اپنا مقالہ کسی سے لکھوانا قابل دست اندازی جرم ہے


”سرقہ والا معاملہ اب پرانا ہو چکا، اب جامعات میں معاوضہ دے کر تھیسس لکھوانے کا رجحان زور پکڑ چکا ہے۔ یہ اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ اب اسے جرم ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یہ عمل اب کسی بھی سبجیکٹ سے ماورا نہیں۔ تقریباً ہر شعبہ اس میں ملوث ہے۔

پیشہ ور لکھاری نہایت غیر معیاری تھیسس لکھ کے دے دیتے ہیں اور بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ عموماً کمزور طلبہ و طالبات ان کو ایک معاہدے کے تحت رقم دے کر لکھواتے ہیں اور ڈیفنس وغیرہ جیسے مراحل میں اپنی کمزور شخصیت کا طاقت سے استعمال کرتے ہیں۔ یہ طلبہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ سیکھنے کے عمل میں ہیں اور بس ایسا ہی لکھ سکتے تھے۔ طلبہ اسی ایک امید پہ جامعات میں ایڈمیشن لے رہے ہیں کہ تھیسس تو لکھوا لیا جائے گا کسی طرح ایڈمیشن لیا جائے ”۔

قاسم یعقوب صاحب کی فیس بک پہ سعودی عرب کی ایک رپورٹ کے ساتھ یہ الفاظ لکھے دیکھے تو ہم نے بھی دل ہلکا کرنے کو چند حقائق لکھ دیے تو جناب من مٹھاس سے کیا کیا نوچ ڈالنے والے جملے پڑھنے کو ملے۔ ان کو چھوڑتے ہیں او حقائق کی بات کرتے ہیں تو سچ کڑوے کریلے جیسا نیم چڑھا ہے۔

یہ سب اساتذہ کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ سب نے چور دروازے کھول رکھے ہیں۔ مقالے کا موضوع پاس کروانے والے سے لے کر اس کا ڈیفینس کروانے والے تک سب کو معلوم ہوتا ہے کہ کس کس قدم پہ کون کون کتنے پانی میں ہے۔

یونیورسٹی کے جونیئر یا سینیئرز اپنے ہی جونئیر سینیئرز کا کام کمپوز کر رہے ہوتے ہیں یوں ان کی پاکٹ منی بن جاتی ہے۔

اسے اگلا قدم کسی مضمون کے حوالہ جات تلاش کرنے کا ہوتا ہے۔ اسے بھی کوئی انکم ہو ہی جاتی ہے۔

اسے اگلا قدم ایکس وائے کیٹگری کے میگزین کے لئے مضمون لکھنا اور اس کو شائع کرنے کا وہ پہلا مرحلہ ہوتا ہے جس میں سب کی جیب ہری بھری ہو جاتی ہے۔

یونیورسٹیوں کے صدر شعبہ سے لے کر عام استاد تک ملک میں ہونی والی سیاست کی طرح سب جانتے ہیں۔ کہیں یہ مدد گار ہوتے بھی ہیں، کہیں مصلحتیں بھی ہوتی ہیں، کہیں اقربا پروری بھی چلتی ہے، کہیں یادیں سہانی باتیں بھی ہوتی ہیں۔

یوں یہ تو یونیورسٹی کے اندر تک کاپی ایچ ڈی کا مقالہ نظام ہوتا ہے۔ کچھ نظام اس کے ساتھ ساتھ باہر بھی چل رہے ہوتے ہیں۔

جامعات کے آس پاس اور ہر شہر کے اردو بازار میں بہت سے کمپوزر اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ جو کتابیں اور ہر طرح کا مقالہ جات، تحقیقی مواد کمپوز ہی نہیں کرتے اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں کم از کم یہ ایک مقالہ نگار سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔

یہاں مقالہ ٹھیکے پہ لکھا اور بیچا جاتا ہے۔ ان کمپوزر کی دکانوں کے ساتھ جامعات کے استاد جڑے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد طالب علموں کی کھیپ جڑ جاتی ہے اور کڑی سے کڑی ملتی چلی جاتی ہے۔

یہی وہ لوگ ہیں جو گائیڈ بکس لکھتے اور لکھواتے ہیں اس کے ساتھ پبلیکیشن مافیا ملا ہوتا ہے۔

یہ سب کام ایک استاد بھی کر رہا ہو تا ہے جو برسر روزگار ہوتا ہے۔ کھی وہ اپنے حصے کے پیسے رکھ کر باقی پیسے اور کام کسی طالب علم کو سونپ دیتا ہے۔ اس کو بھی سسٹم کا علم ہو جاتا ہے ایسے سب یونیورسٹی کے زمانے سے ہی تھوڑا تھوڑا کمانے لگتے ہیں۔

ان بچوں کو ابھی یہ نہیں علم کہ یہ جرم ہے کچا پکا لکھتے ان میں سے کچھ بچے تھوڑے بہت لکھاری بھی بن جاتے ہیں پھر وقت کس کو کہاں لے جائے یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔

اس سے مزید محفوظ کام یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنا کام اچھا نوعیت کا کروانا چاہتے ہیں تو آپ کسی پروفیشنل رائٹر سے رابطہ کرتے ہیں تا کہ کل کو وہ اپنا مقالہ شائع کروا سکیں۔ اب لکھنے والے نے تو اپنے کام کا معاوضہ لینا ہوتا ہے جو اگر مقالہ نگار کرے گا تو اتنا عمدہ نہیں ہو سکتا جتنا ایک تجربہ کار مصنف لکھ کر دے گا تو ہو گا۔

اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ مصنف کا روز گار ہے۔ بہت سے ایسے لوگ یہ مقالے لکھ رہے ہیں جو لاکھوں کماتے ہیں۔ جن کا مطالعہ بہت وسیع ہے وہ تو چند ماہ میں کئی سالوں کا کام کر دیتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک ہی شعبہ میں سب گھر والوں کا ہونا اپنے ہی گھر میں مقالہ تکمیل پا جاتا ہے ایسے حسین شواہد بھی ہیں۔

مقالہ لکھنے والوں کی ایک مزید قسم ہے۔ وہ عظیم مصنف جس پہ مقالہ لکھا جا رہا ہوتا ہے وہ خود اور اکثر بنا کسی معاوضے کے اپنا مقالہ لکھ دیتا ہے۔ کبھی کبھی طالب علم بھی ہوشیار مل جائے تو کمال ہو جاتا ہے۔ جو اس عظیم ہستی کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان پہ جو کام ہو بہت ہی اعلی نوعیت کا ہو اور مصنف کی پہچان بن جائے کیونکہ مقالے کے بعد کام  نے کتابی صورت میں منظر عام پہ آنا ہے۔

اب یہ جرم کسی ایک شہر میں نہیں ہو رہا، نہ ایک ملک میں ہو رہا ہے۔ ہم نے جہاں سے بات کا آغاز کیا ہے وہ ہے سعودی عرب کی اخباری رپورٹ، تو یہ ہر جگہ ہو رہا ہے

ہائر ایجوکیشن کمیشن کا اس میں اپنا ایک با وقار رول ہے۔ جس کو یہی نہیں علم ہوتا کہ مقالے کے الفاظ مروڑ کر کیسے کاپی پیسٹ کیے جانے کی صورت گری کی گئی ہے۔ کیونکہ یہ مروڑ اور صورت گری بھی نظام کا حصہ ہے۔ اسی سال ایک یونیورسٹی نے ایک ایسا مقالہ پاس کروایا ہے جس پہ ابھی تک کا ایک بھرپور کام ایک محققہ بنا پی ایچ ڈی کا تمغہ سینے پہ سجائے کر چکی ہیں۔ مقالہ نگار نے ایسی ہوا اڑائی ہوئی ہے کہ مصنف اسے خود اپنی کتاب بھی بھیجے اور اسے یہ بھی بتائے کہ وہ لکھاری ہے یوں وہ کوئی انسائیکلو پیڈیا تیار کرے گا۔

اسے اس پاکستان میں کوئی کہنے پوچھنے والا نہیں ہے کہ یہ تحقیق و تنقید کے کام کرنے کا کون سا انداز ہے؟ نہ اسے کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ آپ کاپی پیسٹ کے علاوہ کیا کریں گے، کام تو ہو چکا ہے اور شائع بھی ہو چکا ہے۔

اگر کسی نے پوچھ ہی لیا تو وہ ہر موڑ تروڑ کر اردو بولنے والے کی طرح یہی کہتا پایا جائے گا کہ وہ کام غیر معیاری تھا۔

یہاں ایسے پورے نظام پہ ہنسنے کو جی چاہتا ہے۔ کاش کوئی یہ لوگ یہ کہہ سکیں کہ یہ قبر غیر معیاری ہے مجھے کسی معیاری جگہ دفنایا جائے۔

کچھ مصنفین نے تو سمجھ ہی لیا ہے کہ ان پہ کام ہو رہا ہے تو کوئی اعزاز ہے اور اعزاز جیسے بھی ملے، جہاں بھی ملے، چپ کر لے کے لینا چاہیے۔ اسی چکر میں بہت سے مصنفین کبھی یہ بتاتے ہی نہیں کہ ان پہ پچاس ساٹھ مقالے لکھے جا چکے ہیں کیونکہ خود وہ کسی اعلی عہدے پہ موجود ہوتے ہیں اور دوست احباب جامعات میں پروفیسری فرما رہے ہیں۔ اب اتنی یاری دوستی تو چلتی ہی ہے۔ ایسے ان پچاس ساٹھ میں مل ملا کر ایک اور مقالہ نکل آتا ہے۔

اور ہر دوسری یونیورسٹی کو ہر سال ایک شعبے میں بی ایس کے تھیسس ملا کر کوئی پچاس سے ستر مقالے کروانے ہوتے ہیں۔ جس کی نگران کو الگ ادائیگی ہوتی ہے۔

اس نظام میں استادوں نے بچوں کو استاد بنا دیا ہے۔ وہ بہت فنکاریوں سے مواد حاصل کرنے والی جگہوں پہ اور اشخاص سے، نہایت چاپلوسی سے ملتے ہیں، مواد اٹھاتے ہیں اور بھاگ نکلتے ہیں۔ ساری عمر جس نے اکٹھا کرنے کی محنت کی ہوتی ہے۔ وہ صرف حیران ہوتا اور اپنا ہی کام ان سے طلب کرتا رہ جاتا ہے۔

پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کا ایک اور بہت اچھا طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ تمام ممکنہ جامعات میں دیکھا پرکھا جاتا ہے کہ کس کا مقالہ پاس ہوا تھا اور اس نے کام بھی کر لیا ہوا ہے، کچھ باقی ہے تو ہو جائے گا۔ ایسا فرد اس فانی دنیا سے ڈگری لیے بنا ہی چلا گیا ہے تو اب صرف مقالہ نگار اور نگران کا نام ہی بدلنا باقی ہے۔

یہ سب پاکستان ایک شہر لاہور میں نہیں ہو رہا اور اگر کسی کے بقول لاہور میں ہو رہا ہے تو عرب رپورٹ کے مطابق باقی سارا ملک نالائق ہے۔ سٹی آف لٹریچر ہونا تو ثابت ہوا۔

لیکن ہم ایسا ہر گز نہیں کہیں گے کیونکہ ہمیں تو پورے ملک کی استادیوں کا علم ہے۔ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ ایک کسی پٹھانی نے یونیورسٹی نہیں جانا مگر اس کے شوہر نے اس کا داخلہ جمع کروا دیا ہوا ہے اور وہ ڈگری حاصل کر کے ایک ایسے سکول کی استانی بھی لگی ہوئی ہے جو کھلتا ہی نہیں۔ ہم سے تو حیدر آباد، مردان، سوات، پشاور، کوئٹہ، اوکاڑہ، شیخوپورہ، لکھنو، دہلی، علی گڑھ سے بھی طالب علم رابطہ کرتے ہیں۔

لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہر وقت فیس بک پہ اپنے گیت گا گا کر یہ بتا یا جائے کہ ہم نظام کے اندر نظام سے باہر رہتے ہوئے بارلم ہیں۔ اس نظام کے پردے عشروں سے ہم پہ چاک ہیں۔ ہم نے ایک لفظ نہیں لکھا۔ اس مناسب وقت کا انتظار کیا۔ جب کوئی نظام کے اندر سے نکل کر یہ بات کرے گا۔

آج قاسم یعقوب جو جدید تنقید کا ہمارے نزدیک ایک اہم نام ہیں جن کا تعلق شعبہ تعلیم ہے انہوں نے یہ کھڑکی کھولی ہے تو ہم نے معلومات کے در پہ لگا تالا کھولا ہے۔ کہ اب وقت آ گیا ہے اپنی نسلوں کو جعلی ڈگری کے بعد ایک نئی نوعیت کی جعل سازی سے بچایا جا سکے۔ اس پہ اب بات کرنے کا وقت آ گیا ہے کرپشن کا تعلق سیاست کے ایوانوں سے ہی نہیں ہے۔ ادب، سائنس، نفسیات، معاشیات کے میدانوں سے کھیلتے ہوئے یہ اوپر آئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments