صحافت کی سیڑھی اور اقتدار


صحافت اور سیاست کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ کسی بھی صحافی کی جانب سے حکومت یا سیاسی جماعت میں شمولیت فیصلے پر ہمیشہ ایک بحث جنم لیتی ہے۔ اس کے حق اور مخالفت میں دونوں طرح کی آراء ہیں۔ اکثریت اس عمل کی ناقد ہے۔ صحافت سے وابستہ شخصیات کا حکومت یا سیاسی جماعت کا حصہ بننا نئی یا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ البتہ اس رجحان میں اب اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ صحافی نگران سیٹ اپ کے ذریعے اس میدان میں اترے تو کچھ نے سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے مستقل بنیادوں پر یہ پیشہ اختیار کر لیا۔

پنجاب میں نگران وزیراعلی کے لیے ایک میڈیا گروپ کے مالک کا انتخاب، سیاست میں آنے والے صحافیوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہو گیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر بحث چھڑ گئی۔ عام انتخابات میں بھی صحافی بطور امیدوار حصہ لیتے رہے لیکن 1988 ء میں باقاعدہ صحافیوں کی جانب سے حکومت کا حصہ بننے کا رجحان شروع ہوا اور پھر بتدریج یہ بڑھتا ہی چلا گیا۔

جن لوگوں کا خیال ہے کہ ’صحافی کو سیاست میں شامل نہیں ہونا چاہیے ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ایک صحافی کو سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ صحافت ایک مکمل ذمہ داری ہے، صحافت ایک صحافی کو جو آزادی دیتی ہے اس پر سمجھوتہ کرنے سے صحافی کی خودمختار حیثیت متاثر ہوتی ہے۔ مشہور صحافی مظہر عباس ذاتی طور پر اس بات کے حق میں نہیں کہ صحافی حکومت کا حصہ بنیں۔

اگر کسی صحافی کے وزیراعلیٰ بننے کا تذکرہ ہو تو اس فہرست میں سب سے پہلا نام حنیف رامے کا ہے۔ حنیف رامے بھٹو دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔ اس کے بعد 1993 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جونیجو (ج) کی مخلوط حکومت میں وہ اسپیکر پنجاب اسمبلی بھی رہے۔ حنیف رامے کو آج بھی ایک دانشور وزیراعلی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں ایک انگریزی روزنامہ کے ایڈیٹر الطاف حسین نے عہد ایوبی میں اخبار کی ادارت چھوڑ کر کابینہ میں، وزیر صنعت کی ذمہ داریاں انجام دیں۔

اس کے بعد کئی صحافی حکومت اور سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ بھٹو مرحوم کے دور میں انگریزی اخبار سے وابستہ صحافی نسیم احمد وفاقی سیکرٹری اطلاعات بنے۔ اسی دور میں مولانا کوثر نیازی مرحوم وزیر مذہبی امور اور وزیر اطلاعات رہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا پریس سیکرٹری صحافی خالد حسن کو چنا۔ بعد میں خالد حسن پیرس میں پریس اتاشی مقرر ہوئے۔ خالد حسن روزنامہ پاکستان ٹائمز میں رپورٹر تھے، بعد ازاں وہ مختلف انگریزی اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔

نگران سیٹ اپ سے ہٹ کر بات کی جائے تو کچھ صحافیوں نے عام انتخاب میں بھی حصہ لیا۔ سینیئر صحافی ایاز امیر بھی رکن اسمبلی رہے۔ وہ پہلے 1997 ء میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی بنے اور پھر 2008 ء میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافی خالد چوہدری نے سینیئر صحافی ظہور احمد نے لاہور سے انتخاب میں حصہ لیا لیکن وہ پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب نہ ہو سکے۔

حسین حقانی نے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور صحافی کیا تھا۔ وہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے ہفت روزہ فار ایسٹرن اکنامک ریویو کے پاکستان میں بیورو چیف تھے۔ جنرل ضیاءالحق کے مرنے کے بعد انہوں نے صحافت کو خیرباد کہہ دیا اور 1988 ء میں مسلم لیگ (ن) کے میڈیا ایڈوائزر بن گئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے انہیں سری لنکا میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کیا۔ جب نواز شریف کی پہلی حکومت کو غلام اسحاق خان نے گھر بھیجا تو حسین حقانی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور انہوں نے پی پی پی جوائن کر لی۔

بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں وہ وفاقی سیکرٹری اطلاعات اور پھر چیئرمین ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن تھے۔ جنرل مشرف نے جب ٹیک اوور کیا تو حسین حقانی حکومت میں شامل ہونے کے لئے لابنگ کرتے رہے مگر جب کام نہ بنا تو وہ امریکہ سدھار گئے اور پیپلز پارٹی کی 2008 ءمیں حکومت بنی تو انہیں واشنگٹن میں پاکستانی سفیر بنا دیا گیا۔

ان سے پہلے صحافی واجد شمس الحسن بھی پیپلز پارٹی کے دور میں برطانیہ میں ہائی کمشنر رہے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں ملیحہ لودھی ہائی کمشنر تعینات ہوئیں۔ ان دونوں نے سفیر کے فرائض بھی انجام دیے۔ انگریزی صحافت سے منسلک مشاہد حسین سید 1993 ء میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وابستہ ہوئے، نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں سینیٹر منتخب ہو کر وزیر اطلاعات بنے اور نواز شریف کی 12 اکتوبر 1999 ء کی حکومت ختم ہونے تک ان کے ساتھ رہے۔ اسی دور میں پرویز رشید پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین بنے۔ پرویز رشید بھی صحافت سے سیاست میں آئے۔ بعد ازاں مشاہد جنرل پرویز مشرف کی کنگ پارٹی مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو کر پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے۔ ان دنوں پھر مسلم لیگ نون میں ہیں۔

فرحت اللہ بابر کی پیپلز پارٹی سے طویل رفاقت ہے اور وہ ان صحافیوں میں سے ہیں جو اپنی پارٹی سے وابستگی پر ایوان بالا یعنی سینیٹ کے رکن بنے۔ وہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے ترجمان بھی رہے۔ عرفان صدیقی ایک استاد سے صحافی اور پھر رکن پارلیمان بنے۔ عرفان صدیقی ابتداء میں سابق صدر رفیق تارڑ کے سیاسی مشیر مقرر ہوئے اور پھر طویل وقفے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے انہیں اپنا سینیٹر بنایا۔

انگریزی صحافت سے منسلک 2 ممتاز خواتین صحافی بھی رکن اسمبلی بنیں۔ ماہنامہ ہیرالڈ کی سابق ایڈیٹر شیری رحمٰن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنیں اور 2008 ء میں وزیراطلاعات رہیں، بعد میں انہیں امریکا میں سفیر مقرر کیا گیا۔ شیریں مزاری بھی صحافتی سفر طے کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنیں اور وفاقی کابینہ کا حصہ رہیں۔

2002 ء میں لاہور کی خاتون صحافی اور رپورٹر کنول نسیم مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کی رکن بنیں۔ کالم نگار بشریٰ رحمٰن بھی رکن قومی اور صوبائی اسمبلی رہیں۔ کچھ دوسرے صحافی بھی سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ صدیق الفاروق ایک انگریزی خبر رساں ایجنسی سے وابستہ تھے۔ انہوں نے بھی 90 ءکی دہائی میں مسلم لیگ (ن) سے وابستگی اختیار کر لی اور نواز شریف کی دوسری حکومت میں ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے سربراہ رہے۔

بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں ایک نامور صحافی اظہر سہیل نے ڈائریکٹر جنرل اے پی پی پنجاب کا عہدہ سنبھالا۔ جب صدر فاروق خان لغاری نے بینظیر کی دوسری حکومت توڑی تو تین صحافیوں ارشاد احمد حقانی ’نجم سیٹھی اور مصطفیٰ صادق نے حکومت میں شمولیت اختیار کر لی۔ اگر موجودہ حکومت کی بات کریں تو نامور صحافی فہد حسین بھی شہباز شریف کی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں اور وہ معاون خصوصی کے طور پر فرائض ادا کر رہے ہیں۔

کئی صحافی جو ایک مرتبہ اقتدار کا جھولا جھول لیتے ہیں انہیں وہ مزا چین نہیں لینے دیتا وہ پھر سیاسی عہدے قبول کر لیتے ہیں لیکن صحافت کے پیشہ سے کمٹمنٹ رکھنے والے صحافی سیاست کو صحافت سے کم تر سمجھ کر اسے ٹھکرا دیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی نامور صحافی جہاں سیاسی عہدوں کی پیشکش کے سامنے ڈھیر ہوتے رہے۔ وہیں کئی ایسے صف اول کے صحافی ہیں جنہیں انتہائی منفعت بخش عہدوں کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے صحافت کو نہ چھوڑا۔ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی مرحوم کو جنرل ضیاءالحق نے مجلس شوریٰ کا رکن، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان کی صدارت کا منصب اور وزیراعظم جونیجو نے پنجاب کی گورنری پیش کی لیکن انہوں نے بصد شکریہ معذرت کر دی۔

عباس اطہر کو ہر طرح کے عہدوں کی بار بار پیش کش ہوئی جنہیں وہ ہنسی مذاق میں اڑا دیا کرتے تھے۔ درویش صفت ادریس بختیار ساری زندگی عامل صحافی رہے، بڑی بڑی ترغیبات کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔

معروف تجزیہ کار اور بزرگ اخبار نویس محسن رضا خان کو 1993 سے اقتدار میں آنے اور مشاورت کی پیش کشوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن وہ ہمیشہ معذرت کرتے رہے ہیں کہ ”وہ صحافت میں صحافت کرنے آئے ہیں صحافت کو ایوان اقتدار میں جانے کی سیڑھی نہیں بنا سکتے۔

امجد اسلام امجد نے کیا خوب کہا ہے

‎یہ جو سانپ سیڑھی کا کھیل ہے
‎ابھی ساتھ تھے دونوں ہم نوا
‎وہ بھی ایک پہ
‎میں بھی ایک پہ
‎اسے سیڑھی ملی وہ چڑھ گیا
‎مجھے راستے میں ہی ڈس لیا
‎میرے بخت کے کسی سانپ نے

آنے والے وقت میں اور جتنے صحافی حکومت یا سیاسی جماعت کا حصہ بنیں لیکن یہ بات طے ہے کہ کسی صحافی کی تحریر یا تجزیہ اسی وقت جاندار ہو گا جب وہ اپنے بارے میں اس تاثر کو برقرار رکھ سکے کہ وہ غیر جانبدار، آزاد اور خود مختار ہے۔

مشاہد حسین سید نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے بعد صحافت کو ترک کر دیا۔ بھارت میں بھی ایسی مثالیں ہیں۔ جیسے ایم جے اکبر نے سیاست میں حصہ لینے کے بعد اعلان کیا کہ وہ اب صحافت نہیں کریں گے۔ اب آئیے پنجاب کے نگران سیٹ اپ کی طرف جس میں ایک صحافی وزیر اعلیٰ بنائے گئے ہیں۔

حکومت اور حزب اختلاف میں نگران وزیراعلیٰ کے ناموں پر اتفاق نہ ہو نے کے بعد الیکشن کمیشن نے آئینی اختیار کے تحت محسن رضا نقوی کو نگران وزیراعلیٰ منتخب کر لیا۔

محسن نقوی تیسرے صحافی ہیں جو نگران وزیراعلیٰ بنے۔ اس سے پہلے نجم سیٹھی 2013 ء میں اور ڈاکٹر حسن عسکری رضوی 2018 میں نگران وزیر اعلیٰ رہے۔ نجم سیٹھی اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ ہیں۔

محسن رضا نقوی کا تعلق میڈیا انڈسٹری سے ہے اور عام طور پر وہ محسن نقوی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

میڈیا ٹائیکون محسن نقوی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد امریکی یونیورسٹی سے صحافت میں ڈگری لینے کے بعد سی این این میں بطور پروڈیوسر بھرتی ہوئے۔

افغانستان پر امریکی حملے کے بعد وہ پاکستان میں سی این این کے نمائندے کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ سال 2009 میں انہوں نے پہلے کمیونٹی چینل کی بنیاد رکھی۔ اور سٹی 42 نامی لاہور شہر کا اکلوتا ٹی وی چینل لانچ کیا۔

ان کی میڈیا کمپنی سٹی نیوز نیٹ ورک کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔ میڈیا انڈسٹری میں ہر شہر کے لیے الگ چینل شروع کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے محسن نقوی نے سٹی 42 کے بعد ملتان میں روہی، کراچی میں سٹی 21، فیصل آباد میں سٹی 41 اور لندن میں سٹی 44 کے نام سے چینل شروع کیے۔

اسی دوران انہوں نے قومی سطح پر چینل 24 بھی شروع کیا۔ محسن نقوی میڈیا انڈسٹری میں سب سے کم عمر سیلف میڈ شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں جنہوں نے محض 30 سال کی عمر میں اپنا نیوز چینل شروع کیا۔

محسن نقوی نے کبھی سیاسی معاملات پر کوئی بیان نہیں دیا تاہم مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں نواز شریف کی پالیسیوں پر تنقید میں محسن نقوی کے تمام چینل بھی شامل تھے۔ 2015 میں نریندر مودی اچانک پاکستان آئے تو ان کے وفد کے رائے ونڈ آنے پر سٹی 42 چینل کی رپورٹنگ کے انڈیا میں بڑے چرچے رہے۔ اس رپورٹنگ میں اس دورے پر تنقید کی گئی تھی۔

پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے ناموں کی بات آئی تو اصولی سیاست کا پرچار کرنے والی تحریک انصاف کی جانب سے پی ڈی ایم کی طرف سے دیے جانے والے ناموں کا مذاق اڑایا اور کہا کہ تحریک انصاف نے جو نام دیے ہیں ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے کے مصداق، جب ان ناموں پر غور کیا گیا تو پتا چلا کہ اصل مذاق تو تحریک انصاف نے قوم سے کیا ہے۔ ناصر سعید کھوسہ اور نوید اکرم چیمہ نے وزیر اعلیٰ بننے سے ہی انکار کر دیا جبکہ نصیر خان کا نام دہری شہریت کی وجہ سے مسترد ہونا تھا۔ احمد نواز سکھیرا حاضر سروس سرکاری ملازم ہیں اور ان کی ریٹائرمنٹ میں کچھ دن باقی تھے جس کے باعث وہ وزیر اعلیٰ نہیں بن سکتے تھے یہ حقیقت ہے ان ناموں کی جو تحریک انصاف نے نگران وزارت علیا کے لیے پیش کیے۔

محسن نقوی کا ایک اور سیاسی بیک گراؤنڈ چوہدری پرویز الٰہی کے قریبی رشتہ دار ہونے کا بھی ہے۔ جس کا اظہار خود چوہدری پرویز الٰہی نے کیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق محسن نقوی نے ایک صحافی کے طور پر ملک کی طاقتور اشرافیہ میں اپنا مقام اپنے بل بوتے پر بنایا۔ قائد حزب اختلاف اور قائد حزب اقتدار اور پارلیمانی پارٹی کے ممبران کے مابین اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے آئینی اختیار کے تحت محسن نقوی کی تقرری کی۔

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں کہ صحافی سیاست سے حکومت میں جاتے ہیں، پھر واپس آ جاتے ہیں اور کوئی ان پر تنقید نہیں کرتا۔ دنیا بھر میں میڈیا کو پروفیشن سمجھا جاتا ہے، مافیا نہیں کہ اگر آپ اس کا حصہ بن جائیں تو باہر نہیں نکل سکتے۔

برطانیہ کے وزیر اعظم چرچل، فیض احمد فیض اور زیڈ اے سلہری فوج کی نوکری کے ساتھ صحافت بھی کرتے رہے، برطانوی سابقہ وزیراعظم بورس جانسن سینئر صحافی تھے۔ انڈیا کے مایہ ناز صحافی کلدیپ نیئر نے صحافت، سیاست اور سفارت کاری کا سفر مسلسل جاری رہا۔ محمد مالک معید پیرزادہ اور کئی اور نام بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments