خان عبد الولی خان: ایک دانشور سیاسی لیڈر


بعض لوگوں کے گھروں میں کتابیں رہتی ہیں جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ کتابوں کے گھروں میں رہتے ہیں اور اس مرحلے کو جون ایلیا نے کس احسن پیرائے سے شعر کا موضوع بنایا ہے وہ ان کی زندگی میں شائع ہونے والی شعری مجموعے شاید کے ابتدائی صفحات میں کچھ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے۔

میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمھیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

لیکن بعض شخصیات یا سیاسی لیڈران ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ پیدا ہونے کے بعد سیاست سیکھتے اور پھر کہیں جا کر سیاست کو خوش آمدید کہتے ہیں اور بعض خوش قسمت ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ پیدا ہی سیاست میں ہوتے ہیں اور سیاست ان کو خوش آمدید کہتی ہے وہ پیدائشی سیاستدان ہوتے ہیں اور یہ صورت حال یا سیاسی حقیقت حرف بہ حرف خان عبد الولی خان پر صادق آتی ہے۔

سیاست خان عبد الولی خان کو ورثے میں ملی، لیکن ان کا رویہ موروثی سیاستدانوں کا نہیں تھا بلکہ ان کا رویہ جمہوری، لبرل، سیکولر اور قوم پرستانہ تھا۔ ان کا رویہ کبھی بھی جاگیردارانہ، آمرانہ یا خوانین کا نہیں تھا بلکہ مشفقانہ، مدبرانہ، مدلل، ظریفانہ، قائدانہ، دانشورانہ اور عالمانہ تھا۔

خان عبد الولی خان کردار کے پکے، قول کے سچے اور دانشمندانہ طور و اطوار کے اعلی مدارج پر تھے۔ خان عبد الولی خان کے تمام سیاسی کیرئیر میں کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ انھوں نے کوئی گفت کی ہو اور اس میں وقت کا زیاں ہو بلکہ جو بھی کہا ہے وہ با محاورہ، با سلیقہ، ادب و آداب سے بھرپور، اقوال زریں سے ماخوذ، ضرب الامثال کا مرقع، شعر و افکار سے مزین، پشتو ٹپو پر مبنی اور ظرافت سے مالا مال ہوتا تھا۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ جس بھی محفل ہوتے تھے تو پھر وہ ہی محفل کی جان ہوتے تھے، وہ ہی بولتے تھے، انہی کو سنا جاتا تھا، وہ ہی مرکز نگاہ اور مرکز سماء ہوتے تھے۔ کیونکہ وہ اپنی ذات میں سیاسی تاریخ کا ایک مستند حوالہ تھے۔

وہ اگر سیاسی سٹیج پر بولتے تھے تو بھی اپنے خاص انداز سے وہ اگر کسی سیمینار میں بولتے تو بھی اپنے انداز کے تابع ہوتے تھے وہ اگر کسی مذاکرے میں مدعو ہوتے تھے تو بھی اپنے انداز کے سحر سے نہیں نکلتے تھے حتی کہ وہ اگر پارلیمنٹ میں بھی بولتے تھے تو بھی اپنے انداز کے اسیر ہوتے تھے یعنی ہم خان عبد الولی خان کے بارے میں ببانگ دہل کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک صاحب طرز یا صاحب اسلوب مقرر اور سیاسی راہنما تھے۔

ان کی دانشمندی اگر دیکھنی ہو تو حیدر آباد ٹریبونل یا حیدر آباد سازش کیسے میں ان کے دو سو انتالیس صفحات پر مشتمل دفاعی بیان کو عرق ریزی سے پڑھیں، کیس ٹرائل کے دوران ان کی دانشمندی اور ظرافت سے مالامال وہ چبھن بھرے جملوں کو سماعت آشنا کریں تو نہ صرف ان کی دانشمندی بلکہ تاریخ، سیاست، اخلاقیات، علمیت، فصاحت و بلاغت اور زور قلم و زور بیان پر ان کی گرفت خود منہ بولتا ثبوت کے طور پر اقرار کرے گا کہ ہاں ہم خان عبدالولی خان کی ذہن اور دہن کی تخلیقات ہیں۔

خان عبدالولی خان کی دانشمندی اگر دیکھنی ہو تو ان کی کتاب فیکٹ آر فیکٹ، حقائق حقائق ہیں یا رختیا رختیاں وی کے مطالعے سی گزر جائیں اس پوری کتاب میں خان صاحب اپنے قاری کو انگلی سے پکڑ پکڑ کر سیاسی تاریخی واقعات کے نظارے کراتے ہیں اور ایک رپورتاژ نگار یا پھر کسی ناول نگار یا پھر کسی سفر نامہ نگار کی طرح اپنے قاری کو اپنے گرفت میں لئے ہوئے ہوتے ہیں اور مجال ہے کہ قاری ایک لمحے کے لئے اپنی سوچ یا اپنی نظریں کتاب سے ادھر ادھر کرنے کی موڈ میں ہو جب تک کتاب کا آخری صفحہ یا اختتامی کلمہ یا نقطہ پڑھ نہ لیا ہو۔

خان صاحب کی اگر دانشمندی دیکھنی ہو تو ان کی خدائی خدمت گار تحریک پر لکھی ہوئی کئی جلدوں پر مشتمل ضخیم دستاویز کو اپنے مطالعے سے گزاریں تو ان کی شخصیت کئی گوشوں پر تقسیم ہو جاتی ہے۔ لیکن ان سب شخصیاتی گوشوں میں جو سب سے بڑا گوشہ ان کو نمایاں کرتا ہے وہ ان کی دانشوری ہے۔ گو کہ وہ لکھ رہے ہوں گے تاریخ لیکن اس تاریخ میں آپ کو سب کچھ مل رہا ہو گا، ادھر سیاست تو ہوگی ہی ہوگی لیکن ادھر ایک طرز نگارش بھی ملے گا، ادھر تخلیقی تنقید اور تنقیدی تخلیق بھی ملے گا ادھر داستانی طرز بیان بھی ملے گا اور ناول اور افسانے جیسا فکشن بھی ادھر ایک سفر نامے کے تاثرات بھی ملیں گے اور رپورتاژ جیسے مزاح اور اختصار پر مبنی رننگ کمنٹری بھی، ادھر اگر آپ کو انشائیہ جیسے بات سے بات نکالنے کا فن گریز کے ساتھ طنزو مزاح سے بھرا ہوا ملے گا تو مضمون جیسے موضوع سے منسلکہ اور مقالے سے جڑا ہوا سنجیدہ پیراگراف در پیراگراف بھی پائے جائیں گے۔

سیاسی دانشوری سیاسی شعور کو اجاگر کرتا ہے یا بالفاظ دیگر سیاسی شعور سیاسی دانشوری کی دین ہوتا ہے۔ اور اس کے پیچھے ایک سیاسی سوچ اپروچ، نظر اور نظریہ ہوتا ہے اور اس سیاسی سوچ اپروچ، نظر اور نظریہ کے پیچھے ایک مکمل سیاسی بصیرت کار فرما ہوتا ہے اور جب مکمل سیاسی بصیرت کی بات ہو رہی ہو تو پھر خان عبدالولی خان کی شخصیت صف اول کے مکمل سیاسی بصیرت رکھنے والی شخصیات کے صف اول میں نظر آتی ہے

اور یہ کوئی مبالغہ نہیں یہ کوئی لفاظی نہیں بلکہ کولڈ وار کا تمام ایرا اس حقیقت کا غماز ہے۔ جب اکثریت سیاستدان ایک طرف تھے اور اس کولڈ وار کو ملک کے لئے راہ نجات سمجھ رہے تھے تو یہی خان عبدالولی خان تھے جنھوں نے سب سے پہلے ملک کے مقتدر حلقوں کو خبردار کیا کہ یہ جنگ نہیں بلکہ یہ دو ہاتھیوں کے درمیان معرکہ ہے جس میں ہم چارے کی مانند روند دیے جائیں گے۔ اور اس وقت کے خود ساختہ جہاد کے نعرے کو فساد سے تشبیہ دی۔ ملک میں کلاشنکوف کلچر پھیلنے اور دہشت اور وحشت کے بیج بونے سے خبردار کیا جو آج لفظ بہ لفظ درست ثابت ہو رہا ہے۔

کہتے ہیں کہ دانشور نہ صرف اپنے حال سے باخبر ہوتے ہیں بلکہ وہ ماضی کے تجربات اور مشاہدات کے بل بوتے پر آنے والے وقت کی بھی بڑے اچھے طریقے سے سیاسی پیشن گوئی کر سکتے ہیں اور اس کی مثال خان عبدالولی خان سے بہتر کون ہو سکتے ہیں۔

جب ہم خطے کے بجائے ہزاروں میل دور ممالک کے ساتھ سیاسی، سفارتی، اور معاشی تعلقات دوسروں کے مفادات اور چند اپنوں کی ذاتی خواہشات کی خاطر استوار کر رہے تھے تو یہی خان عبدالولی خان تھے جو ان کو پکار پکار کر سمجھا رہے تھے کہ خطے میں پہلے اچھے تعلقات پڑوسیوں سے استوار کیے جاتے ہیں اور مثالیں دے دے کر سمجھاتے تھے کہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اگر کسی پر برا وقت آتا ہے تو سب سے پہلے پڑوسی ان کے پاس پہنچتے ہیں اور ان کی یہ بات شاید ہم کو آج سمجھ آئی ہے جو ہم اب اس وقت کے دشمنوں سے تعلقات استوار کرنے جا رہے ہیں یا پھر ہم اب بھی نہیں سمجھ پائے ہیں کہ اب بھی ہم مخمصے کے شکار ہیں لیکن خان عبدالولی خان کی سیاسی دانشوری یا سیاسی دانشمندی درست ثابت ہوئی اور مخالفین کی سیاسی ضد انا اور سیاسی جز وقتی عقلی فیصلے باطل ثابت ہوئے۔ اور آج ہم اس وقت کے نا اہل کتابوں کے ساتھ سیاسی، معاشی اور عسکری تعلقات پر نہ صرف نظر ثانی کر رہے ہیں بلکہ نظر کرم سے بھی آگے بڑھے ہیں۔

خان عبدالولی خان پہلے سیاسی راہنما تھے جب انھوں نے عوامی اجتماعات میں علی الاعلان کہا کہ یہ کون سا منطق ہے کہ جب شمال کی جانب جاتے ہیں تو ایک ازم ہمارا دشمن اور تمام دنیا کے لئے خطرہ ہے جب کہ وہی ازم دوسری جانب ہمارا دوست اور قریبی اچھا ہمسایہ ہے یہ اچھے اور برے کے ناپنے کا کون سا پیمانہ ہے بلکہ یہ پیمانہ نہیں بلکہ کسی کا دیا ہوا گز تھا جس پر وہ اپنے وفاداروں کو ناپتے اور پھر ہانکتے تھے۔ اور یہ خان عبدالولی خان کی سیاسی دانشمندی تھی کہ وہ نہ اس وقت ہانکے، نہ تانکے اور نہ جھانکے کہ ان کی آنکھیں خیرہ ہوتی بلکہ وہ اپنی سیاسی دانشوری کے طفیل اور اپنے سیاسی تدبر کی بدولت آج کی سیاست کے لئے چمکتا ستارہ اور سمجھ بوجھ کا استعارہ بن کر ابھرے اور آج ان کو ہر حوالے سے درست سمجھتے ہیں لیکن گیا ہوا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی اچھائی یا بھلائی کے لئے یو نیور بھی لیٹ اچھا کام یا اچھا قدم کسی بھی وقت اٹھ سکتا ہے اور یہی اس کا درست وقت ہوتا ہے۔

جب فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑ رہی تھی تو خان عبدالولی خان نے سیاسی دانشوری سیاسی دانشمندی اور خود کو ایک جمہوری اقدار کا سیاست دان گردانتے ہوئے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا گو کہ بہت بڑے بڑے جغادری سیاست دان اس سیاسی امتحان میں ڈکٹیٹر شپ کے سامنے سرنگوں ہوئے اور مزید یہ کہ خان عبدالولی خان کو کئی حوالوں سے موم کرنے کی تپش بھی دی گئی لیکن یہ تپش بجائے خان عبدالولی خان کو موم کرنے کے اس سے زیادہ کندن بنا دیا۔

جب خان عبدالولی خان اپوزیشن لیڈر تھے تو بحیثیت اپوزیشن لیڈر کے انھوں نے نئے سوشل کانٹریکٹ کی بحرانی کیفیت میں حکومت کے راستے میں روڑے نہیں اٹکائے بلکہ اپنے سیاسی تدبر، سیاسی دانشمندی اور سیاسی دانشوری سے نہ صرف ملک اور حکومت کو اس بحرانی کیفیت سے نکالا بلکہ آئین کے بنانے اور اس کے نوک پلک سنوارنے میں بھی حتی المقدور کوشش کی۔

خان عبدالولی خان کو پشتو زبان کے محاورے، ضرب الامثال، اصطلاحات، ٹپے اور اشعار ازبر تھے اور سیاسی تقریروں اور جلسوں میں اس کا استعمال موقع محل کے مناسبت سے بڑے نپے تلے انداز میں کیا کرتے تھے۔

جیسے وہ کسی بھی عوامی جلسے میں اپنی تقریر ختم کرتے تو اس ٹپے سے ختم کیا کرتے تھے
څانګہ بہ نن سبا کښی ګل شی
ما یی پہ سر کښی سری غوټی لیدلی دینھ

ڈاکٹر سلمہ شاہین نے پشتو ٹپوں کی ایک ضخیم کتاب مرتب کی ہے جس پر ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی ملی ہے جس کا نام ہے روہی سندری وہ کہتی ہیں کہ اس میں آٹھ سو تک ٹپے خان صاحب نے عنایت فرمائی ہے جس سے آپ پشتو فوک لور پر ان کی دسترس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

خان صاحب کہا کرتے تھے کہ اپنا حق مانگیں گے خوا وہ جدوجہد سے ہو، وہ دلیل سے ہو یا پھر قانون سے ہو لیکن اگر کوئی دینا ہی نہیں چاہتا تو ان کا ہاتھ مروڑیں گے اور اس کے ساتھ جو وہ ہاتھ مروڑنے کا اشارہ کرتے تھے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

اس طرح حس لطیف یا ظرافت بھی دانشوروں کا خاصہ ہوتا ہے اور خان صاحب اس خاصے سے بھی مالا مال تھے۔

یہ انیس سو اٹھاسی نواسی کی بات ہے اور میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جب ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد ملک میں پارٹیز کی بنیاد پر انتخابات ہو رہے تھے اور اجمل خٹک قومی اسمبلی جبکہ جان محمد خٹک صوبائی اسمبلی کے لئے نبرد آزما تھے تو علاقہ نظام پور کے بسنے والوں کے لئے خان صاحب جہانگیرہ کے مقام پر جلسہ کر رہے تھے اور ان کے مقابل ایک مولانا صاحب الیکشن لڑ رہے تھے تو تقریر کے دوران دیگر اور لطیف باتوں کے علاوہ جب خان صاحب ملا کے اوپر آ گئے تو جلسے کے جم غفیر سے کہنے لگے کہ آپ تو جانتے ہیں کہ ان ملاؤں کو آپ ٹوکریوں میں وظیفے یعنی خیرات کی روٹیاں ڈالتے رہیں ہیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کو ان ٹوکریوں میں یہ لینڈ کروزر کون ڈالتے ہیں۔ کبھی کبھار اس طرح بھی بول پڑتے تھے کہ اے میرے قوم کے باسیوں یہ تمھاری زمیں بہت وسیع اور عریض ہے لیکن جس طرح تم اس میں خود کو بڑھانے پر تلے ہوئے ہو تو یہ بھی ایک دن کم پڑ جائے گی یعنی خان صاحب خاندانی منصوبہ بندی کے بھی پرچارک تھے۔

خان صاحب ایک ہمہ جہت سیاسی راہنما تھے اور ان کی ہر جہت پر گھنٹوں گھنٹوں بات ہو سکتی ہے لیکن میں نے آج ان کی سیاسی دانشوری کے جہت کو چن لیا تھا جو آپ کے سامنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں پیش کیا امید ہے کہ میں اس سعی میں آپ کی امنگوں پر پورا اترا ہوا ہوں گا اور اگر میں نے آپ کی توجہ حاصل نہیں کی اور میری باتیں آپ کے اذہان پر بوجھ بن کر گزریں ہیں تو میں اس کے لئے آپ سے معذرت خواہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments