ہندوستان کا یوم جمہوریہ


جنوری کو بھارت میں یوم جمہؤریہ کے طور پر منایا جاتا ہے، اس روز بھارتی فوج پریڈ کی تقریب منعقد کرتی ہے جبکہ مختلف تعلیمی اداروں میں بھی اس دن کی مناسبت سے تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار کہتا ہے جبکہ روز وہاں عوام کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہے۔

2016 میں انسانی اور سماجی حقوق سمیت مذہبی آزادیوں کے عالمی انڈیکس نے ہندوستان کو دنیا کے 198 ممالک میں سے بدترین 10 ممالک میں شمار کیا تھا، بعد ازاں اپریل 2022

میں دنیا میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے ایک امریکی ادارے ’یو ایس آئی سی آر ایف‘ نے امریکی انتظامیہ سے سفارش کی کہ وہ انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر بھارت کو ’گہری تشویش‘ والے ممالک کے زمرے میں شامل کرے

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی فرقہ واریت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ جس سے مذہبی اقلیتوں کو شدید خطرہ لاحق ہے،

نریندر مودی پر گجرات میں قتل عام کرنے کی وجہ سے امریکہ میں داخلے پر پابندی بھی رہ چکی ہے، رپورٹ میں بھارت پر پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی جا چکی ہے، اپنے آپ کو جمہؤریت کا چیمپین کہنے والے ملک بھارت کے قومی اور دفاعی اداروں میں مسلمانوں نمائندگی کم نظر آتی ہے، حالانکہ ماضی میں یہ رجحان پولیس، فوج اور انتظامی طور پر کسی حد تک نمایاں تھا مگر بھارتی جنتا پارٹی کے اقتدار میں آتے ہی مذہبی منافرت میں تیزی سے اضافے ہوا، ہندوتوا کی ذہنیت کے عین مطابق ایوان میں منتخب نشستوں کی تعداد میں اضافے کی باعث اب بھارت کی کسی بھی ریاست کا ایک بھی مسلمان وزیراعلیٰ نہیں ہے۔

امریکی ادارے ”جینوسائڈ واچ“ کے بانی پروفیسر گریگوری اسٹینٹن نے ایک تقریر میں کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی صرف ایک قدم دور رہ گئی ہے، جس پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بہت خوش ہوں گے۔

جنوری 2022 میں بھارت میں ”ہندو دھرم سنسد“ کا انعقاد ہوا تھا جس میں مقررین نے ہندوؤں سے مسلمانوں کا نسلی صفایا کرنے کی اپیل کی تھی۔

دراصل مودی اسٹیٹ میں اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اشتعال انگیز تقاریر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملک میں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں اور مسلمانوں کو بعض اوقات ”قتل عام“ جیسی صورت حال تک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم پہلی مرتبہ کسی ”دھرم سنسد“ سے مسلمانوں کی نسلی صفائے کی بات کہی گئی اور کہا گیا کہ اگر 20 لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کر دیا جائے تو بقیہ مسلمان بے چوں و چرا ”ہندو راشٹر“ تسلیم کر لیں گے۔

پنجاب اسٹیٹ میجسٹری اور انسانی حقوق کے گروپوں کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق 1984 لے کر 2022 تک بھارت میں 250,000 سکھوں کو قتل کیا گیا ہے، سابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ، سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے ’خون کے بدلے خون‘ کا نعرہ لگایا۔ اس کے نتیجے میں دہلی میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا،

ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ کے ایک سابق افسر، گرودیو سنگھ گریوال، اپنی کتاب ”Secret Eye“ میں لکھتے ہیں کہ آپریشن بلیو سٹار کے دوران، گولڈن ٹیمپل اور پنجاب بھر کے 37 گوردواروں پر حملے میں، 20,000 سے زیادہ سکھوں کو قتل کیا گیا تھا، موومنٹ اگینسٹ اسٹیٹ ریپریشن کی رپورٹ کے مطابق، 52268 سکھوں کو بھارت میں سیاسی قیدیوں کے طور پر بغیر کسی الزام یا مقدمہ کے قید رکھا گیا ہے۔

یونیورسل پریاؤک ریویو کے ورکنگ گروپ کے تحت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے تیرہویں اجلاس میں جو کہ 21 مئی 2012 تا یکم جون 2012 جاری رہا واضح کیا گیا کہ انڈیا میں بھارتی ریاستوں اڑیسہ، مدھیہ پردیش، گجرات اور ہماچل پردیش میں مذہبی بنیادوں پر اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا نہ صرف استحصال کیا جاتا ہے بلکہ مختلف مواقع پر انسانیت سوز تشدد کے ذریعے انسانی حقوق کے ضابطوں کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ مذہبی آزادی کے موضوع پر پیش کی گئی اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹ میں بھی واشگاف الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے لئے زمین تنگ ہے اور مذہبی اقلیتوں پر تشدد روا رکھا جاتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق کئی سالوں سے جموں و کشمیر میں نافذ آرمڈ فورسز اسپیشل ایکٹ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مختلف مقدمات میں انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس لئے اس کالے قانون کا فوری طور پر خاتمہ ضروری ہے۔ اس ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت بھارت کی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر استثنا حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث بھارتی اہلکاروں کا احتساب ممکن نہیں۔

بے گناہ کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا ناروا سلوک اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا۔ جمہوری حقوق کی پیپلز یونین کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی میں موجود کشمیری مسلمان ظلم و جبر اور عدم تحفظ کا شکار ہیں اور وہاں کی مقامی پولیس اوچھے ہتھکنڈوں سے انہیں ہراساں کرتی ہے۔ بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کر کے حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے اور رہائی کے عوض بھاری رقوم کا بطور رشوت تقاضا کیا جاتا ہے۔ بھارتی پولیس نے افضل گرو کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا اور بھارت کے شدت پسند حلقوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسے پھانسی دے دی جو سراسر عدالتی قوانین اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھی۔

9/ 11 کے بعد بھارت نے کشمیریوں پر کیے جانے والے مظالم میں مزید اضافہ کر دیا اور ان کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دینے کے لئے بھونڈی کوششیں کیں۔ 9 / 11 کی آڑ میں بھارت کے ہاتھ کشمیری مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کا ایک سنہری موقع مل گیا اور کشمیری مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے کے لئے جھوٹا اور منفی پروپیگنڈا کیا جانے لگا تاکہ اقوام عالم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان کے دلوں میں کشمیر کے حوالے سے پیدا ہونے والی ہمدردی کو ختم کیا جا سکے لیکن آج دنیا جان چکی ہے کہ کشمیر کی آزادی کے حصول کی جدوجہد کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ کشمیری عوام تو ایک عرصے سے اپنے حقوق کی آزادی کے لئے بھارت کی انتہاپسندی، جارحیت اور استعماریت کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں۔

بھارتی مظالم کی فہرست کچھ یوں ہے کہ جنوری 1989 تا دسمبر 2016 مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد افراد کو شہید کیا گیا۔ 7073 افراد کو بھارتی فوج اور پولیس نے حبس بے جا میں رکھ کر جھوٹی تفتیش کرتے ہوئے شہید کر دیا۔ 137,469 افراد کو جھوٹے بے بنیاد مقدمات میں گرفتار کر کے ہراساں کیا گیا۔ 107,043 افراد کو بے گھر کیا گیا۔ 107591 بچے بھارتی مظالم کی وجہ سے یتیم ہوئے۔ 22826 خواتین کے سہاگ اجڑے۔ 10,717 خواتین پر جنسی تشدد کیا گیا اور انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر کیے جانے والے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی افواج سے انسانیت کی تذلیل کے لئے PSA، TADA اور AFSP جیسے کالے قوانین بنا رکھے ہیں۔ 8 جنوری 2016 کو بھارتی فوج نے ایک ہونہار کشمیری نوجوان برہان سلیم وانی کو شہید کر دیا جو کہ سوشل میڈیا پر بھارتی جارحیت کے خلاف ایک بھرپور اور موثر مہم چلا رہا تھا جس کے ذریعے بہت سے مقامی جوان تحریک آزادی میں نئے ولولے اور جذبے کے ساتھ شامل ہوئے۔ وانی کی شہادت نے تحریک میں ایک نئی سوچ پھونک دی۔ اب تحریک شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی پھیل گئی۔ اس سے پہلے 2008 اور  2010 میں اٹھنے والی تحریکیں صرف شہروں تک محدود تھیں مگر موجودہ لہر نہ صرف پوری شدت سے جاری ہے بلکہ پوری وادی میں پھیلتی جا رہی ہے۔

بھارت انسانیت سوز جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے کشمیری مسلمانوں پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور ایسے مظالم توڑ رہا ہے کہ جن کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ اس کی ایک مثال پیلٹ گن کا استعمال ہے جو 2010 کے بعد 9 جولائی 2016 کو دوبارہ وسیع پیمانے پر استعمال ہونا شروع ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق 2 ملین سے زائد پیلٹز (Pellets) استعمال ہوئی ہیں۔ جن سے 7000 سے زائد کشمیری بری طرح زخمی ہوئے اور بینائی سے محروم ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق ان میں مختلف کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں۔

کشمیر میں بھارتی جارحیت کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بڑی واضح ہے لیکن اسے مزید مستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے ہماری حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے ہرانٹرنیشنل فورم پر نہایت مضبوطی سے اپنا موقف پیش کریں اور انسانی حقوق کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی اور بھارتی جارحیت کے خلاف ایسا عالمی دباؤ تخلیق کریں جس سے بھارت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔ ہمیں چاہیے کہ بہترین اور موثر پالیسی بنانے کے ساتھ ساتھ بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے قیامت خیز تشدد کی طرف عالمی توجہ مبذول کروانے کے لئے بھی مناسب حکمت عملی وضع کریں اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کو بھی یکجہتی کا ایسا پیغام دیتے رہنا چاہیے جس سے ان کے پائے استقامت کو مزید تقویت ملے اور حوصلہ افزائی کے اس تاثر سے ان کی تحریک آزادی میں جب ضرورت ہو نئی روح پھونکی جا سکے۔

بیرون ملک رہنے والے کشمیری مسلمانوں کی طرف سے بھی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنا قابل ستائش ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ تنازعہ کشمیر پر اقوام عالم کی توجہ اس وقت تک مبذول کرواتے رہنا چاہیے جب تک کشمیریوں کو آزادی مل نہیں جاتی جو ان کا بنیادی حق ہے۔ بھارتی جارحیت اور ظلم و ستم کی وجہ سے ہی ان کے یوم جمہؤریہ پر تحریک خالصان زندہ باد اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے گونجتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments