میں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیوں کیا؟


آج قلم میں اعتراف کی بوند ہنگامہ آرا ہے۔ فیض صاحب نے فرمایا تھا، ’آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے‘ ۔ ہماری روایت میں میرؔ صاحب بہت بڑے آدمی گزرے ہیں۔ اردو شعر میں کمال ہنر، نزاکت احساس اور کائناتی شعور کے امتزاج کا معجزہ میرؔ ہی کے حصے میں آیا۔ انہیں خود رائی اور طنازی زیب دیتی تھی۔ تجھے میرؔ سمجھا ہے کم یاں کسو نے۔ ہم خاک نشینوں کو یہ درجہ نصیب نہیں ہوا۔ البتہ ہمارے حصے میں رائیگانی کی گرد ملال ضرور آئی۔ اسی غبار پر انگلیاں پھیر کر اس خواب کی نقش گری کرتے ہیں جس کی تعبیر ممکن تھی مگر وقت اور مقام راس نہیں آئے۔

اسے شکوہ مت سمجھیے۔ زندگی بذات خود ایک احسان ہے جس کا تشکر واجب ہے۔ روشنی دکھانے والے بزرگوں، علم کی گتھیاں سلجھانے والے اساتذہ اور بارش کی بوندوں کے مانند محبت کی ٹھنڈک ارزاں کرنے والے دوستوں کے بغیر زندگی کیسے تصور کی جائے۔ تاہم یہ شعور بھی ضروری ہے کہ ہماری حد پرواز میں ایسی کون سی دیواریں حائل ہوئیں، جن کے نہ ہونے سے زندگی زیادہ سبک ہو سکتی تھی، مہارتوں کے ارفع تر معیار تک رسائی ممکن تھی۔ بخشندہ صلاحیتوں کو بہتر طور پر بروئے کار لایا جا سکتا تھا۔ جنت مکانی احمد بشیر فرمایا کرتے تھے کہ ’جنگ سے نہیں، قحط سے ڈرو۔ قحط وہ بلا ہے جو انسان کو اندر سے بدل کے رکھ دیتی ہے‘ ۔ اپنے استاد سے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے ان کے استاد اور اپنے روحانی مرشد چراغ حسن حسرت کو یاد کرتا ہوں، اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت۔ قحط کا عذاب فرد کی نفسیات پر گرہیں لگاتا ہے مگر جنگ کا عفریت بستیاں اجاڑ دیتا ہے، تہذیب کے ورثے کو ملیامیٹ کر دیتا ہے۔

قحط اور جنگ ہی کی طرح وہ قوم بھی اپنی حقیقی قامت سے محروم ہو جاتی ہے جہاں شہریوں کو اپنے وسائل کی تقسیم پر اختیار نہ ہو، فیصلے کرنے کی آزادی نہ ہو، سوال اٹھانے کی اجازت نہ ہو، علم پر پہرے بٹھا دیے جائیں، نئے راستوں کی جستجو کا اذن نہ ہو۔ شاید آپ کو خیال آئے کہ یوں اشارے کنائے کی بجائے سیدھے سیدھے آمریت کیوں نہیں کہتے۔ عزیزو، اکیسویں صدی میں آمریت نے بھی نئے بہروپ دریافت کر لئے ہیں۔ چند ممالک کو چھوڑ کر دنیا کے بیشتر حصوں میں آمریت پردہ پوش ہو گئی ہے۔ پاکستان ہی کو لیجیے۔

ان دنوں فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پر ہر طرف سے تنقید ہو رہی ہے اور یہ تنقید عام طور پر سیاسی وابستگیوں کی آئینہ دار ہے۔ تاہم ہمارے کتنے تعلیم یافتہ شہریوں کو یاد ہے کہ ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کی اصطلاح فروری 2018 میں میونخ سیکورٹی کانفرنس کے 54 ویں اجلاس میں سامنے آئی تھی۔ چند ہفتے بعد جنرل صاحب نے چنیدہ صحافیوں سے گفتگو میں اپنے خیالات کا کھلم کھلا اظہار کیا تھا۔ الفاظ نرم، لہجہ معقول اور مخملیں اصطلاحات مگر پیغام بالکل واضح تھا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جنرل صاحب نے 23 نومبر 2022 کو یوم شہدا کی تقریب میں جن غلطیوں کا اعتراف کیا تھا، وہ وسط مارچ 2018 میں بیان کیے گئے ان ارادوں کا فسخ ہی تھا جب 18 ویں ترمیم کو چھ نکات سے بھی زیادہ خطرناک کہا گیا تھا۔ تفصیل جاننا ہو تو جنگ گروپ کے انگریزی اخبارThe News ٰInternational کی 18 مارچ 2018 کی اشاعت میں برادرم سہیل وڑائچ کا مضمون ”The Bajwa Doctrine: from chauvinism to realism“ پڑھ لیں۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ آئیے آپ کو ایک قصہ سنائیں۔

سوویت آمر جوزف سٹالن نے 1929 سے 1933 تک اجتماعی زراعت کا تجربہ کیا جس کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 60 سے 70 لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔ آمریت عام شہری کی آواز تو دبا سکتی ہے لیکن نا انصافی کی نشاندہی فنکار کی سرشت میں شامل ہے۔ روسی شاعر مینڈل سٹام نے سٹالن کی ایک ہجو لکھ ڈالی۔ اس نے یہ نظم بورس پاسٹرناک کو سنائی جسے حالات کا بہتر اندازہ تھا۔ پاسٹرناک نے مینڈل سٹام سے صرف یہ کہا کہ ’تم نے مجھے یہ نظم نہیں سنائی اور نہ میں نے سنی۔ کسی اور کو بھی مت سنانا‘ ۔

مگر آمریت کو سن گن مل چکی تھی۔ 16 مئی 1934 کو مینڈل سٹام گرفتار ہو گیا۔ بظاہر ’منحرف شاعر‘ سے لاتعلقی ظاہر کرنے والے پاسٹرناک نے اپنے دوست کی خلاصی کے لئے مقدور بھر کوشش کی مگر بے سود۔ 13 جون 1934 کو سٹالن نے پاسٹرناک کو فون کیا۔ مینڈل سٹام کی سزا کم کر کے اسے ایک دوردراز شہر میں جلا وطن کرنے کی خبر سنا کر پوچھا، ’وہ تمہارا دوست ہے؟‘ خوفزدہ پاسٹرناک نے ملفوف جواب دیا کہ شاعر اپنے ہم عصروں کے دوست نہیں ہوتے بلکہ ان میں تو ’باہم چشمک‘ کا تعلق ہوتا ہے۔ سٹالن نے اگلا سوال کیا کہ ’تمہارا اس کی شاعری کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘ پاسٹرناک نے پہلو بچانا چاہا تو فون کٹ گیا۔ پاسٹرناک کو براہ راست سزا دینے کی بجائے اس کی محبوبہ اولگا کو سائبیریا بھیج دیا گیا تاکہ شاعر جسمانی عقوبت کی بجائے ذہنی اذیت کا شکار ہو۔

ہمارے ہاں بھی قلم کار کے لئے ’منتخب دہشت اور نادیدہ دباؤ‘ کا نسخہ اپنایا گیا ہے۔ بظاہر اظہار آزاد ہے مگر کلیدی سوال کو ریڈ لائن کہتے ہیں۔ آپ کا نیاز مند سوچ، ذوق اور اکل و شرب میں ’مغرب زدہ‘ ہے۔ عہد جوانی میں برسوں جہاں گرد رہا، ایک دنیا دیکھی مگر اب کوئی 15 برس سے مٹی پکڑ رکھی ہے۔ سبب صرف دو ہیں۔ پاکستان میں نیم مردہ ضمیر کے ساتھ جینے میں بھی جو معنویت ہے، وہ کہیں اور میسر آنا مشکل ہے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کے بظاہر سادھارن انسانوں جیسی شکر گزار قوم دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ اہل پاکستان ایک پیسے کی اچھائی کے بدلے سو گنا محبت دیتے ہیں۔ ایسے پیارے انسانوں کے بیچ جینا اور مرنا ایسی نعمت ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم نہ سہی، کڑی دھوپ میں ابر و باراں کی آس بندھائے رکھنا زندگی کا بہترین مصرف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments