مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے بھارتی اقدامات


بھارت کی ’بی جے پی‘ حکومت کا یہ منصوبہ 2014 میں ہی منظر عام پہ آ چکا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں اسی طرح تبدیلی کے اقدامات کیے جائیں کہ جس طرح اسرائیل فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاروں کو بسانے کی لئے رہائشی بستیاں قائم کر رہا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے منصوبے پر عملدرآمد اس وقت کیا گیا کہ جب بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی طرف سے متنازعہ قرار دی گئی ریاست کو بھارت میں مدغم کرنے کا اعلان کر دیا۔

اس منصوبے کے تحت بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی سیکورٹی میں ہندوؤں کی خصوصی بستیوں کے قیام، مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی علاقوں سے لوگوں کو لا کر آباد کرانے کے اقدامات شروع کر دیے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں صنعتی علاقے قائم کرنے کے نام پر ہزاروں ایکڑ آراضی سرکاری تحویل میں لے لی گئی تا کہ بھارت کے بڑے صنعت کار وہاں کارخانے لگاتے ہوئے ان کارخانوں میں کام کرنے کے لئے بڑی تعداد میں بھارت سے لوگوں کو لایا جائے اور انہیں بھی مقبوضہ کشمیر میں ہی مستقل طور پر بسایا جائے۔

اس کے ساتھ ہی مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی افراد کو لاکھوں کی تعداد میں ڈومیسائل جاری کرتے ہوئے انہیں مقامی باشندوں کا درجہ دینے کی کارروائی بھی شروع کر دی گئی۔ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا جس کے تحت بھارتی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کی منظوری کے بغیر کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی اور ساتھ ہی آرٹیکل 35 (A) کو بھی منسوخ کر دیا جس کے تحت ریاست جموں وکشمیر میں کوئی غیر ریاستی باشندہ ملازمت نہیں کر سکتا، زمین نہیں خر ید سکتا۔

بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر اور لداخ کے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں قائم کر دیا۔ 27 اکتوبر 2020 کو، تنظیم نو کے تیسرے حکم کی شکل میں مزید قانون سازی عمل میں لائی گئی جس کے تحت ہندوستان کے کسی بھی شہری کو ”ریاست کے مستقل رہائشی“ کی شق کو ختم کرنے کے بعد جموں و کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت دی گئی ہے۔

ریاست جموں و کشمیر میں برطانوی ہندوستان کے وقت سے لے کر اب تک کے آبادی کے اعداد و شمار دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1947 میں ریاست جموں وکشمیر پر بھارت کے قبضے کے بعد سے ریاست میں آبادی کی واضح اکثریت رکھنے والے مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں بتدریج نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ 1901 میں مسلمانوں کی شرح آبادی 74.16 فیصد تھی، 1911 کی مردم شماری میں 75.94 فیصد، 1941 میں 75.97 فیصد تھی جو 2011 کی آخری مردم شماری میں نمایاں طور پر کم ہو کر 68.31 رہ گئی ہے۔

1901 کی مردم شماری میں، ریاست کشمیر اور جموں کی آبادی 2,905,578 تھی۔ ان میں سے 2,154,695 ( 74.16 %) مسلمان، 689,073 ( 23.72 %) ہندو، 25,828 ( 0.89 %) سکھ، اور 35,047 ( 1.21 %) بدھسٹ (یعنی 935 ( 0.032 %) دیگر تھے۔ ہندو بنیادی طور پر جموں میں پائے جاتے تھے، جہاں وہ آبادی کا 60 % سے کچھ کم تھے۔ برطانوی ہندوستانی سلطنت کی 1911 کی مردم شماری میں کشمیر اور جموں کی کل آبادی بڑھ کر 3,158,126 ہو گئی تھی۔ ان میں سے 2,398,320 ( 75.94 %) مسلمان، 696,830 ( 22.06 %) ہندو، 31,658 ( 1 %) سکھ، اور 36,512 ( 1.16 %) بدھ تھے۔

برٹش انڈیا میں آخری مردم شمار 1941 میں ہوئی جو 1931 کے جائزے پہ مشتمل تھی، اس کے مطابق ریاست کی کل آبادی 3,945,000 تھی، اس میں مسلمانوں کی آبادی 2,997,000 یعنی کل آبادی کا 75.97 تھی جبکہ ہندو آبادی 808,000 یعنی کل آبادی کا 20.48 فیصد، سکھ آبادی 55,000 یعنی کل آبادی کا 1.39 فیصد۔ یکم مارچ 2001 ء کی مردم شماری کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر کی کل آبادی ایک کروڑ 69 ہزار 917 ہے جبکہ 1981 ء کی مردم شماری کے مطابق یہ آبادی 59 لاکھ 87 ہزار 399 تھی۔

2011 کی مردم شماری کی تفصیلات کے مطابق، جموں و کشمیر کی آبادی 1.25 کروڑ ہے، جو کہ 2001 کی مردم شماری میں 1.01 کروڑ کے اعداد و شمار سے زیادہ ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر کی کل آبادی 12,541,302 ہے۔ اندازے کے مطابق 2023 میں ایک کروڑ 56 لاکھ ہے۔ جموں و کشمیر کے مذہبی مردم شماری کے اعداد و شمار تازہ ترین مردم شماری کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ جموں و کشمیر کی آبادی کا 68.31 فیصد مسلمان ہیں۔

مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے 22 میں سے 17 اضلاع میں مسلم اکثریتی مذہب ہے، 4 اضلاع میں ہندو اکثریت میں ہیں۔ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں مسلم آبادی کل آبادی 1.25 کروڑ میں سے 85.67 لاکھ، یعنی 68.31 فیصد مسلمان ہیں۔ جموں و کشمیر میں عیسائی آبادی 35 ہزار یعنی کل آبادی کا 0.28 فیصد ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں ہندو اقلیت ہیں جو کل آبادی کا 28.44 فیصد ہیں۔

بھارت نے یک طرفہ اور غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت کو ایک ریاست سے تبدیل کر کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ۔ 2019 کے ذریعے کر دیا۔ بعد ازاں متعدد ترامیم کے ذریعے، اپریل 2020 میں ہندوستان نے درجنوں مقامی ریاستی قوانین میں تبدیلیاں کیں، جس کا مقصد ریاست کی موجودہ آبادی میں تبدیلیاں لانا تھا۔ ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 کے ذریعے انڈین غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے الحاق کا بھارتی اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔

بین الاقوامی قانون کی روح کو سمجھنا اس کے حقیقی اطلاق کے لیے ضروری ہے۔ نئے ڈومیسائل قوانین نے غیر کشمیری ہندوؤں کو کشمیری ڈومیسائل حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔ اڈاپٹیشن آف اسٹیٹ لاز آرڈر 2020 میں کشمیری قومیت کی نئی تعریف وضع کی گئی ہے۔ نئے معیارات کے مطابق، کوئی بھی ”جس نے جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں پندرہ سال کی مدت کے لیے قیام کیا ہو یا سات سال کی مدت سے تعلیم حاصل کی ہو اور مرکز کے زیر انتظام علاقے میں واقع کسی تعلیمی ادارے میں 10 ویں / 12 ویں جماعت کے امتحان میں شرکت کی ہو۔

جموں و کشمیر کے ؛ یا جو جموں اور کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ریلیف اور بحالی کمشنر (مہاجر) کے ذریعہ ایک مہاجر کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ کشمیریوں کی شناخت (کشمیریت) اور ان کی ریاستی حیثیت کو اڈاپٹیشن آف اسٹیٹ لاز آرڈر 202 کے ذریعے ختم کر دیا گیا ہے ۔ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 سے حاصل کرنے کے لیے بھارت کا تیسرا ہدف ریاست میں آبادیاتی تبدیلیاں کرنے کے طویل انتظار کے ایجنڈے پر عمل درآمد کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کی آبادی کے فیصد کو کم کیا جا سکے تاکہ ہندوؤں، غیر کشمیریوں کو ریاست کے کئی حصوں میں آباد کیا جا سکے۔

بھارتی حکومت کے نئے ڈومیسائل قوانین کا نفاذ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019، جو باضابطہ طور پر 31 اکتوبر 2019 کو نافذ کیا گیا تھا، ہندوستان کی وزارت داخلہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں پچیس ( 25 ) سے زیادہ قوانین کو منسوخ کر کے ان کی جگہ نئے قوانین نافذ کیے جن میں اسٹیٹ سبجیکٹ، ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی بھی شامل ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیے نئی ترامیم متعارف سے کوئی بھی بھارتی شہری مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیداد خرید سکے گا۔

ہندوستانی وزارت داخلہ کے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ نیا قانون، یونین ٹیریٹری آف جموں و کشمیر کی تنظیم نو (مرکزی قوانین کی موافقت) تھرڈ آرڈر 2020 فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔ اس نوٹیفکیشن سے پہلے، ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے صرف“ مستقل باشندے ”ہی خطے میں جائیداد خرید سکتے تھے، اب یہ شق ہٹا دی گئی ہے۔

بھارت کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، جموں اور کشمیر کی حکومت نے مرکز کے زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر میں تقریباً 4 لاکھ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں۔ 1947 میں پاکستان سے نکل کر جموں ڈویژن میں آباد ہونے والے ہندوؤں کو تقریباً 55,931 ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پسماندہ ہندو برادری والمیکی کے 2,754 افراد اور تقریباً ایک ہزار گورکھوں کو بھی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔ شمالی ہند کے انگریزی روزنامہ دی ٹریبیون نے ایک اعلی ہندوستانی عہدیدار پون کوتوال کے حوالے سے بتایا کہ تقریباً 400,000 لوگوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ دیے گئے ہیں۔

2022 میں بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں کے ریوینو افسران کو یہ اختیار دیا کہہ ان تمام لوگوں کو رہائش کا سرٹیفکیٹ جاری کریں جو جموں شہر میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں تاکہ انتخابی فہرستوں کی جاری خصوصی سمری نظرثانی میں ان کے داخلے کو آسان بنایا جا سکے۔ ضلع الیکشن افسر اور ڈپٹی کمشنر جموں، اونی لواسا نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ایسے رہائشیوں کو ووٹر لسٹوں میں شامل کیا جائے جو ایک سال سے جموں میں مقیم ہیں اور اسی سال 15 ستمبر کو نئے ووٹروں کے اندراج، حذف کرنے، درست کرنے اور ووٹروں کی تبدیلی کے لیے انتخابی فہرستوں کی خصوصی سمری نظرثانی کا آغاز کیا گیا۔

اس کا مقصد ریاستی اسمبلی میں جموں کی سیٹوں میں اضافہ کرنا ہے تاکہ ریاستی اسمبلی میں مسلمانوں کے اکثریتی خطے وادی کشمیر کی اسمبلی سیٹوں پہ غیر مسلم اکثریتی خطے جموں کو حاوی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی میں ’بی جے پی‘ کی حکومت قائم کی جا سکے۔ اس عمل کے ذریعے جموں میں 20 سے 25 لاکھ نئے ووٹروں کا اندراج کیا گیا ہے اور جموں کی اسمبلی سیٹوں میں 6 سیٹوں کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔

نئی دہلی کے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرنے اور اس کے بعد اسے بھارتی یونین کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کے اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر سے باہر کے سرمایہ کاروں کے لیے ”لینڈ بینک“ بنانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ اس مقصد کے لیے وادی کشمیر میں 7 % سے زیادہ سرکاری اراضی کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ اس سلسلے میں 14 ہزار ایکڑ سے 20 ہزار ایکڑ آراضی کی نشاندہی کا عمل مکمل کیا جا چکا ہے۔

ان میں سے زیادہ تر دریاؤں، ندی نالوں اور گیلی زمینوں کے سیلابی میدانوں میں یا اس سے ملحق ہیں۔ حالیہ مہینوں میں وادی کشمیر کے 10 اضلاع میں سرکاری ملکیتی اراضی کی دستیابی کے بارے میں معلومات مرتب کی گئی ہیں۔ وہ کل 1,624,162 کنال یعنی 203,020 ایکڑ ہے۔ آراضی کی یہ نشاندہی بھارتی سرمایہ کاروں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بڑی صنعتیں لگانے کے لئے کی گئی ہے۔ آراضی کی نشاندہی کا یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ نومبر کو، سکل ٹائمز اخبار کے پونے ایڈیشن نے جموں و کشمیر کے ڈوڈا ضلع کے ڈپٹی کمشنر ساگر ڈوئیفوڈ کے حوالے سے کہا، ”مہاراشٹر کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں سے کئی سرمایہ کار جموں اور کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمند ہیں اور یہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ہی ممکن ہوا ہے۔

نومبر 2020 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈوڈا ضلع کے ڈپٹی کمشنر ساگر ڈوئیفوڈ نے میڈیا کو بتایا کہ مہاراشٹر کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں سے کئی سرمایہ کار جموں اور کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمند ہیں اور یہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ہی ممکن ہوا ہے۔ مہاراشٹر کی ریاستی حکومت کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ اسلام آباد کے پہلگام علاقے میں زمین کی الاٹمنٹ کی گئی ہے اور کچھ بڑے کاروباری گروپوں نے کشمیر میں کاروبار قائم کرنے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں جنگلی حیات کی پناہ گاہ سے ملحقہ کھنمو میں چار مزید سیمنٹ فیکٹریوں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیاں اسٹیٹ لاز آرڈر 2020 کے نفاذ پر بھارتی پارلیمنٹ کے ایک سینئر ’بی جے پی‘ رکن مسٹر سبرامنیم سوامی نے واضح طور پر کشمیر کے لیے بی جے پی حکومت کے مستقبل کے منصوبوں کو بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی کسی بھی ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس طرح کشمیر اس سے مستثنی کیسے ہو سکتا ہے۔ مسٹر سوامی آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 A کو متعدد سطحوں پر کالعدم کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے کے لیے ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے ترامیم اور نئے ڈومیسائل قوانین کا جواز پیش کیا اور واضح طور پر بڑے پیمانے پر ریاست کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کا اشارہ دیا۔ ہندوستانی پہلے ہی وادی کی آبادی کو تبدیل کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ بھارت کی اس حکمت عملی چار حصے ہیں۔ سب سے پہلے، وادی کے اہم علاقوں میں سابق فوجیوں کی کالونیوں کا قیام جہاں ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے ریٹائرڈ افسران اور جوانوں کو بتدریج آباد کیا جائے گا۔

ہندوستان کے کئی حصوں سے اس ریٹائرڈ فوجی کو نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت قانونی حیثیت ملے گی، جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں 15 سال کی مدت کے لیے خدمات انجام دینے والے کسی بھی شخص کو ڈومیسائل کی اجازت دیتا ہے۔ دوسرا، کشمیری پنڈتوں کے لیے کالونیاں بنانے کے لیے 17000 کنال سے زیادہ آراضی مختص کی گئی ہے۔ تیسرا، بھارت نے پہلے ہی ہندوں کو ڈومیسائل جاری کرنا شروع کر دیا ہے، جن کے آبا اجداد مغربی پاکستان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔

فی الحال جموں میں رہنے والے ان ہندوؤں کو وادی کے مختلف حصوں میں آباد کیا جا رہا ہے۔ چوتھا، مقبوضہ جموں وکشمیر میں مختلف ہندو عبادت گاہوں کو زمین کی الاٹمنٹ، امرناتھ شرائن بورڈ کو 2008 میں 800 کنال اراضی دی گئی تھی جس کی وجہ سے پوری ریاست میں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کی بغاوت ہوئی تھی۔ یہ جنگل کی زمین ہے جسے ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہندو آبادی کی آبادکاری کے لیے میں آبادیاتی تبدیلیاں لانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے سمیت تمام اقدامات سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور بھارت کے ان اقدامات سے باشندگان جموں و کشمیر کو کن کن نقصانات اور تباہ کن صورتحال سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 1988 سے بھارت کے خلاف آزادی کی بے مثال تحریک آزادی شروع ہونے کے بعد بھارت کشمیریوں کے خلاف بھرپور فوجی طاقت سمیت تمام ریاستی اداروں کی مدد سے انتہائی نوعیت کے انسانیت سوز اقدامات کا حربہ استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔

5 اگست 2019 کے اقدام سے پہلے ہی بھارت نے مزید تین سے چار لاکھ نیم فوجی دستوں کو مقبوضہ کشمیر میں متعین کیا اور عالمی ذرائع تصدیق کر رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً دس لاکھ بھارتی فوج متعین ہے اور مقبوضہ کشمیر دنیا کا وہ واحد خطہ ہے کہ جہاں اتنی بڑی تعداد میں فوج حالت جنگ کی طرح نہتے شہریوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ گزشتہ تیس سال میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری بھارت فورسز کے ہاتھوں ہلاک کیے گئے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں کشمیری بھارتی تشدد سے معذور ہو چکے ہیں، ہزاروں قید، ہزاروں لاپتہ، ہزاروں عصمت دری کے واقعات، بھارتی فوج کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں کو ہلاک کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کرنا، بھارتی فورسز کے ہاتھوں درجنوں کی تعداد میں ایک ایک واقعہ میں قتل عام کے متعدد واقعات اور بھارتی فوج کو کشمیریوں کے قتل، تشدد، تباہی کے واقعات میں مکمل تحفظ فراہم کرنے سے متعلق خصوصی کالے قوانین کا نفاذ۔ ان تمام اقدامات کے باوجود بھارت کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے میں ناکام چلا آ رہا ہے۔

اس صورتحال میں مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے بھارتی اقدامات سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے ریاستی باشندے اپنی ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے، ان کی زمینوں پر بھارتی افراد کا قبضہ ہو جائے گا، مقامی سرکاری ملازمتوں پر بھارتی افراد کا غلبہ ہو جائے گا، مقامی صنعت و تجارت بھارتی افراد کے ہاتھوں میں چلی جائے گی، ریاست کشمیر کی ہزاروں سال کی مخصوص اور منفرد تہذیب و ثقافت پر بھارت کے مختلف خطوں کے افراد کے طرز معاشرت کا غلبہ ہو جائے گا اور ریاست کے مسلمان اقلیت میں تبدیل ہونے کے بعد بھارت کے مسلمانوں کی طرح انتہا پسند ہندوؤں کی انسانیت سوز پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بننا شروع ہو جائیں گے۔ بھارت کے ان اقدامات سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ریاست جموں وکشمیر میں رائے شماری کرانے کا مقصد ہی بھارتی تخریب کاری اور دہشت گردی کی نظر ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments