حکومت کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں صرف سرکاری معاملات ریگولیٹ کرنے اور ملکی یا صوبائی سطح پر قانون سازی کا کام کرتی ہیں۔ اس لئے وہاں کی پارلیمنٹ میں پیسے والے یا پارلیمنٹ کے ذریعے پیسے کمانے والے نہیں بلکہ قانون سازی میں دلچسپی رکھنے والے ہی پہنچتے ہیں۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں کسی حد تک ترقی یافتہ دنیا جیسے مقامی حکومتوں کے نظام کو رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے کچھ تو اسے بیوروکریسی نے چلنے نہ دیا اور پھر مسلم لیگ (ق) نے اقتدار میں آتے ہی اس نظام کو دوبارہ بے دست و پا بنا دیا۔

پاکستان میں بھی جمہوری نظام اسی وقت ڈیلیور کرے گا جب اس کے لئے مقامی حکومتوں کا نظام اس کی اصل روح اور اختیارات کے ساتھ رائج ہو گا۔ ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز دینے کا سلسلہ آئینی طور پر ختم کرنا ہو گا۔ اس ہائبرڈ نظام کی وجہ سے ہمارے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز دن رات ترقیاتی فنڈز ہتھیانے اور حلقے کے عوام کو نوکریاں دلوانے میں مگن رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ پیسے والے لوگوں کے لئے پرکشش جگہیں بن گئی ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں جو برائے نام بلدیاتی نظام رائج ہے، ہم نے اس کو بھی مذاق بنایا ہوا ہے اور یہاں بھی صوبائی حکومتوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ عوام کے حقیقی نمائندے منتخب نہ ہوں۔ پہلے ہم نے خیبر پختونخوا میں اس کا مشاہدہ کیا جہاں الیکشن کے دن پی ٹی آئی کے صوبائی وزرا بیلٹ باکس اٹھائے ہوئے دیکھے گئے اور سرکاری وسائل کے زور سے اکثر جگہوں پر من پسند لوگوں کو مسلط کیا گیا۔ دوسری طرف صوبائی حکومت اختیارات نہ دے کر ان کو مفلوج کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ’جاتی ہے۔

کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی طرف سے میئر کے لیے نامزد کردہ امیدوار یوسی الیکشن میں بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ بدقسمتی سے ملک میں منعقد ہونے والے کوئی بھی انتخابات دھاندلی کے الزامات سے پاک نہیں ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے جن حالات میں ان انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا ہے اس پر وہ تحسین کا مستحق ہے۔ جگر مراد آبادی نے نہ جانے یہ شعر کس تناظر میں کہا تھا مگر یہ کراچی کے انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے رویے اور پھر الیکشن کمیشن اور بے لاگ عدالتی فیصلے کی مکمل تصویر کشی کر رہا ہے۔

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments