نیئر مصطفیٰ کی کتاب: ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری


کسی بھی دور کا ادیب اس کے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ ادیب وہی لکھتا ہے جو وہ دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے بلکہ ایک قلم کار تو اردگرد کی چیزوں کو عام آدمی سے زیادہ گہرائی سے دیکھتا ہے۔ یہی چیز ہمیں نیئر مصطفیٰ کے ہاں بخوبی ملتی ہے۔ نیئر جدید دور کے افسانہ نگار ہیں اور ان کے افسانوں میں جدیدیت صاف دکھائی دیتی ہے۔ وہ روایت سے چمٹ کر پرانی دنیا میں نہیں رہتے بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اپنے ماحول کو بیان کرتے ہیں۔

نیئر کی کتاب ”ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری“ پڑھی۔ یہ ان کا افسانوی مجموعہ ہے جو پہلے ”سٹی بک پوائنٹ“ سے 2010 ء میں اور پھر 2021 ء میں شائع ہوا۔ کتاب کا انتساب ہی اتنا مسحور کن ہے کہ قاری اس میں محو ہو جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو:

” ایک روشن آنکھوں والے لڑکے کی راکھ کے نام!

جسے بقاء کے گھناؤنے سمجھوتوں نے اپنی غلیظ ہتھیلیوں میں اکٹھا کرنے کے بعد سماج کی گندی نالی میں بہا دیا۔ ”

یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ 10 دوسرا حصہ 8 اور تیسرا حصہ 6 افسانوں پر مشتمل ہے۔ ہر افسانہ اپنی بنت کے اعتبار سے دوسرے سے مختلف نظر آتا ہے۔ اور قاری کئی عرصے تک ان میں کھویا رہتا ہے۔ ہر افسانے کے کردار کی زبان بھی اس کی معاشرتی حیثیت کے مطابق استعمال کی گئی ہے۔

پہلے حصے کے افسانے نسبتاً عام کہانیوں کی طرز پر ہیں جبکہ دوسرے اور تیسرے حصے میں مصنف کا قلم اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ ان حصوں میں کچھ علامتی اور تجریدی افسانے بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ افسانے بھی عام فہم ہیں۔

پہلے حصے کے پہلے افسانے کا نام ہی اتنا حیران کن ہے کہ قاری فوری طور پر اگلے جہان کی زندگی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ یہ کہانی ایک عام گھریلو فرد کی داستان ہے جسے بچپن ہی سے جھکنا اور خاموش رہنا سکھایا جاتا ہے۔ ”بخاری صاحب کا ہٹلر“ ایک قدامت پسند اور انا پرست کی کہانی ہے جس پر جب زندگی کی حقیقت عیاں ہوتی ہے تو اپنی آنا کی تسکین کے لیے اپنے ہی محبوب کتے ہٹلر کا سر اڑا دیتا ہے۔ ”ڈوبتے ہوئے سورج کا لمس“ ایک نیم انقلابی نوجوان اور خوبرو حسینہ کی ناکام محبت کی داستان ہے جو اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ جاتی ہے۔

”بوڑھا چارلی اور ریمبراں“ ایک ناکام مصور کی داستان ہے جو نفسیاتی مریض بن کر مافوق الفطرت عناصر کا سہارا لیتا ہے اور اپنے تخلیق کردہ ہم شکل کو مٹانے کی کوشش میں خود مر جاتا ہے اور بعد از موت مشہور ہو جاتا ہے۔ ”بولنے والے طوطے اور ظالم بادشاہ کی کہانی“ ایک تاریخی افسانہ ہے جس میں عرب کے اس دور کی تصویر کشی کی گئی ہے جب وہاں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ ”رنگوں میں سوچنے والی لڑکی“ جدید نسل کے نوجوانوں کی عکاس ہے۔

جن کی محبت کے دعوے محض تب تک ہیں جب آپ ان کے ساتھ ہیں دور ہوتے ساتھ ہی سب بدل جاتا ہے۔ ”چاچا ممدو vs گاما تیلی“ دو ایسے انسانوں کی داستان ہے جس میں ایک پر سماج نے شرافت اور انقلابیت کا ٹھپا لگا رکھا ہے جب کہ ایک پر برائی کی کالک مل رکھی ہے۔ لیکن دونوں ہی کردار سماج کے خطابات کے بر عکس ہیں۔ ”نو انٹری“ بلاشبہ منٹو کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ایک ایسی رنڈی کی داستان جو سماج کے دکھوں کی کڑواہٹ کو خاموشی سے پیتی ہے لیکن کبھی اپنی زبان نہیں کھولتی۔

انا ایسی اس کا اپنا دلال جو اسے پسند بھی کرتا ہے اس کے ساتھ خلوت کے چند لمحے چاہتا ہے اور اس کی قیمت ادا کرنے کو بھی تیار ہے۔ لیکن وہ صاف انکار کر دیتی ہے اور جب ایک لڑکے پر فریفتہ ہو کر زبان کھولتی ہے تو وہی مردانہ بے وفائی سامنے آتی ہے اور شبو کی جان لے جاتی ہے۔ ”رقیب سے“ ایک ایسی داستان ہے جس میں غلام عباس کی آنندی اور منٹو کی سوگندھی کے بیچ میں نیئر مصطفیٰ کی غزالہ عارف کھڑی ملتی ہے لیکن وہ ان دونوں سے یکسر مختلف ہے۔ جو اپنی محبت کا باقاعدہ اظہار نہیں کرتی بلکہ اس اظہار کے لیے دوسروں کو سہارا بناتی ہے۔

دوسرے حصے کا پہلا افسانہ ”خرم اینڈ کمپنی“ ایک عجیب قسم کا افسانہ ہے۔ جس میں ایک شخص کے میسج انباکس کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اس میں وہ کردار خود سامنے نہیں آتا بلکہ اس کے انباکس میسجز کے ذریعے سے اس کے حالات اور اس کی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ( اگر اس سے پہلے ایسا افسانہ نہیں لکھا گیا تو ) یہ اردو افسانے میں نیا تجربہ ہے۔ اگلا افسانہ ”سچ/جھوٹ“ بھی اسی طرز کا افسانہ ہے جس میں کردار خود سامنے نہیں آتے۔

یہ ایک کیس کے متعلق ہے جس میں عذرا شاہین کا بیان قلم بند کیا گیا ہے اور اس کے ذریعے سچ جھوٹ کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ”عبدالغنی جیکسن“ اپنی نوعیت کا منفرد افسانہ ہے۔ جس میں ایک کردار جس کا نام واضح نہیں اپنے دوست جیکسن کی روداد بیان کرتا ہے۔ جیکسن جو ایک زندہ دل انسان ہے اور اپنی زندگی کو پوری طرح سے انجوائے کرتا ہے۔ لیکن جب وہ ایک لڑکی سے عشق کرتا ہے تو وہ انکار کر دیتی ہے اور جیکسن خود کشی کر لیتا ہے۔

”گلوبل ولیج“ ( ایک پروپیگنڈا اینیمیٹڈ فلم کا خلاصہ) ایک علامتی افسانہ ہے جس میں طاقت کے بے جا استعمال کو بیان کیا گیا ہے اور معصوم انسانیت پر ظلم کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ”اور کٹ ڈاٹ کام کی ایک پروفائل“ نوجوان نسل کا عکاس ہے جن کی محبت موبائل فون سے شروع ہو کر وڈیو چیٹ پر جنسی سکون کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ اور اگر بیچ سرحد آ جائے تو سارے وعدے دھرے رہ جاتے ہیں۔ یہ افسانہ ”معنی کی تلاش میں کچھ تبدیلی کے ساتھ موجود ہے۔

افسانہ“ اوریجنل ”بھی اختصار کے ساتھ“ معنی کی تلاش میں موجود ہے۔ یہ ایک ایسے نئے لکھاری کی داستان ہے جو سقہ بند ادیبوں کی تاب نہ لا کر لکھنا ترک کر دیتا ہے۔ کیوں کہ ادیبوں کو اس کی تحریر میں اوریجنیلٹی نہیں ملتی۔ ” (نا) مردانگی کی فینٹسی“ بھی عبدالغنی جیکسن کی طرز پر لکھا گیا ہے۔ جس میں ایک شخص اپنی بیوی کی داستان بیان کرتا ہے جو اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ اور بعد ازاں اسے ایک چکلے پر ملتی ہے۔ ”عمران مینگو، بہشتی زیور، اور مادام بواری کی کہانی“ دو ایسی لڑکیوں کی کہانی ہے جو ایک دوسرے کے بر عکس ہیں۔ عمران مینگو ایک واہیات قسم کا کردار ہے جو کئی پھول توڑ چکا ہے اور ان کے کانٹوں کو اپنے دامن پر سجائے ہوئے ہے۔ اختتام پر وہ یہ بتاتا ہے کہ جسے وہ ایک جنسی مشتعل لڑکی سمجھتا تھا وہ تو بالکل اس لڑکی کی طرح نکلی جو بالکل سیدھی سادی اور حیا دار ہے۔

تیسرے حصے کا پہلا افسانہ ”سوسائیڈ جنکشن“ ایک علامتی افسانہ ہے۔ جس میں مصنف نے نہایت مہارت کے ساتھ یزداں کی نا انصافیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس افسانے میں پارس مذہب کا بانی بھی اپنی ہلکی سی جھلک دکھاتا ہے۔ اگلا افسانہ ”جہنمی“ بھی علامتی افسانہ ہے۔ جس میں ایک شخص کے جہنم میں جانے کی داستان بیان کی گئی ہے۔ جہنم کا وہ نقشہ کھینچا گیا ہے جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ لیکن اس میں یہ طنز بھی ہے کہ ایک شخص جو زندگی اس دنیا کے جہنم میں گزار کر جاتا ہے اسے پھر وہاں بھی ایک جہنم کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تو یہ کیسا انصاف ہے۔ افسانہ ”خواب زار میں سمفنی“ میں ایک کردار سوچ کے دھارے میں بہہ کر کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔ اپنی تنہائی میں وہ سوچ کی کشتی پر بیٹھ کر جہان بھر کی سیر کرتا رہتا ہے۔ اور جب اس کی تنہائی کا وقفہ کچھ عرصے کے لیے کسی کے آنے اور چلے جانے کے بعد ختم ہوتا ہے تو وہ پھر انہیں خیالات کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ ”سینٹرل چوک“ خوف و ہراس کو بیان کرتی داستان ہے۔ خوف و ہراس کا ایک ایسا وقت جو ہم سب نے کاٹا ہے۔

” بائی پولر“ میں ایک شخص کے جنسی جذبات کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ آخری افسانہ ”ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری“ ایک ایسے شخص کی کہانی جو دھنوں کا خزانہ لیے گھوم رہا ہے جو انسان کے خیالات کو جان سکتا ہے جو یہ جان چکا ہے کہ یہاں مرد ناکارہ ہو چکے ہیں عورتیں کردار سے گر چکی ہیں۔ اسے کوئی ایسا نہیں مل رہا جسے وہ یہ خزانہ دے سکے بالآخر وہ ایک لڑکا جسے وہ کامل سمجھتا ہے اور سارا خزانہ اس کی سماعتوں کی نذر کر کے دریا میں کود جاتا ہے یہ جانے بغیر کہ اس لڑکے کے تو کان ہی نہیں تھے۔

نیئر کے افسانے قاری کے ذہن پر اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں اور وہ ان کے سحر میں کئی عرصے تک رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments