کیا تمام والدین حسن سلوک کے حق دار ہیں


اسلام میں بلاشبہ والدین کا رتبہ بہت بلند ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہے والدین کے ساتھ احسان کرو۔ (83) ۔ احسان کا لفظ حسن سے نکلا ہے جس کے معنی عمدہ و خوبصورت ہونا کے ہیں۔ گویا احسان ایسا عمل ہے، جس میں حسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حسن ہی حسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان تک نہ ہو۔ پس عمل کی اسی نہایت عمدہ اور خوبصورت ترین حالت کا نام احسان ہے۔ عمومی طور پر ہم احسان کی تعریف یوں متعین کرتے ہیں کہ والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو۔ یعنی ان سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ۔

ہمارے ہاں والدین کو بھگوان یا خدا کا درجہ دے دیا گیا ہے اور بچپن میں ہی ذہن میں یہ راسخ کر دیا جاتا ہے۔ مولوی صاحب بھی یہ ہی پڑھاتے ہیں۔ اور نصاب میں بھی شدت سے پرچار کیا جاتا ہے کہ والدین کے حکم سے سرتابی گناہ کبیرہ ہے سوائے اس کے کہ اگر وہ شرک کرنے کا کہیں یا دین سے پھر جانے کا تقاضا کریں۔ والدین کی نافرمانی کرنے والا جہنم میں جائے گا اور والدین کا حکم نہ ماننا بہت بڑا گناہ ہے۔ جب کہ والدین کی بات پیغمبر کی بات کا درجہ رکھتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

تاہم قرآن میں کہیں بھی والدین کی اطاعت یا فرمانبرداری کا حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ احسان کی تلقین ہے۔ اطاعت صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی واجب کی گئی۔ قرآن مجید والدین کے دنیاوی کاموں میں ان کی معاونت کی تاکید تو کرتا ہے لیکن اپنے معاملات ان کی مرضی سے چلانے کا کوئی حکم نہیں دیتا۔ ہمارے مذہبی طبقے نے والدین کی اطاعت کا مفروضہ اتنی شد و مد سے دہرایا ہے کہ والدین بچوں کو اپنی ملکیت بلکہ غلام تصور کرنے لگے ہیں۔ اور وقتاً فوقتاً انہیں مولویانہ مذہبی تعبیر سے اس کی یاد دہانی بھی کرواتے رہتے ہیں۔

والدین انسان کو دنیا میں لانے کا موجب بنتے ہیں۔ اور ایک خدائی اسکیم کے تحت اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت ان کی فطرت میں ودیعت کر دی گئی ہے۔ جو نسل انسانی کی بقاء کی ضامن ہے اگر ایسا نہ کیا جاتا تو شاید کوئی انسان اتنی تکالیف اور مصیبتیں اپنی اولاد کے لئے برداشت نہ کرتا۔ ان کی ان قربانیوں، تکالیف اور زحمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن میں ان کے ساتھ حسن سلوک یا احسان کی تاکید کی گئی ہے۔

اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ انسان بوڑھا ہو کر سنکی اور خبطی ہو جاتا ہے اور اس کی نگہداشت بہت بڑا امتحان بن جاتی ہے۔ بعض اوقات والدین کی طویل عمری کی وجہ سے اولاد خود ادھیڑ عمری تک پہنچ کر بھی ان کی دیکھ بھال پر مجبور رہتی ہے ایسے میں صبر و برداشت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ والدین سے حسن سلوک کی خاص طور پر تلقین کی گئی ہے۔ اور اس کے بدلے میں جنت کی وعید ہے۔

لیکن اگر ماں باپ اپنی کم عمر بیٹی کو کسی بوڑھے کھوسٹ کے ساتھ مال و زر کے لالچ میں بیاہ دیں تو کیا ان سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے؟ اگر باپ کسی بیٹی کو اپنے جرائم کی پاداش میں ونی کر دے تو پھر کیا فرمان ہے؟ اگر ماں باپ بچے کو جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بناتے رہیں تو ایسے والدین کے لئے کیا ارشاد ہے؟ اگر باپ جائیداد کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے بیٹی کی شادی قرآن سے کر دے تو پھر کیا فرمان ہے؟ اگر ماں باپ چھ یا سات سالہ بچے کو کسی ٹائر شاپ پر پنکچر لگانے، کسی ہوٹل میں بیرا گیری کرنے یا کسی بھٹہ خشت میں مزدوری کرنے کے لئے بھیج دیں تو کیا ان سے بھی حسن سلوک کی تاکید ہے؟ تعلیم نہ دلوائیں، گھر میں کھانے کو نہ ہو تو پھر بھی درجنوں بچے پیدا کر لیں۔ تھیلیسیمیا کے ایک دو نہیں معلوم ہونے کے باوجود چار چار پانچ پانچ بچوں کو جنم دے لیں۔ اور ان کو اذیت ناک موت مرنے کے لئے چھوڑ دیں تو ایسے والدین کے لئے دین میں کیا حکم ہے؟

الغرض کسی کا صرف حیاتیاتی والدین ہونا آپ کو ازخود حق نہیں دیتا کہ احسان اور فرمانبرداری کو اپنا مذہبی استحقاق سمجھنا شروع کر دیں۔ اس کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ بڑی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ قربانیاں اور مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اپنی ذات کی نفی کرنی پڑتی ہے۔

اگر آپ کسی کو دنیا میں لانے کا موجب بن گئے ہیں تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی احسن طریقے سے پرورش کریں۔ اس کو اچھا انسان بنانے کی اپنی سے بہترین کوشش کریں۔ بچہ پالنا ایک بہت بھاری ذمہ داری ہے اگر یہ ذمہ داری اٹھانے کی آپ میں طاقت، استعداد یا ٹیمپرامنٹ نہیں تو مت بچہ پیدا کریں۔ والدین بننا آپ پر فرض بہر حال نہیں کیا گیا ہے۔ اور کچھ ساعت کی لذت آپ کو حسن سلوک کا حق دار نہیں بنا دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments