سوال اٹھانے پر بھی قید کی سزا مقرر کیجئے!


اس دنیا میں جب تک انسان موجود ہے تب تک اختلاف بھی رہے گا اور سوال بھی اپنا وجود برقرار رکھے گا اس لئے کہ اختلاف نظر ارتقا کا باعث ہے تو سوال علم کی تخلیق کا معتبر ذریعہ۔ علم کی تخلیق کے لئے سوال اتنا ہی ضروری ہے جتنا سانس لینے کے لئے ہوا۔ شعور کی منازل طے کرنے کے لئے اختلاف نظر اور سوال کسی بھی تہذیب یافتہ معاشرے کی ضرورت ہیں لیکن ہماری بد قسمتی دیکھئے کہ ہم نے دونوں سے مستفید ہونے کی بجائے شعور کی منازل سے رخ موڑتے ہوئے اختلاف کو قتل و غارت کا ذریعہ بنا لیا تو سوال پر توہین کے پہرے بٹھا دیے۔

سوال کو پابند سلاسل کرنے کاجو سلسلہ ضیاءالحق دور میں شروع ہوا وہ آج بھی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے اس تاریک دور کے منحوس سائے 2023 تک چھائے ہوئے ہیں اور جب تک ضیائی میراث کے وارث زندہ ہیں تب تک قوم کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوششیں ہوتی رہیں گی جس طرح ضیا ء نے کل اپنے اقتدار کے جواز کے لئے بعض قوانین کا سہارا لیا تھا آج بھی اصل سوال اور مسائل سے توجہ ہٹا کر مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان کی تاریخ سے آگاہی رکھنے والا کوئی بھی شخص کیا اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ ضیاء الحق کی طرف سے لائے جانے والے مخصوص قوانین بعض دینی و مذہبی گروہوں کا وجود مٹانے کے لئے لائے گئے تھے؟ کیا قوم فوجی آمر کی گود میں پلنے والے مخصوص فکر کے لوگوں کے مطالبات کو بھول گئی؟ کیا یہ کل کی بات نہیں جب ان کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ جس طرح فلاں گروہ کو قانونی طور پر کافر قرار دلوایا گیا ہے اسی طرح فلاں اور فلاں گروہ کو بھی کافر قرار دیا جائے؟ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مذہب کی آڑ لے کر مخصوص قوانین کے ذریعے ضیاء نے پاکستان میں قوم میں موجود اختلافات کی خلیج کو اتنا گہرا کیا کہ اسے فرقہ ورانہ جنگ میں تبدیل کر دیا تا کہ اپنے اقتدار کا جواز پیدا کر سکے۔

ایک اسلامی ملک میں یہ سوچنا ہی عبث ہے کہ کوئی پیامبر اسلام ص، امہات مومنین، اصحاب رسول رض اور اہل بیت کی شان میں گستاخی کرے گا توہین کے حوالے سے نت نئے ترمیمی بل لے کر آنے والوں کو کون سمجھائے کہ پاکستان کا مسئلہ توہین ہرگز نہیں ہے پاکستان کا مسئلہ توہین کے نام پر بے گناہ انسانوں کو زندگی سے محروم کرنے والے قاتل ہیں پاکستان کا مسئلہ وہ مسلح گروہ ہیں جن کے ہاتھ ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں پاکستان کا مسئلہ وہ شدت پسندانہ سوچ ہے جو ایک عام مزدور سے لے کر یونیورسٹی تک کے طالب علم کو کسی بے گناہ انسان کا خون بہانے پر ابھارتی ہے۔

پاکستان کا مسئلہ وہ شدت پسندانہ ذہنیت ہے جو بے گناہ انسانوں کے قاتلوں کو ہیرو بنا کر پیش کرتی ہے۔ پاکستان کا مسئلہ دین کے نام پر پھیلائی جانے والی وہ جہالت ہے جو علم کے راستے میں سیسہ پلائی دیوا ربن کر کھڑی ہو گئی ہے۔ پاکستان کا مسئلہ ہر اس دینی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے عقائد دوسروں پر تھوپنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ جہالت اور تعلیم کا فقدان ہے۔ اور پاکستان کا مسئلہ وہ اہل جبہ و دستار ہیں جنہیں پاکستان کے اصل مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ پاکستان کا مسئلہ وہ ”خفیہ“ ہاتھ ہیں جو ہمیشہ شدت پسندوں کے سر پر رہتے ہیں۔

اس لئے مبہم ترمیمی بلوں کی منظوری سے کسی خاص مکتب فکر کو دیوار سے لگانے کی بجائے شدت پسند مسلح گروہوں سے نبٹنے، شدت پسندانہ سوچ کو ختم کرنے، جہالت کے سدباب، تعلیم کے فروغ اور خفیہ ہاتھوں کو شدت پسندوں کی حمایت سے باز رکھنے کی کوئی سبیل کیجئے۔ ورنہ آپ جتنے بھی قانون بناتے جائیں گے ان کا غلط استعمال اسی طرح جاری رہے گا جس طرح اسی کی دہائی سے اب تک ہوتا چلا آ رہا ہے۔

جہاں تک تعلیم کے مسئلہ کی بات ہے تو بد قسمتی سے اہل مذہب کا یہ حال ہے کہ ابھی تک اپنے اختلافات کو کوئی علمی جہت نہیں دے سکے بلکہ آئے روز کسی چھوٹے سے واقعہ پر پورے ملک میں ایک ہیجان برپا کر دیتے ہیں مذہب کے نام پر اب تک ہزاروں لوگوں کا خون بہنے کے بعد بھی تمام مسالک اسی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں ضیائی دور میں تھے۔ اکثر مسائل کا حل تعلیم کے فروغ میں مضمر ہے لیکن بد قسمتی سے بلا تخصیص کسی مکتب و مسلک دینی طبقے کا دامن تعلیم سے خالی ہے؟

تعلیم کا فروغ تو دور کی بات ہے دینی طبقہ ابھی تک علم کے حقیقی تصور سے کوسوں دور ہے دینی طبقے کے نزدیک ہزاروں دینی مدارس ہی معیاری تعلیم کے مراکز ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد بچوں اور نوجوانوں کے ذہن میں نفرت کے بیج بونے میں ملوث ہے۔ موجودہ دنیا میں علمی پیش رفت اور انسانی شعور کی غیر معمولی ترقی بھی مذہبی طبقے کا کچھ نہیں بگاڑ سکی یقین نہیں آتا تو سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز دیکھ لیں دو نجی چینلز کے مالک محسن نقوی کا نام نگران وزیر اعلی کے لئے سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف پروپیگنڈے سے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس انسان کا قصور صرف یہ ہے کہ اس کا تعلق ایک خاص مکتب فکر سے ہے۔ ایک خاص مذہبی گروہ کو دیوا رکے ساتھ لگانے اور محسن نقوی کی کردار کشی اسی آگ کا تسلسل ہے جو ضیا دور میں بھڑکائی گئی۔

اسلام کے نام پر سیاسی فوائد سمیٹنے والوں، ڈکٹیٹرز کی حمایت کے بدلے اسمبلیوں تک پہنچنے اور وزارتوں کے مزے لوٹنے والوں، انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کو نظام مصطفی تحریک کا نام دینے والوں، جہاد کے نام پر پاکستانی نوجوانوں کو پرائی جنگ کا ایندھن بنانے والوں کا تو ٹریک ریکارڈ یہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ قوم کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر اسلام کے نام پر پوری قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہے لیکن قومی اسمبلی میں موجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون جیسی بڑی جماعتوں کی توہین کے قوانین میں فرقہ ورانہ ترمیمی بل پر مجرمانہ خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔

اگر ترمیمی بل کو ان جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہے تو ہمت کر کے ان جماعتوں کو سوال اٹھانے پر بھی قید کی سزا مقرر کرنے کے لئے بھی کوئی بل لانا چاہیے کہ سوال اٹھانا سب سے بڑی توہین ہے جس سے مذہبی صنعت سے وابستہ اہل جبہ و دستار کا وقار تو مجروح ہوتا ہی ہے ساتھ میں کہانی کے ”اصل کرداروں“ کی طرف بھی انگلیاں اٹھتی ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو علی وزیر سوال اٹھانے کی پاداش میں جیل میں نہ سڑ رہا ہوتا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments