ٹرک کی بتی!


مملکت خدا داد میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اور کار آمد شے ٹرک کی بتی ہے۔ جہاں ہر توانائی کا ذریعہ جامد ہو جائے وہاں ٹرک کی بتی کام آتی ہے۔ ویسے تو مملکت خداداد میں دنیا کے دوسرے بڑے بلکہ تھر کے کوئلے کی دریافت کے بعد پہلے بڑے کوئلے کے ذخائر ہونے کے باوجود شدید لوڈ شیڈنگ، گیس تیل پانی کی قلت کے سنجیدہ مسائل موجود ہیں لیکن اس سب میں بھی واحد سہارا ٹرک کی بتی ہی ہے جو مملکت خداداد کو تمام بحرانوں سے نکال کر کنارے لگاتی ہے۔

میرے آور آپ کے اس زرخرید و زرخریز ملک میں تمام سیاسی، سماجی، ثقافتی، تعلیمی، خارجی اور داخلی معاملات کا واحد حل ٹرک کی بتی ہی ہے۔ زرخریز اس لیے نہیں کہ یہ پانچ دریاؤں کی دھرتی ہے بلکہ اس لیے کہ یہاں فرد واحد سے لے کر معاشرے، ادارے اور گروہ اپنے مفادات کو منزل دینے میں نت نئے لوٹ کھسوٹ کے طور طریقوں سے ہمہ جہت آراستہ ہیں اور ان کے دماغ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ توانا و تندرست ہیں۔

مملکت خداداد میں ٹرک کی بتی کا استعمال ٹرک اور مملکت خداداد کی ایجاد سے بہت پہلے کا کیا جا رہا ہے یعنی تب سے جب سے موریہ سامراج نے چانکیا کی سرپرستی میں وسیع پیمانے پر معاشرتی تقسیم سے تعبیر اشوکا سلطنت کی داگ بیل ڈالی۔ خیبر پار سے آنے والے تمام جنگجو اگرچہ گھڑ سوار تھے مگر ان کی اصل سواری یہی ٹرک کی بتی ہی ہوا کرتی تھی۔ موریہ سامراج میں جس معاشرتی تقسیم کا بیج بویا گیا وہ پروان چڑھتا چڑھتا کانگریس زدہ ہندوستان تک پہنچا اور مذہب کی سیڑھی چڑھ کر پاک بنگلہ ٹرک کی بتی تک پہنچ گیا۔

آج کے برصغیر میں وہی تمام مذاہب ہیں جو کئی ہزار سال تک اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ واقع ہوئے اور عملی طور پر ایک دوسرے کو برداشت کرتے رہے نہ کہیں کسی آتش پرست کو مارا جاتا نہ کوئی سکھ مسلے کو مارتا اور ہندو مسلم جھگڑا تو ویسے ہی مذاق کے سوا کچھ نہیں تھا۔ مغل دور حکومت میں سارے مذاہب کے کرتا دھرتاؤں کی موجودگی میں بابری مسجد سمیت کئی مساجد تعمیر ہوئی، بہت سارے مندر اور شاہی قلعہ لاہور کے ساتھ واقعہ گردوارے جیسے کئی شاہکار بنائے گئے جو ترقی کی علامت ہوں نہ ہوں لیکن معاشرتی برداشت اور ہم آہنگی کا چیختا چلاتا ثبوت ہیں۔

وقت نے ٹرک کی بتی سے ٹکر لی، ہندو مسلم سماج کے بعد پاک بنگلہ سماج کی تشکیل نو کی گی، پہلے جے بھارتا اور پاکستان زندہ باد کے نعروں میں کئی صدیوں سے ساتھ رہنے والے لوگوں نو ایک دوسرے کے گلے کاٹے اور پھر جے بنگلہ کے نعروں کی گونج میں ایک ہی مذہب اور فرقے کے لوگوں نے ایک دوسرے کو خون میں نہلا دیا۔ سنی بنگلہ میں سنی جماعت اسلامی کے لوگ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کی وجہ سے پھانسی چڑھائے گئے اور سنی پاکستان میں ہنزہ، جھنگ اور ہزارہ میں اسماعیلی، شیعہ مسلمانوں کو لہو لہان کیا گیا۔ جو جو بھی مذکورہ بالا واقعات کی تہ تک پہنچا نتیجہ ٹرک کی بتی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

آج اسی ٹرک کی بتی کا استعمال کرنے والوں نے ایک ایسے متشدد، بد تہذیب، بد کردار، عیاش، جاہل، غیر انسانی معاشرے کو ترتیب دیا ہے جہاں نہ کسی کی عزت محفوظ، مال تو خیر کیا محفوظ ہوتا نہ کوئی ثقافت ہے نہ کوئی دین نہ دنیا اور نہ ہی کسی انسانی جسم کی حرمت کا تقدس بحال رکھا گیا ہے۔ فرد واحد کی کوئی پہچان ہے نہ انسان نامی کسی صنف کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگ مذہب، نسل، رنگ اور جغرافیہ کی تمیز کے بغیر بھیڑیوں کی طرح مختلف طرح کے عجیب و غریب گروہوں اور مجموعوں کے پیرو ہیں اور بھوکے بھیڑیوں کی تصویر بنے کسی تمیز کو خاطر لائے بغیر ایک دوسرے کی کھال تک نوچ کھانے کے درپے ہیں۔

کوئی سیلاب زدگان کے نام پہ، کوئی ملکی سلامتی کے نام پہ کوئی کسی ادارے کی سالمیت کے نام پہ، کوئی جمہور کی حکمرانی کے نام پہ کوئی خلافت اسلامیہ کے فروغ کے نام پہ تو کوئی مذہبی بالادستی کے نام پہ اپنے اپنے ٹرک کی بتی کا پرچار کیے جا رہا ہے اور اس آڑ میں انسانی نسل کی نیلامی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ٹرک کی بتی جو نظریہ ضرورت کی ماں اور مفاد پرستوں کی دائی ہے، نے اس مملکت خداداد کو ناقابل رہائش بنا دیا ہے۔ عورت، مزدور، تعلیم و صحت کے حقوق کجا یہاں انسان کو انسان دکھائی نہیں دیتا۔

ہر پہلا شخص دوسرے کے گھر میں گھس کر عزت و آبرو نوچ کھا رہا ہے۔ اس ہجوم زدہ معاشرے کی کوئی ثقافت ہے نہ دین اور دنیا تو ویسے ہی نیست و نابود ہو چکی۔ فہم رکھنے والے سارے انسان اپنی پہلی فرصت میں یہ ملک چھوڑ بھاگ رہے ہیں کیونکہ جو حال ہم آج دیکھ رہے ہیں یہ کل کی نفرتوں کا ثمر ہے اور آنے والا کل تو اس سے بھی زیادہ خوفناک واقعی ہونے والا ہے۔ آج ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو آنے والی نسلوں کو ایک گدھ زدہ پر تعفن معاشرے میں جینا پڑے گا جہاں ٹرک کی بتی بھی کوئی آسرا نہیں کر سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments