باچاخان: مقدس شخصیت یا باعمل سیاسی راہرو


یہ میری خوش قسمتی ہے کہ پروفیشنل ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ میرا تعلق ادب سے بھی ہے۔ اور میری مزید خوش قسمتی یہ ہے کہ میں کراچی میں رہائش پذیر ہوں۔ اور کراچی میں رہنے کی وجہ سے مجھے وکالت کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں بھی اٹھنے بیٹھنے کے مواقعے ملتے ہیں۔ اور میں اس حوالے سے کراچی آرٹس کونسل کا باقاعدہ ممبر ہوں اور ہر جمعے کو ہم رائٹر اینڈ ریڈر کیفے میں کسی نہ کسی موضوع یا کسی نہ کسی شخصیت پر مکالمہ کرتے ہیں اور اس کیفے کے روح رواں سیدہ نورالہدی شاہ، ڈاکٹر فاطمہ حسن، ڈاکٹر تنویر انجم اور افضال سید جیسی شخصیات ہیں۔

گزشتہ ہفتے جب سندھی اور بروشسکی زبانوں پر مکالمہ ہو رہا تھا تو سندھی زبان و ادب کی ایک جانی، مانی اور پہچانی شخصیت ڈاکٹر غفور میمن نے سندھی زبان و ادب پر جب سیر حاصل گفتگو مکمل کی تو جب میں نے ان سے سوال کیا کہ شاہ لطیف تو خیالات کے لحاظ سے بڑے روشن خیال، قوم اور زبان، اپنی کلچر اور بود و باش سے انتہا تک محبت کرتے تھے تو یہ ان پر صرف صوفی ازم کا ٹپہ کیوں لگایا گیا ہے؟ تو ڈاکٹر غفور میمن کا جواب تھا کہ ان کو دراصل ڈوگمہ بنایا گیا ہے یا ڈوگمہ کی صورت میں زیادہ نمایاں کیا گیا ہے۔

تو میں جب اپنی جانب پلٹا تو یہ صورت حال ہمارے ساتھ بھی تھی میری زبان و ادب اور سیاست کے ساتھ بھی یہی وتیرہ روا رکھا گیا ہے، میری کئی ادبی اور سیاسی شخصیات تاریخ میں ڈوگمیٹزم کے شکار ہوئے ہیں یا پر ان کو ڈوگمہ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے تاکہ درست ہے ان کا فرمایا ہوا کے مصداق ان کو عقیدتا” اپنایا یا مانا جائے تاکہ نہ ان سے کوئی سوال کیا جائے، نہ ان پر کوئی سوال اٹھایا جائے اور ایک بناوٹی ادب اور احترام کا ایسا رشتہ جوڑا جائے کہ کوئی ان سے مکالمہ تک نہ کر سکے تاکہ کسی کی سیاسی سوچ کی آبیاری نہ ہو سکے۔ اور ایسی مثالیں ہماری سیاسی اور ادبی تاریخ میں وافر مقدار میں مل سکتی ہیں۔

جب ہم مغل دور پر نظر دوڑاتے ہیں تو بابوں، پیروں، مریدوں اور آستانوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو آج تک قائم و دائم ہے۔ اور ان ڈوگمیٹک سلسلوں کے خانوادے ادب، زبان، سیاست، اخلاق معیشت اور سماج پر چائے ہوئے ہیں اور عوام ان کو عقیدتا فالو کرتے ہیں،

پیر بابا، اخون درویزہ بابا، اور ان کے مد مقابل پیر روشان گو کہ ان سے سیاسی اور عقیدے کے لحاظ سے الگ تھے لیکن وہ بھی ڈوگمیٹک صورت حال سے نہ بچ سکے اور تصوف کے مسلکی اصولوں میں الجھ کر اپنے خلیفوں تک کو اس ڈوگمیٹک اصولوں میں الجھائے رکھا۔ باوجود یہ کہ پیر روشان، پیر بابا اور اخون درویزہ کی طرح بابا کے لاحقے سے تو موسوم نہ ہوئے لیکن پیر کے سابقے سے خود کو نہ چھوڑا سکے اور آج تک اس سابقے کے ساتھ بولے اور پکارے جاتے ہیں۔

اسی طرح عبد الرحمان المعروف رحمان بابا گو کہ وہ ایک خان اور سیاسی گھرانے کے خانوادے تھے لیکن
نۀ شی د خانانو ملنګانو سرہ کلی
چرتہ عزیز خان چرتہ ملنګ عبدالرحمان
خانوں یعنی اہل ثروت کے ساتھ کہاں ملنگوں کی بنتی ہے
کہاں عزیز خان اور کہاں ملنگ عبدالرحمان

شعر میں ملنگوں کے ایک لفظ نے عبدالرحمان کو ایسے بابا بنا دیا کہ بجائے اس کے کہ پڑھنے والے یا عوام ان کے سیاسی، عمرانی، معاشی، روشن فکری، زیست و روزگار، حسن عشق کے افکار اور جمالیاتی اظہار پر تبصرے کرتے لوگوں نے ان کے دیوان میں فال نکالنے، دنیاوی کے بجائے اخروی پیغام کو ڈھونڈنے، عشق مجازی کے بجائے عشق حقیقی اور تصوف کے خود ساختہ اصطلاحات کو اجاگر کرنے، قومی کے بجائے صوفی شاعر ثابت کرنے اور خانگی معاملات کے پرچارک کو خانکائی تجاوزات کے سفارت کے مرتبے پر فائز کرنے جیسے صورت گری کے طور پر روشناس کیا تاکہ ان کے فوت ہونے کے بعد ان پر ایک ایسا گنبد تعمیر کیا جائے کہ لوگ ان کے افکار سے نئے نئے سوالات کے در وا کریں، ان کے مزار پر ہاتھ پھیلائیں، ان کے نام سے سوالات کے لئے ہاتھ اور جھولی پھیلائیں اور اپنی دنیاوی زندگی کو سنوارنے کے بجائے اخروی زندگی کو سنوارنے کے تگ و دو میں زندگی کو دوام دینے میں مصروف عمل رہیں۔

مرزا علی خان کو ایپی فقیر، سرتور ملنگ بنایا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ امیر حمزہ خان شنواری کو حمزہ بابا، غنی خان جیسے زندگی سے بھرپور شاعر کو غنی بابا اور اجمل خٹک جیسے باعمل سیاستدان کو اجمل بابا بنایا گیا جبکہ اجمل خٹک خود کہتے ہیں کہ

راځئی چی خپل مرام تہ پۀ شریکہ جرګہ اوکو
اجمل څۀ بابا نۀ دی چی سوالونہ یی قبلیږی
آئیں کہ اپنے مقصد کے لئے اکٹھے صلاح مصلحت کریں
اجمل کوئی بابا نہیں کہ ان کی التجائیں قبول ہوں گی

جب اس تمام پس منظر میں ہم اپنی سیاسی اور ادبی تاریخ پر نظریں دوڑائیں تو ہماری سیاسی تاریخ میں دو ہی ایسی شخصیات ملیں گی کہ وہ نہ لاحقے کے طور پر بابا اور نہ سابقے کے طور پر پیر کے القاباتو خطابات سے جانے یا پہچانے جاتے ہیں بلکہ دونوں اپنے اپنے ناموں کارناموں اور سیاسی سوچ اور اپروچ سے عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ایک خوشحال خان خٹک اور دوسرے خان عبد الغفار خان۔ گو کہ خوشحال خان خٹک کے بھائی جمال خان خٹک المعروف فقیر جمیل بیگ فقیری کے ڈوگمے سے اپنا دامن نہ چھوڑا سکے اور آج تک ان کے خانوادے فقیر خیل کے آستانہ داری کے علم بلند کیے ہوئے ہیں۔

خان عبد الغفار خان کو بھی ڈوگمہ کی صورت میں پیش کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں کبھی ان کے قد کاٹ کو اس طرح پیش کرنا کہ لوگ سیاسی کے بجائے ان کی روحانی پیشوائی شروع کریں اور لوگ سیاسی ہونے کے بجائے ان کے عقیدت مند بن جائے اور لوگ سیاسی بات کرنے سے کترائے اور لوگ ان سے سیاسی مکالمے کے بجائے دعائیں کروائیں اور ان کے ہاتھ چومے۔ کبھی ان کے ہاتھوں کے لمبائی کا تذکرہ اس طرح سے کیا جاتا تھا کہ جیسے وہ عام انسان نہیں بلکہ وہ کسی اور سیارے کے مخلوق ہوں اور ان کو عوام کے درمیان روحانی طور پر لایا گیا ہو تاکہ لوگ ان کی روحانی شخصیت کے سحر میں پھنس جائے۔

کبھی ان کے مشابہت کے حوالے سے پروپیگنڈا کرایا جاتا تھا کہ ان کے ہم شکل بہت سارے لوگ ہیں اور کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اصل باچا خان کون ہیں تاکہ لوگ اس شش و پنچ یا دھری سوچ یا کنفیوژن میں رہیں کہ جو شخصیت اس وقت ان کے سامنے یا درمیان ہے وہ اصلی باچا خان ہے یا نقلی اور لوگ اپنا اصلی مدعا، سوچ اور ہدف سے دور ہو جائیں یا پھر لوگوں کا دل ٹوٹ جائے اور اصل اور نقل کے اس مخمصے میں پھنسے رہیں۔

لیکن باچا خان کی جو سیاست تھی وہ کسی ایسے فلسفی کی سیاست نہیں تھی کہ وہ صرف سوالات اٹھاتا ہو بلکہ ان کی سیاست ایک ایسے راہنما کی راہنمائی تھی جو سوالات نہیں بلکہ جوابات پر مبنی تھا اور جواب کا پہلا حرف شروع ہی عدم سے تھا منع کرنے سے تھا لیکن یہ منع کرنا سیاست، معیشت، یا سماجیات سے نہیں بلکہ سیاست، معیشت اور سماجیات کو قلع قمع کرنے سے منع کرنا تھا۔ یہ منع کرنا کسی مذہبی رواداری سے نہیں تھا بلکہ مذہبی عملداری سے منع کرنا تھا، یہ منع کرنا تشدد سے منع کرنا تھا، یہ منع کرنا مکالمے سے منع کرنا نہیں تھا بلکہ یہ منع کرنا مکالمے میں تیزی تلخی اور آواز اونچا کرنے سے تھا۔

یہ منع کرنا اپنے حق سے منع کرنا نہیں تھا بلکہ اپنے حق کے حصول کے لئے کسی اور کے حق پر قابض ہونے سے منع کرتا تھا۔ یہ منع کرنا اپنے دفاع سے منع کرنا نہیں تھا بلکہ اپنے دفاع کے نام کسی کے خلاف بندوق اٹھانے اور دفاع کے نام پر تشدد کرنے سے منع کرنا تھا۔ یہ منع کرنا اپنے وسائل پر بات کرنے سے منع کرنا نہیں تھا بلکہ اپنے وسائل سے لاپرواہی اور نا آگاہی سے منع کرنا تھا۔ یہ منع کرنا جہالت سے منع کرنا نہیں تھا، تعلیم سے منع کرنا نہیں تھا، یہ منع کرنا اشتعال انگیزی، افراتفری، مارا ماری، خونریزی، عدو برادر اور عدو قرابت سے تھا، یہ منع کرنا خواتین کے حقوق کی پامالی سے تھا، خواتین کو تعلیم اور تربیت نہ دینے سے تھا اور اس طرح مزید اور۔

باچا خان وہ باعمل سیاسی راہ رو تھے کہ پشتونوں کے تمام جغرافیائی وطن کے گھر گھر، در در اور چپہ چپہ سے واقف تھے۔ اپنی سیاسی بات پہنچانے کے وہ مبلغ تھے کہ کسی ہرکارے یا نمائندے کی وساطت سے لوگوں سے مخاطب نہیں ہوتے تھے بلکہ بنفس نفیس بزبان خود اور بقلم خود حاضر ہوتے تھے۔ وہ اپنے چاہنے والوں کے ماتے کو دیکھتے تھے خوانچے کو نہیں، وہ اپنے لوگوں کے ساتھ پگڈنڈیوں پر چلنے اور زمین پر بیٹھنے والے سیاسی راہروہوں میں سے تھے۔ ان کے پاؤں کے نشانات کے پشتون وطن کے جغرافیے کا چپہ چپہ گواہی دے گا کہ ہاں میرے سینے پر فخر افغان باچا خان قدم رنجا فرما چکے ہیں۔

پروفیسر پرویش شاہین صاحب کے بقول جس کو بعد میں مشہور اسلامی سکالر جاوید احمد غامدی صاحب نے بھی انڈورس کیا ہے کہ پشتونوں کے دو ہی سیاسی لیڈران ایسے تھے کہ وہ اپنے جغرافیہ کے تمام علاقوں، گاؤں اور دیہاتوں سے واقف تھے۔ ایک خوشحال خان خٹک اور دوسرے باچاخان۔

اگر باچا خان چاہتے تو وہ ایسے ڈوگمہ بنتے کہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے بابوں اور پیروں کو اپنے آستانوں سے ہاتھ دھونے پڑتے لیکن نہیں وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ جہل اور اندھیروں کے ساتھی نہیں تھے وہ اپنے قوم کو بھٹکے ہوئے راستوں پر گامزن کرنے والے نہیں تھے وہ اپنی قوم کو گم گشتہ راہوں پر چلانے والے نہیں تھے وہ قوم کو روشنیوں، آگاہی اور دور حاضر کے تمام تر رعنائیوں سے خوگر ہو کے آگے بڑھانے کے روادار تھے۔

باچا خان تھے تو خان لیکن رویہ کبھی خانوں کا نہیں رکھا، باچا خان تھے تو جاگیردار لیکن ملکیت جاگیر پر نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں پر کی۔ باچا خان تھے تو سیاسی لیڈر لیکن وہ کبھی لیڈر بن کے لوگوں کے درمیان نہیں رہے بلکہ ایک کارکن کی صورت میں ہمیشہ لوگوں کے ساتھ شانہ بشانہ چلے۔

باچا خان نے ایسی عمر میں سیاست اور عوام کی خدمت کے لئے کمر کس لی تھی کہ اس عمر میں نوابوں، خانوں اور جاگیرداروں کے خانوادے پیسوں کی ریل پیل اور نوکر چاکروں کے غول میں عیش و عشرت اور اپنے خواہشات کی تکمیل کے لئے کمر باندھ لیتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کی تاریخ میں باچا خان سے زیادہ سحر انگیز اور گلیمرس شخصیت شاید ہی کسی کی رہی ہو لیکن جس انداز سے انھوں نے ردعمل دکھایا ہے وہ اس سے کئی درجہ سحر انگیز اور گلیمرس ہے لیکن یہ سحر انگیزی اور گلیمر عوامی آنکھوں کو بجائے اس کے کہ چکاچوند کریں الٹا ان کی آنکھوں میں باچا خان کی سیدھی سادھی اور بغیر بناوٹ کا ایک ایسا تصویری مجسمہ ساز کر دیتا تھا کہ اس مجسمے کو سیدھے اپنے دلوں کے تہہ خانوں کے آرٹ گیلریوں میں ایک نادر نسخے کی طرح محفوظ کر لیتے تھے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا تھا یا آیا ہے کہ لوگ اس لمحے کو تاریخ کا حصہ سمجھتے تھے کہ اس شخصیت سے فلاں وقت یا فلاں جگہ جب وہ چھوٹے تھے، عہدیدار تھے یا کسی اور خدمت پر تعینات تھے تو ملے تھے اور ان کو ایک یادگار کے طور پر پیش کیا کرتے تھے یا کر رہے ہوتے ہیں۔

اور آج جب ہم سب اس عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تو کئی اکابرین اس یادگاری سوچ کے مرحلے سے بار بار گزر گئے ہوں گے یا گزر رہے ہوں گے اور ان کے تصویری مجسمے کو اپنے دلوں کے تہہ خانوں میں ایک یادگاری پورٹریٹ کی صورت میں رکھا ہوا ہو گا جو اپنے وقت کو زندہ کر کے چلتا پھرتا، باتیں کرتا اور کچھ کرتا ہوا نظر آ رہا ہو گا اور یہ سچ ہے اور اس سچ کو خوشحال خان خٹک نے اپنے شعر کا عملی جامہ کچھ اس طرح پہنایا ہوا ہے۔

مړ ہغہ چی نۀ یی نوم نۀ یی نشان وی
تل تر تلہ پۀ ښۀ نوم پایی ښاغلی
مرحوم وہ ہوتے ہیں جو بے نام اور بے نشان ہوں
وہ اچھے نام کے ساتھ زندہ و جاویداں ہوتے ہیں جو محترم ہوتے ہیں۔
اور باچا خان احترام آدمیت اور احترام انسانیت کے اعلی مدارج پر فائز تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments