ہماری تعلیم اور سماجی ذمہ داریاں


یہ پوش کالونی کی گلی نمبر 10 اور بلاک ڈی ہے۔ جس میں آٹھ سے دس مرلے کے کشادہ مکان ہیں۔ کل ملا کے پندرہ گھر ہیں۔ جس میں کم و بیش بیس خاندان رہتے ہیں۔ ایک دو مکان ابھی زیر تعمیر بھی ہیں۔ مستقبل قریب میں وہ بھی اپنے مکینوں سے آباد ہو جائیں گے۔ تقریباً سارا محلہ ہی متوسط سے ہائی طبقے میں داخلے کے دروازے پر دستک دیتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔

گلی میں پہلا گھر محمد حسین کا ہے۔ گورنمنٹ میں سترہویں گریڈ سے حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ ایمانداری اور خوف خدا کی وجہ سے افسری کے ’ٹیگ‘ کو کبھی عیاشی کا ذریعہ نہیں بنایا۔ چار بچوں کے باپ تھے۔ مہینے کی تنخواہ ان کی تعلیم پر اور باحسن راشن پانی میں خرچ ہوتی رہی۔ اللہ کا شکر کہ محتاجی نہیں تھی۔ لیکن ان دونوں میاں بیوی کو جمع تفریق، جوڑ توڑ سارا مہینہ کرنی پڑتی تھی۔ فراخی اور بے فکری بہرحال میسر نہیں تھی۔ خیر وقت گزرا اور بچے قابل نکلے۔ ایک ڈاکٹر، تو دوسرا انجینئر، بیٹی بھی ایک جامعہ میں لیکچرر ہے اور دوسری بنک میں اچھی پوزیشن پر نوکری کرتی ہے۔

چھ ماہ پہلے محمد حسین بڑے بیٹے کی شادی سے فارغ ہوئے ہیں۔ صرف تیس لاکھ خرچہ ہوا۔ شادی کی تقریب دس دن پر طویل ہوئی۔ نکاح، مایوں، مہندی، بارات، ولیمہ، چوتھی/مکلاوہ، درمیان میں ایک دن کا وقفہ۔ بیٹے کے کچھ ہی شوق تھے کہ تعلیم مکمل کر کے اچھی نوکری، پھر بڑا گھر، مہنگی گاڑی اور دھوم دھام سے شادی۔

ان کے ساتھ والے گھر میں جوان ڈاکٹر احمد، بیوی اور پانچ سالہ بیٹے کے ساتھ پچھلے دو سال سے رہتے ہیں۔ دونوں ہی ایک مشہور تعلیمی ادارے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ مختلف پس منظروں سے تعلق رکھنے والوں کو شادی کے بندھن نے اکٹھا کر دیا ہے۔ خاندان بھلے الگ تھے لیکن معاشی اور سماجی حالات یکساں ہی تھے۔ پنجاب کے دیہاتی اور مشقت کی سانسیں۔ بس دونوں کے ہی والد کو پڑھنے کی لگن تھی جو معاشی ذمہ داریوں کے باعث پوری نہ ہو سکی۔ تو وہی سپنے اپنی اولادوں کی آنکھوں میں سجا دیے۔ جن کو پالتے وہ قسمت سے مل گئے۔ اور گاؤں کی گلیوں سے اس آبادی کی چالیس فٹ والی کشادہ سڑک تک آ گئے۔

کل ڈاکٹر احمد کے ہاں بیٹے کی سالگرہ تھی۔ لگ بھگ سو مہمان تھے۔ بار۔ بی۔ کیو، خاص ’کسٹمائزڈ‘ اور ’تھیمڈ‘ ٹاور کیک، سوپ، دو چار طرح کے سلاد کھانے میں شامل تھے۔ چار سالہ بچے کی پیدائش کا دن پچاس ہزار میں نمٹا۔

ان کی سانجھی دیوار کے اس طرف ایک سرجن ضیغم عباس اکیلے ہی مقیم ہیں۔ پچپن کا سن لگا ہے۔ لیکن ماشاءاللہ اس عمر میں بھی چاق و چوبند ہیں۔ اندرون سندھ کی ایک پسماندہ بستی سے تعلق رکھتے ہیں اور قسمت کے دھنی ہیں کہ آغا خان میڈیکل یونیورسٹی سے گریجویٹ ہو گئے۔ زندگی کے دس بارہ سال اس کے بعد امریکہ میں گزار کر آئے ہیں۔ گئے تو تعلیمی وظیفے پر تھے لیکن پھر اپنی محنت سے روزگار کے اچھے مواقع ملنے کی بدولت وہیں کے ہو رہے۔ گھر بسایا، بچے ہوئے۔ تو تین سال پہلے نجانے دماغ میں کیا سمائی کہ اپنے وطن واپس لوٹ آئے لیکن تنہا۔ کیونکہ کہ ہم سفر کی ہم سفری اسی دیس میں رہنے سے مشروط تھی۔ آج کل ایک نجی ہسپتال کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔

اور ضیغم صاحب کا کیا بتاؤں؟ کہنے تو ایک فرد ہیں۔ لیکن ماشاءاللہ اپنا گھر ہے۔ اور اس کے اندر لوازمات کئی افراد جتنے۔ جدھر نگاہ جائے، سامان کا ڈھیر ہے۔ نفیس اور نازک پردے، بجلی کے آلات، فریج، فریزر، اے۔ سی۔ لکڑی کا سامان لیکن ڈبوں میں بند، گرد آلود۔ ادھر الماریاں کھولو تو لاکھوں کے سوٹ، گھڑیاں، کف لنکس، خوشبوئیں، جوتے جو باہر ابلنے کو تیار۔ ہفتے بعد جو مددگار صفائی کو آتی ہے۔ اسے جھاڑو پونچھے کی جگہ بھی با مشکل ہی ملتی ہے۔ پورا گھر، آباد کم اور کباڑ خانہ زیادہ لگتا ہے۔ اور سنیں، گیراج چھوٹا ہے تو تین گاڑیوں میں سے ایک مرکزی دروازے کے باہر گلی میں کھڑی ہوتی ہے۔ جس کا انجن مہینے میں ایک ہفتہ ہی چلنے کی حرارت محسوس کرتا ہے۔

آئیے ان سے ملیے، یہ بھی ریٹائرڈ برگیڈیر حسن عاقل ہیں۔ اب تو فوج کی ملازمت سے فارغ ہوئے برسوں بیت گئے۔ ان کی اہلیہ پچھلے سال ہی کرونا میں چل بسیں۔ دو بیٹے، بہویں اور ان کے تین بچے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے دادا اور والد کا کپڑے کا چھوٹا کاروبار تھا۔ لیکن ان کے سر پر خاندان کا پہلا کیپٹن بننے کا تاج ہے۔ ’کاروباری‘ سے ’سفید کالر‘ حلقے میں داخلے کا سہرا ان کے پاس ہے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے کچھ پیسوں سے انھوں نے دو گھر خریدے۔ ایک یہ جس میں وہ بمع اہل و عیال رہتے ہیں اور دوسرا اس کے ساتھ کا، جو اپنی دور اندیشی کی باعث کرائے پر دے رکھا ہے۔

برگیڈیر عاقل کی زوجہ جب عدم سدھاریں، تب کرونا تھا۔ نہ پوچھیں کس دل سے انھوں نے اپنے بے شمار چاؤ پر بندھ باندھا۔ خیر وقت کا تقاضا تھا اور اپنی جان بھی عزیز تھی۔ اس لئے بس دو چار افراد نے تدفین کر دی۔ لیکن دل میں بڑا قلق تھا کہ مرحومہ کے ایصال کے لئے کوئی خرچہ نہیں کیا۔ کسی رسم پر ’اکٹھ‘ نہیں کر سکے۔ تو جناب! محترمہ کی پہلی برسی انھوں نے ایک ایونٹ ہال میں منعقد کروائی۔ روسٹ، مٹن قورمہ، بریانی اور میٹھے میں متنجن۔ چونکہ موسم سرد تھا اس لئے پینے والوں کے لئے کشمیری چائے کا بھی انتظام تھا۔ مزید ایصال ثواب کے لئے سورہ یس بھی خوبصورتی سے پرنٹڈ تقسیم کی جا رہی تھیں۔ خدا خواستہ ان کے پاس وسائل کی کمی تھوڑی تھی جو برادری کے سامنے اپنی بیوی کے لئے اتنا بھی نہ کرتے۔

پندرہ کی تفصیل کیا کہوں، بس سمجھ لیجیے سبھی گھروں میں ایسے ہی لوگ مقیم ہیں۔ جو ایک زیادہ جدوجہد والی زندگی سے نسبتاً خوشحالی کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔ ہر گھر میں ہی کوئی ڈاکٹر ہے، تو کوئی انجینئر، کسی کے بچے فوج کے کسی عہدے پر تعینات ہو گئے ہیں تو کسی کا مولا کی برکت سے اپنا بہترین کام ہے۔ خدمت گار رکھنے کی استطاعت ہے۔ خواہشیں ضرورتوں کی قطار میں حاضر پوری ہو رہی ہیں۔

مگر جب انھی خاندانوں کے معاشی حالات بس مناسب تھے۔ تین سے پانچ مرلے والے کچے یا پکے مکانوں میں رہائش تھی۔ تب سادگی میں حسن پر ایمان تھا۔ ہفتہ بھر پر محیط شادیاں فضول خرچی لگا کرتی تھیں۔ آئے دن سالگرہ کی تقریبات دکھاوا اور بوجھ گردانی جاتی تھیں۔ فراخی کو سبھاؤ سے چلانے کا درس دیا جاتا تھا۔ کسی کی مرگ میں قل و چہلم پر شاہانہ کھانوں پر تنقید کی جاتی تھی۔ دعوتوں کے لمبے دستر خوان غیر ضروری محسوس ہوتے تھے۔

برینڈڈ کپڑے، جوتے، گھڑیاں، بیگز وغیرہ وغیرہ روپے پیسے کا بے جا استعمال لگا کرتا تھا۔ ضرورت سے زیادہ اشیاء رکھنا ذخیرہ اندوزی کے زمرے میں آتا تھا۔ اس وقت سبھی دعوے دار تھے کہ جب انھیں زندگی میں فراوانی نصیب ہوئی تو اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔ آسانی بانٹیں گے۔ اور آسانیاں متعارف کروائیں گے۔ گھر کی چار دیواری سے باہر بھی معاشرے میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔

لیکن نجانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب وقت کا پہیہ گھومتا ہے۔ اور ہم اختیار طاقت، حیثیت کا مزا لینے کے قابل ہوتے ہیں تو ہم میں سے اکثریت کی اخلاقی اقدار بھی اپنا رنگ بدلنے لگتی ہیں۔ معیار زندگی اور سماجی کسوٹیاں نیا جنم لینے لگتی ہیں۔ سارا دھیان زیادہ کمانے، مکان بدلنے، نئے صوفے، بستر، برتن خریدنے پر لگا رہتا ہے۔ گھر سے باہر معاشرہ کس ڈھب زوال پذیر ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم اسے نظر انداز ہی کرتے رہتے ہیں۔

وسعت بھلے علم کی ہو، یا ذہن کی، یا روپوں کی۔ اسے اپنی خوشی اور نفع کے لئے استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ترقی کرنا اور مستحکم ہونا قابل شکر بات ہے۔ لیکن اس سارے کھیل میں آپ پر ان سب کا بھی حق ہے جو آپ کو دیکھتے، سنتے اور آپ کے ارد گرد کہیں رہتے ہیں لیکن کمزور ہیں۔ انھیں بے بنیاد رسموں و رواجوں اور فضول خرچیوں سے نکالنے کے لئے اپنا فرض پہچانیے۔ اپنا حصہ ڈالئے۔ کیونکہ جسے نہیں ملا، وہ بھی اور جسے کسی بھی طرح کی نعمت حاصل ہے۔ سب امتحان گاہ میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments