بے حیا لڑکی


میں پہلی بار اس چھوٹے سے دیہات سے کراچی آیا تھا جسے اب تو شہری لوگ بھی گوٹھ کہتے ہیں۔ وہ گوٹھ جہاں پچیس تیس سال کی عورت کو بوڑھی کہا جاتا ہے اور دس بارہ سال کی بچی کو عورت۔ اور شادی کے اگلے دن سے ہی پندرہ سولہ سالہ جوان بیوی کو بوڑھی کہنے کا روایتی حق اس کے شوہر کو حاصل ہو جاتا ہے۔ جہاں لباس کی تراش خراش کے حوالے سے معمولی سے معمولی جدت کو بھی فیشن کہہ کر سخت ناپسند کیا جاتا ہے۔ گو کہ شادی بیاہ میں لڑکیاں اور عورتیں گالوں پر غازہ ملے اور لبوں پر لپ اسٹک پھیلائے نظر آتی ہیں مگر گھر آتے آتے محرم و غیر محرم رشتوں کے خوف سے ان رنگوں کو دوپٹوں اور چادروں کے پلووں سے اچھی طرح صاف کر لیا کرتی ہیں۔

پہلے پہل ان گوٹھوں کے شرفا نے ٹی وی کو شیطانی ڈبہ کہ کر اس کی خوب مخالفت کی تھی۔ مگر اب ٹی وی گھر گھر میں بستا ہے۔ پہلے صرف ڈرامے تھے، پھر فلمیں دیکھنے کا بھی رواج ہوا۔ شروع میں فلمیں دیکھنا صرف مردوں کی تفریح تھی مگر کب تک۔ بچاتے چھپاتے بھی گھر گھر سینما آن پہنچا۔ فلموں میں کام کرنے والی خواتین کے میک اپ سے لپے پتے چہرے اور عشوے و غمزے دیکھ کر انہیں یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ایسی مخلوق حقیقت میں بھی زمین پر بستی ہے۔

یہ سب اداکارائیں ”فلموں والی لڑکیاں“ کے نام سے معروف تھیں۔ گو کہ ان ”فلموں والی لڑکیوں“ کے کردار کے حوالے سے تقریباً سبھی کو تحفظات تھے مگر عمر کی تفریق کے بغیر تمام مرد ان فلمی ہیروئنوں کے ناچ اور ناز نخروں کے عاشق تھے۔ تصور میں انہی سے عاشقی کرتے تھے اور اندھیرے میں انہی کے ساتھ مباشرت کرتے تھے۔ یہ اور بات کہ حقیقی زندگی میں دو جوان جسموں کا محبت کے نام پر ملن حرام اور پسند کی شادی گناہ تھی۔ بلکہ عشق و عاشقی کا معاملہ غیرت کے نام پر قتل سے کم، ذرا کم ہی ٹلتا تھا۔

غیرت کے مروجہ تصورات کی وجہ سے خاندان کی کسی بھی عورت کی شکل کسی بھی روپ میں گوارا نہ لگتی تھی یہاں تک کہ ماں کی شکل دیکھ کر بھی جلال آ جاتا تھا۔ ماں، بہن، بیٹی، بھابھی، کزن، بھانجی، بھتیجی سے لے کر خالہ، پھپھی، تائی وغیرہ کا دوپٹہ مطلوبہ مقامات سے سرکا ہوا نظر آتا تو قتل جائز لگنے لگتا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والا قاتل روایات کا پالن ہار بھی کہلاتا تو گاؤں بھر کا خصوصاً نوجوانوں کا ہیرو بھی بنتا۔

تو ایسے گاؤں سے روزگار کی تلاش میں شہر آئے ہٹے کٹے صحت مند لڑکے کو آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پر سرخی لگائے جو پہلی شہری لڑکی مسکرا کر اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہے، وہ وہیں گھائل ہو جاتا ہے۔ کچھ مہینوں بلکہ سالوں تک اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ بھلا وہ اس التفات کو کیا سمجھے اور اس لڑکی سے سلوک کیا کرنا ہے؟ اور یہ کہ کیا اس کے ساتھ کوئی سین ہو رہا ہے یا ہونے جا رہا ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، وغیرہ وغیرہ۔

یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ بے روزگاری کے بس کچھ ہی دن تھے کیو نکہ میں شہر آیا ہی ایک دوست کے یقین دلانے پر تھا کہ مجھے ایک اخبار میں نوکری مل جائے گی جہاں وہ خود کام کرتا تھا۔ اور اسی آسرے، میں اس چھوٹے سے مردانہ ہاسٹل کے ایک کمرے میں تین عدد لڑکوں کے ساتھ رہائش پذیر ہوا جو دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے آئے تھے اور معاشی تنگدستی کی بنا پر کسی بہتر جگہ رہنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا۔ سارا دن کی محنت و مشقت کے بعد جب سب تھکے ہارے ہاسٹل پہنچتے تو شہر کے دھوئیں، مالکوں کے جابرانہ رویے، ملازمت کی خواری اور حالات کی بے رخی کے تذکرے کے بعد ، جلد ہی اپنا محبوب موضوع یعنی لڑکیوں کے قصے چھیڑ دیتے۔ کچھ جھوٹے کچھ سچے رومان، کچھ دل لگی، کچھ رنج و فراق کی باتیں ہوتیں۔ شہری لڑکیوں کی بے وفائیوں پر رونے والے بھی ہوتے تھے تو ان کے ساتھ وقت گزار کر دوسری لڑکیوں سے مراسم بڑھا کر پچھلی محبوباؤں پر ہنسنے والے بھی۔ مجھے یہ جگہ ہاسٹل سے زیادہ سیکس ایجوکیشن کا مرکز لگی۔

اخبار کے دفتر میں کام شروع کرتے ہی میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ آفس کے سارے لڑکے ایک ساتھ کئی کئی لڑکیوں پہ ڈورے ڈالتے تھے۔ بار بار ان کو میسجز کرتے۔ چھوٹے موٹے تحفے تحائف بھی دیتے۔ ان کی کمزوریوں اور گھریلو حالات سے بھی واقف رہتے تاکہ ان کے کسی کمزور لمحے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ دوستوں سے بھی مشورے لیتے رہتے کہ کون سے جملوں، فقروں اور شعروں سے لڑکیاں قابو میں آ جاتی ہیں۔ کس تدبیر سے ان کو آسانی سے اتنا بے وقوف بنایا جا سکتا ہے جس سے کم از کم ایک بار تو ان کے کپڑے اتروائے جا سکیں۔

اور ان تیر بہ ہدف نسخوں سے کئی فیضیاب بھی ہوئے۔ بقایا کی اکثریت صرف اس فخر پر زندہ تھی کہ فلاں لڑکی ہمارے عشق میں پاگل ہے، فلاں بچی ہماری ہے یا یہ کہ فلاں میرے بغیر نہیں رہ سکتی، وغیرہ وغیرہ۔ مگر ایک بات سب کے ذہنوں پہ نقش تھی اور وہ یہ کہ بے شک کسی بھی لڑکی سے کتنی ہی دوستی کر لی جائے، کتنا ہی دوستانہ گانٹھ لیا جائے، وہ مسکرا مسکرا کر دیکھے، تحفے دے یا لے، ذومعنی اشاروں کے جواب اپنی حوصلہ افزا مسکراہٹ سے دے مگر سمجھداری اسی میں ہے کہ اس لڑکی سے شادی نہ کی جائے۔ یہ کھلے منہ دفتروں میں ہر طرح کے مردوں کے ساتھ کام کرنے والی، تیز طرار لڑکیاں شادی کے لئے نہیں صرف وقت گزاری کے لئے ہوتی ہیں۔ شادی خاندان میں ہی کرنی چاہیے۔

جس اخبار میں، میں کام کرتا تھا، اس اخبار کا آفس ایک مصروف بلڈنگ کی تیسری منزل پہ تھا اور زبیدہ اس اخبار کے برابر والے بیمہ پالیسی کے دفتر میں کام کرتی تھی۔ اس بلڈنگ یا اس کے آس پاس کام کرنے والی دوسری لڑکیوں کی طرح اس کا کوئی ایک مخصوص حلیہ نہیں تھا۔ کبھی عبایہ پہن کر ، کبھی چادر اوڑھ کر تو کبھی دوپٹہ لپیٹ کر آتی۔ کبھی آدھا منہ چھپا ہوتا، کبھی سر بھی ڈھکا ہوا نہ ہوتا۔ عمر کوئی چوبیس پچیس سال ہو گی۔ عام سی شکل صورت کی تھی اور بننے سنورنے سے بھی غافل۔

سادہ مزاج سی لگتی تھی۔ ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کرتی اور ہر ایک سے مسکرا کر بات کرتی۔ اسی لئے کوئی اسے سیریس نہ لیتا تھا۔ مگر اس کے متعلق مزے مزے کی باتیں کرنے والا کوئی نہ تھا۔ کبھی کوئی اسے چری کہہ کر اس کے متعلق بات کرتا، تو کوئی فقیر یا کملی کہہ کر ۔ مطلب سب کا ایک ہی تھا۔ میں نے جب اسے پہلی بار دیکھا تو مجھے دیکھ کر فوراً بولی تھی۔ نئے آئے ہو نہ؟ میری ہاں پہ بولی تب تو تمہیں اکیلے رہنے میں بہت تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ مگر کوئی بات نہیں۔ میں تمہیں گھر کا کھانا لا دیا کروں گی کچھ دن، جب تک تم خود کچھ پکانا سیکھ جاؤ۔ پریشان مت ہونا۔ خود کو اکیلا مت سمجھنا۔ جو تکلیف ہو مجھے بتا دینا، میں تمہاری مدد کر دوں گی۔

ہیں!

میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ایسی اپنائیت کون دکھاتا ہے اور وہ بھی عورت ہو کر ، ایک جوان مرد کو ؟ کچھ سمجھ ہی نہیں آیا میری تو ، پھر وہی الجھن۔ کیا سمجھوں، کیا نہ سمجھوں؟ دوچار دن کے بعد ہی اسٹاف نے باور کروا دیا کہ بھئی ان محترمہ کی ایسی عاشقی تو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ یہ عاشقانہ رویہ نیا ہے۔

واقعی؟ کیا کوئی میرے عشق میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے۔ مگر کیوں۔ ایسا کیا ہے مجھ میں؟ ابھی تو کسی سے نظر ملاتے ہوئے یا بات کرتے ہوئے بھی جھجکتا ہوں۔ یاروں نے بتایا کہ میری یہی ادا کسی کو فدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور اسی ادا کو آج کل سادگی اور معصومیت کہا جاتا ہے۔ پہلے تو مجھے یقین نہیں آیا، مگر یقین کرنے کے لیے کچھ کرنے کا دل چاہنے لگا۔ زبیدہ بھی اپنی حرکتوں سے برابر حوصلہ دلا رہی تھی۔ آخرکار ایک دن راہداری میں چلتے پھرتے ہی ہم دونوں نے کہیں باہر بیٹھ کر گپ شپ کا پروگرام بنا لیا۔

یہ پارک نیا نیا بنا تھا مگر بنتے اور کھلتے ہی بدنام ہو گیا تھا۔ بدنام یوں کہ دوسرے پارکوں میں بھی نشئی سوتے اور اینٹھتے نظر آتے تھے مگر نشئیوں کے کونے مخصوص تھے۔ شام کو کچھ لوگ بیوی بچوں کے ساتھ آ کر بیٹھ جاتے تھے۔ اور جب کچھ سموسے اور کولڈ ڈرنک بیچنے والے آ جاتے تھے تو فیملی کا سا ماحول بن جاتا تھا۔ مگر نجانے کیا وجہ تھی کہ یہ پارک بنتے ہی نوجوانوں خاص طور پر اسکولوں اور کالجوں سے بھاگے ہوئے جوڑوں کی آماجگاہ بن گیا۔

اسکولوں کے ہاف ٹائم سے، موٹرسائیکلوں، پیدل اور رکشہ ٹیکسیوں میں جو جوڑوں کی آمد شروع ہوتی تو پھر پارک کے بند ہوتے سمے تک جاری رہتی۔ ویسے تو نوجوان جوڑوں کو دیکھ کر نکاح نامہ مانگنے کا رجحان ابھی تازہ ہی تھا یہاں تک کہ بہن بھائیوں سے بھی یہ کاغذ طلب کرتے پولیس والوں کو کوئی عار محسوس نہ ہوتا تھا۔ میں چونکہ خود رپورٹر تھا اور ایک لوکل اخبار کے لیے کام کر رہا تھا۔ اس لیے دماغ بہرحال ان سارے ناٹکوں کی منڈلیوں میں بھٹکتا رہتا تھا۔

ہمیں بیٹھے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ پولیس والے نے ٹیڑھی نظروں سے ہمیں دیکھتے ہوئے دوسری بار چکر لگایا۔ میں سمجھ گیا کہ اس نے اپنے دماغ میں ہمارے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی پوری منصوبہ بندی کر لی ہے۔ پہلے تو خیال آیا کہ کسی بہانے اسے بلا کر اپنے اخبار کا رپورٹر والا کارڈ دکھا دوں۔ ویسے بھی اس اخبار کا ٹہکا اچھا خاصا تھا۔ پھر سوچا پولیس صرف پیسے کی یار ہے۔ اگر میں نے دوسرے طریقے اپنائے تو پھر پولیس والا بھی دوسرا طریقہ ہی ڈھونڈے گا۔ اور پولیس کے پاس ایک چھوڑ دس طریقے ہوتے ہیں اپنا الو سیدھا کرنے کے، اس لیے بہتر ہے کہ اس کی منشاء کے مطابق کام کروں تاکہ پولیس والا کوئی ایسا حربہ نہ استعمال کر سکے جس کا توڑ میرے پاس نہ ہو۔

زبیدہ کو وہیں بیٹھی رہنے کا کہہ کر ۔ میں نے گردن موڑے آگے بڑھتے ہوئے پولیس والے کو مسکراتے ہوئے ”ہیلو بھائی“ کہا۔ پولیس والا بدستور قدم اٹھاتا، آگے کو بڑھتا رہا۔

”سنو۔“ میں نے رازدارانہ انداز میں ذرا جھک کر مؤدبانہ طریقے سے کہا۔
”جی جناب، کوئی کام ہے آپ کو مجھ سے۔“ پولیس والے کے تیوروں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔
”یہ چائے پی لیجیے گا میری طرف سے۔ “ میں نے 200 روپے اس کی مٹھی میں دباتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ مگر ٹائم تو کھانے کا ہو رہا ہے۔“ پولیس والا مجھے دیکھے بغیر بولا۔
”چلیں اگلی بار کھانا کھلائیں گے ان شا اللہ۔“ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ کہا۔

پولیس والا شریف نکلا۔ نہ نوٹ دیکھے، نہ گنے نہ مطالبہ دہرایا، نہ کمی بیشی کی بات کی۔ سچی بات تو یہ ہے کھانے کا وقت سبھی کا مشکل سے ہی گزرتا ہے۔ چھوٹی نوکری کرنے والے پانی اور چائے پر ہی کھانے کا وقت نکالتے ہیں۔ میں نے دل میں سوچا۔

پولیس والا پھر ہماری طرف نہ آیا۔ نہ آج اس کے دوبارہ یہاں سے گزرنے کا امکان تھا۔ گویا آج کی اجازت تو مل ہی گئی تھی۔ سائے ذرا گہرے اور لمبے ہونا شروع ہوئے تو میں نے پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، جھجکتے ہوئے آہستگی سے زبیدہ کی کمر کے گرد اپنا بازو حائل کیا۔ لحظہ بھر کو تو وہ لرز کے رہ گئی، مگر اس نے میرے ہاتھ کو جھٹکا نہیں بس چہرہ دوسری جانب کر کے سر جھکا لیا۔ یہ کامیابی بڑی تھی۔ میرے اندر ”وہ مارا“ جیسی جنونی کیفیت پیدا ہوئی۔ تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔

دوستوں نے کہا تھا، پہلی دو ملاقاتیں احتیاط کرنے، لڑکی کے مزاج کو سمجھنے، اور اس کی بشری نہیں بلکہ زنانی کمزوریاں تلاشنے کی اور خود کو شریف بلکہ عظیم انسان ثابت کروانے کی ہوتی ہے۔ جبکہ تیسری ملاقات پیش قدمی کی ہوتی ہے۔ اگر پہلی ملاقات کے بعد لڑکی اترا اترا کر چلے۔ صبح شام میسجز بھیجے۔ رومانٹک گانے پوسٹ اور شیئر کرے تو جانو دوسری ملاقات میں اس کے جسم سے اپنا جسم چمٹا کر بوس و کنار کا موقع مل گیا۔ اور اس مقام پر کامیابی مل گئی تو پھر تو سمجھو جنت مل گئی دنیا میں ہی۔ مگر یہاں دو کے بجائے ڈیڑھ کا پہاڑا کام آیا۔

ہماری اگلی ملاقات سینما میں تھی اور وہی ملاقات طویل ہوتے ہوتے جب ہم ہوٹل کے ایک چھوٹے اور خاصے بدبودار کمرے میں گھسے تو ۔ معلوم تو تھا کہ ہوٹل کس مقصد کے لئے جا رہے ہیں مگر میرا خیال تھا کہ وہ مجھے مکمل کھل کھیلنے سے روکے گی۔ کئی بار ہوٹل کا کرایہ ضائع کرنا پڑے گا تب جا کر کہیں من کی مراد پوری ہو گی۔ مگر اس نے تو مروتاً بھی شرم نہ دکھائی۔ ایسی کھلی، ایسی کھلی کہ بس۔ جوان لڑکی اور اس طرح کسی اجنبی پر اعتبار۔ خدا کی پناہ! نہ مجھے ٹھیک سے جانتی تھی نہ میرے خاندان کو ۔ ساتھ سو گئی بے فکری سے بغیر نکاح کے۔ اور وہ بھی ایک ہوٹل میں۔ میں نے سوچا تھا ٹرائی کروں گا۔ مگر یہ یوں تیار بیٹھی تھی گویا اس بار کچھ نہیں ہوا تو اگلا موقع نہیں ملے گا۔

تف ہے یار۔ مجھے اس سے کراہت سی محسوس ہوئی۔

میرے دماغ میں لڑکپن سے سنے اور سمجھے سبق خوب یاد تھے۔ وہ لڑکی جو شادی سے پہلے کپڑے اتار دے۔ سب کچھ کروا لے۔ بے شک ہزار منتوں اور ترلوں کے بعد ، وہ بھی بھلا کوئی شادی کرنے لائق عورت ہوتی ہے۔ ایک بار لڑکی تم سے سیکس کر لے تو پھر تو بس سمجھو کہ وہ ایک ٹشو پیپر سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ استعمال کیا۔ پھینکا ڈسٹ بن میں۔ کہانی ختم۔ اس لڑکی کی صورت ہی اگلے دن بدل جاتی ہے۔ ستی ساوتری سی ایک دم گشتی بن جاتی ہے۔ محبوبہ کہاں رہتی ہے وہ پھر، بس ایک فاحشہ یا رنڈی رہ جاتی ہے۔ اور مرد کے لئے اپنی مردانگی کا قصہ سنانے والا ایک واقعہ کہ کیسے اس نے اس لڑکی کا کردار جانچ لیا۔ بالکل ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ تجربہ بولتا ہے بھئی۔ میرے دل نے محلے پڑوس سے سیکھے اسباق پر بڑے جذبے سے مہر تصدیق ثبت کی۔

زبیدہ سے میری اگلی ملاقات اور زیادہ نرالی تھی بلکہ حیرت انگیز۔
کیا ہے یہ؟ ”زبیدہ نے مجھے ایک اچھا خاصا وزنی شولڈر بیگ تھمایا تو میں نے اس سے پوچھا تھا۔

”یہ میرے امی ابا کی کمائی ہے عمر بھر کی۔“ اپنے مخصوص لہجے میں اس نے بات شروع کی اور بغیر کسی وقفے کے بولتی چلی گئی۔ ”ابا نے سعودیہ میں خوب کمایا۔ کفیل بہت اچھا ملا تھا ان کو ۔ جب ابا واپس آ رہے تھے تو اس نے ابا کی محنت کے بدلے ان کو بہت سے انعامات کے ساتھ سونا دیا۔ ابا اور امی نے زیور بنوا لیے تھے اس سونے سے میرے لیے۔ دراصل میری امی، میرے تینوں بھائیوں سے بہت ڈرتی تھیں کہ اگر ان کو کچھ ہو گیا تو وہ مجھے ہماری آبائی جائیداد میں سے کچھ بھی نہیں دیں گے۔

سو سارا زیور چھپا کے رکھا تھا امی نے ان سے بھی اور ان کی بیویوں سے بھی۔ بنک کے لاکر میں رکھے تھے امی نے یہ زیور۔ اور اس اکاؤنٹ کا صرف مجھے پتہ تھا۔ لگتا ہے کہ کوئی روحانی علم تھا ان کو کہ وہ اور ابا زیادہ دن نہیں جی پائیں گے۔ اپنی موت کا ذکر بار بار کرتی تھیں اور دیکھو اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ دونوں کار کریش میں مارے گئے۔ کمبخت ٹرک ڈرائیور نے نشہ کیا ہوا تھا۔ بعد میں پکڑا بھی گیا مگر کیا فائدہ؟ میری تو دنیا ہی اجڑ گئی ان کے مرنے سے۔

اور یقین مانو ابا امی کے مرنے کے صرف دو مہینوں میں مجھے پتہ چل گیا کہ امی کیوں میرے سگے بھائیوں کے خلاف مجھ سے باتیں کرتی تھیں۔ اللہ ایسے ایسے رنگ دیکھے میں نے۔ یقین مانو اگر میں نوکری نہ کرتی نہ اور اپنے بھائی بھابھیوں کے خرچے پر رہتی نہ تو یا تو وہ یا تو مجھے زہر دے کے مار دیتے یا پھر کسی پاگل قرار دے کے کسی پاگل خانے میں ڈلوا دیتے۔ امی کہتی تھیں زمانے کی آنکھوں میں حیا نہیں رہی۔ میں نے تو خود بھگتا کہ کیسے باپ کی جائیداد ہتھیانے کو بھائی اپنی سگی بہن کے دشمن ہو جاتے ہیں۔

شکر ہے یہ سارا زیور امی نے لاکر میں رکھوا دیا تھا میرے لئے۔ مجھے کہتی تھیں کوئی شریف لڑکا دیکھ کے نکاح کر لینا اور ان زیوروں کو احتیاط سے استعمال کرنا یہ ہماری عمر بھر کی کمائی ہے۔ آج تمہارے لیے لے آئی ہوں یہ سارے زیور لاکر سے نکال کر ۔ گھر میں کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے ان کے بارے میں۔ اب تم ہی ہو میرا سب کچھ۔ گھر ہے نہیں تمہارا یہاں تو شادی کر کے مجھے رکھو گے کہاں پر ؟ گھر ہو گا تو ہم شادی کریں گے نہ!

میری گود میں زیوروں سے بھرا تھیلا رکھ کے، نان سٹاپ بولتی گئی۔

”دیکھو اس تنخواہ پر تو ہم دونوں ساری عمر کرایہ ہی بھرتے رہیں گے۔ کبھی اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے۔ ان زیوروں سے گھر خرید لیں گے تو کتنی بچت کر لیا کریں گے دونوں۔ زیور پھر بن جائیں گے اللہ نے چاہا تو ۔ اور میں کون سا زیور پہن کے آفسوں میں کام کروں گی۔ کبھی دیکھا ہے کوئی زیور پہنے ہوئے مجھے۔ اور گھروں کی قیمت تو تم دیکھ ہی رہے ہو نہ، روز کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ ان زیوروں سے کوئی اچھا سا فلیٹ جو بن چکا ہو خرید لو۔ مگر اپنی آفس کی بلڈنگ کے قریب ہی خریدنا تاکہ آنے جانے میں آسانی رہے۔

معصومیت کہوں، بھولپن، حماقت یا جہالت؟ میری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور دماغ ماؤف۔ کوئی ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے بھلا؟ کیسی جاہل لڑکی ہے یہ۔ کیا نام دوں اس کو ؟ کیسے اپنے ماں باپ کی عمر بھر کی کمائی اور ان کا بھروسا ایک اجنبی پر لٹا دیا۔ یہ تو گھر میں جھاڑو پھیر دے گی۔ اور یہ بے وقوف عورت کس طرح گھر بسائے گی؟ کون شادی کرتا ہے ایسیوں کے ساتھ جو بغیر نکاح کے ہوٹلوں میں اپنے یاروں کے ساتھ سو جائیں۔ اور کوئی ایک بار۔ جیسے برتنا چاہا۔ ویسے برتنے دیا۔ اب تو مجھے ابکائی آتی ہے اس کو دیکھ کر ۔ کیسے میرے تلوے چاٹنے لگ گئی ہے۔ یار کتے بلی اور عورت میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے۔

اس دن میں دفتر سے چھٹی لے کر سیدھا صرافہ بازار گیا تھا۔
سونار نے غور سے میرے چہرے کو دیکھ کر پوچھا۔ ”چوری کا مال تو نہیں ہے؟“
”چوری کا ؟“ ۔ میں نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے مصنوعی غصے سے کہا۔
” تو پھر سودا کریں؟“ سونار نے سونے کو لالچی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں“ کہتے کہتے دل نے دھڑکنے میں ایک وقفہ زیادہ لیا۔

اچانک ہی دل میں ایک چور سا خیال بیدار ہوا۔ منٹوں میں سونار نے ایک کروڑ کے لگ بھگ کہہ دیا۔ کیا حرج ہے کہ کسی دوسرے سنار کو بھی دکھا دیا جائے۔

” ابھی نہیں۔ گھر والوں سے پوچھ لوں۔“ میں نے عقلمند دکھائی دینے کی کوشش کی۔

”تو کیا ابھی تک نہیں پوچھا تھا؟ خیر، ٹھیک ہے، بیچنا ہو تو کل پھر لے آنا۔ پر یاد رکھنا سونے کا بھاؤ آج والا نہیں ملے گا، روز کے حساب سے گر رہا ہے۔“

میں کاندھے پر بیگ ڈالے دوسری صرافہ مارکیٹ میں پہنچ گیا۔
کچھ دیر تو سونار پوٹلیاں کھول کر چھان پھٹک کرتا رہا پھر بولا،

”تو کیا ہیروں والے سیٹ بھی بیچیں گے؟“ سونار کے اس سوال نے گویا میرے دماغ کی گل بتی کا بٹن ایک دم آن کر دیا۔

”دو کروڑ کے لگ بھگ ہو سکتا ہے۔ مگر ڈائمنڈ چیک کروانے پڑیں گے پہلے۔“ سونار پھر بولا۔

دو کروڑ۔ اب کے دماغ میں ایسا جھٹکا لگا گویا ہزار والٹ کا بلب کسی نے اچانک میری آنکھوں کے سامنے جلا دیا ہو۔

ایک کروڑ سے دو کروڑ کا سفر، صرف چار گلیوں کے فاصلے پر !

حیرت کی انتہا نے دہشت بن کر وجود میں سرایت کی تو میں نے چار خانے رومال کو پھر سے مضبوطی سے گرہیں لگانے کی کوشش کی۔

سونار نے جو مجھے مال سمیٹتے دیکھا تو بولا۔ ”شاید 8دس ہزار بلکہ 20ہزار تک بھی اوپر سے مل سکتے ہیں۔“

سیکڑوں بلب جو دماغ میں جل بجھ رہے تھے ان میں ایک کوندا اور لپکا۔ 20ہزار۔ 20ہزار اوپر۔ دو کروڑ کے اوپر 20ہزار؟

”جی۔ جی۔“ میں ہکلایا تھا اور میرے روم روم سے پسینہ بہہ نکلا تھا۔

”سوچ لو۔ بیچنا ہو تو یہیں آنا۔“ سونار نے سودا ہاتھ سے جاتا دیکھ کر جال پھینکا۔ میں تو اس خاصی وزنی گٹھڑی کو اپنے کندھے پر ڈالے بیگ میں یہ سوچتا آیا تھا کہ اگر سونار نے پوچھ لیا کہ۔ میاں کہاں سے آیا ہے اتنا زیور تو کیا جواب دوں گا۔

مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا تھا۔ سب ایک جیسے ہی تھے۔ حریص۔ لالچی۔ بے ایمان۔ کھرا سودا کھوٹا اور کھوٹا کھرا کرنے کے چکر میں۔

میرا ذہن ابھی تو ہزار ہزار کے نوٹوں کو جمع کر کے لاکھ روپے بنانے کے خواب اور سپنے کو بھی حقیقت ہوتے نہیں دیکھ سکا تھا۔ ایک کروڑ نہیں بلکہ دو کروڑ اور اس کے اوپر بیس ہزار۔ دماغ ہی چکرا گیا تھا میرا تو ۔ میرے تو خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ایک رات میں بغیر کچھ کیے۔ بغیر کہیں آئے جائے۔ کروڑ پتی۔ یعنی کروڑ پتی بنا جا سکتا ہے۔

بیس ہزار کی نوکری تھی میری اور اس میں بھی دس سے پندرہ تاریخ کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ پہلی کو کبھی تنخواہ نہیں ملی۔ لوگ کہتے تھے کہ اخبار کی سرکولیشن لاکھوں میں ہے اور پیسہ بھی مالکوں کی تجوریوں میں خوب جاتا ہے مگر پھر یہ مہینے کے مہینے ملازموں کی تنخواہیں دینے میں اتنی دیر کیوں ہوتی ہے، کبھی سمجھ میں نہیں آیا۔ پورا مہینہ ذلت اور خواری سے گزرتا۔ دوپہر کو چائے کے کپ سے بھوک مارنی پڑتی تو رات کو دو نان پانی سے نگلنے پڑتے تاکہ نیند آ سکے۔

اس وقت کا سب سے بڑا خواب تو یہ تھا کہ کاش بیس ہزار کی تنخواہ کسی طرح 25ہزار ہو جائے۔ اور پھر شاید 45 ہزار کا مگر بیس سال کی نوکری کے بعد ملتی تھی اتنی تنخواہ۔ لاکھوں کا تو تصور بھی نہیں تھا میرے پاس۔ فراڈ کا خیال ذہن میں کبھی نہیں آیا تھا۔ نہ چوری کرنے کا ارادہ تھا نہ بنک ڈکیتی میں حصہ دار بننے کا ۔ نہ ہی کسی سیاسی دہشت گرد پارٹی میں شامل ہونے کا سوچا تھا کہ لاکھوں تک پہنچا جا سکتا۔ مگر لاٹری اس طرح بھی نکل سکتی ہے، ایسا تو کبھی تصور میں بھی نہیں آیا تھا۔

اس دن رش سے نکلتے ہوئے اچانک میری پیٹھ پر دھپ پڑا تو میں فوراً پلٹا۔ زبیدہ چہرے پر نقاب ڈالے کھڑی تھی۔ مجھے پلٹتے دیکھ کر بے تکان بولنا شروع ہو گئی۔

”کہاں چلے گئے تھے تم؟ کسی کو تمہارا کچھ پتہ نہیں ہے۔ تمہارا فون بند جا رہا ہے۔ چوری تو نہیں ہو گیا۔ آفس تم آتے نہیں ہو۔ میں روز ہاسٹل جاتی ہوں۔ سب کہتے ہیں کہ تم ہاسٹل اور نوکری بھی چھوڑ چکے ہو۔ کیا گاؤں چلے گئے ہو؟ مجھ سے بھی کوئی رابطہ بھی نہیں رکھا ہے۔ گاؤں میں تو سب خیریت ہے نہ؟“ جیسی منتشر اور بے ترتیب وہ خود تھی، ویسے ہی بے محل اس کے جملے تھے۔

میں تو جیسے بنک میں ڈاکا مارتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ میرے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں اور کپڑے جیسے بارش میں بھیگ کر جسم سے چپک گئے تھے۔ مگر میرے اندر کا چور ہوشیار ہو کر بولا۔ ”میں آج ہی گاؤں سے آیا ہوں۔ بہت ایمرجنسی تھی اسی لئے بھاگنا پڑا۔ میرا فون چوری ہو گیا تھا۔ میں خود تم سے رابطے کے لئے بہت پریشان تھا۔“

”دیکھا میرا اندازہ صحیح نکلا۔ ارے سب خیریت تو ہے نہ۔ تمہاری امی اور بابا تو ٹھیک ہیں۔“ وہ مزید حواس باختہ ہو کر بولی۔

”ہاں ہاں وہ تو ٹھیک ہیں۔ بس خاندان میں۔“ میں نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”خاندان میں؟ کیا کر رہے ہیں خاندان میں؟ سب ٹھیک تو ہے خاندان میں؟“

”ہاں خیریت تو ہے۔“ اچانک افتاد پر میں خود بوکھلا گیا تھا مگر میرا ذہن ایک مضبوط کہانی بننے میں مصروف تھا۔

”تو پھر کیا ہے؟ کہیں تمہاری شادی تو نہیں کروا رہے ہیں اپنے خاندان میں؟“
پریشانی میں اس نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا۔ وہ آج پہلے سے زیادہ بدصورت اور بدحواس نظر آئی۔
”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔ سب ٹھیک ہے۔ آگے بھی امید ہے سب ٹھیک رہے گا۔“ میں نے خود کو سنبھالا۔

اس نے گہرا سانس لیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولی۔ ”شکر ہے تم نظر تو آئے۔ تمہیں معلوم ہے، ایک بار تو میرے دل میں تمہارے لیے برے برے خیالات بھی آئے، مگر مجھے یقین ہے تم کبھی بے وفا نہیں ہو سکتے۔ تمہارے جیسے لوگ کبھی بے وفائی نہیں کرتے۔ مجھے تم پر پورا یقین ہے۔“

اس کے ہوائیاں اڑتے چہرے اور بے ربط جملوں میں بھی اس کا مجھ پر اعتماد دیکھ کر میرا دل متزلزل تو ہوا مگر میں نے پکا سا چہرہ بنا کر کہا ”ایمرجنسی میں کمرہ چھوڑنا پڑا۔ قریبی رشتوں میں کسی مسئلے پر ان بن ہو گئی تھی۔ بات زیادہ بگڑ رہی تھی۔ کہیں خون خرابہ نہ ہو جائے اس ڈر سے جانا پڑا۔“

”اللہ خیر! زیور تو سنبھال کر رکھے ہیں نہ۔ تمہیں پتہ ہے نہ کہ کیسی دنیا ہے یہ۔“ اب کی بار وہ میرے مزید قریب ہو کر رازدارانہ انداز میں بولی تھی۔

” اتنا ڈرتی ہوں میں یہ سوچ کے کہ اگر یہ زیور مجھ سے کھو گئے تو کیا ہو گا۔ مجھے دھوکہ مت دینا ورنہ میرا کیا ہو گا۔ امی ابو بیچارے یہی سمجھاتے تھے مجھے کہ دیکھو اگر یہ زیور تمہارے پاس نہیں ہوں گے تو کون کرے گا تم سے شادی؟ شکل تو میری واجبی سی ہے۔ زیور تو ہونا چاہیے نہ میرے پاس۔“

وہ سچ مچ مجھ سے شادی کیے بیٹھی تھی، حالانکہ میں نے اس سے کبھی ایسے کوئی بول بچن نہیں کیے تھے۔ جانتی ہے کہ اب اس کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے تو مجھے زیوروں سے خریدنا چاہ رہی ہے۔ گھٹیا عورت۔ میں نے اس کی گئی گزری صورت دیکھ کر سوچا۔

اور صورت کو بھی چلو چھوڑو۔ وہ جو ہوٹل کے اجنبی کمرے میں۔ میرے ساتھ۔ صرف اس وعدے پر کہ آج بھی تمہارا، کل بھی تمہارا، پر سب کچھ کرنے پہ تیار ہو گئی تو کیا ایسی لڑکی کسی شریف آدمی سے شادی کے قابل ہوتی ہے؟ لعنت بھیجتا ہوں ایسی لڑکیوں پر ۔ ایسی نفرت انگیز کراہت تو ابلتے گٹر کو دیکھ کر بھی مجھے کبھی نہ ہوئی تھی جیسی آج اس کی شکل دیکھ کر ہو رہی تھی۔ آسانی سے پھنس گئی تھی تو میں نے سوچا تھا کہ میری کچھ جنسی تربیت ہی ہو جائے گی۔ پھر اس سے بہتر کی طرف بڑھوں گا، مگر یہ تو جان کو ہی آ گئی۔

میں نے اس سے وعدہ کیا کہ اگلے روز اسی پارک میں ملاقات ہو گی جہاں ہم پہلی بار ملے تھے۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے دنیا جہاں کے وعدے لیتی رہی۔ اور میں ہر گزرتے آدمی کو دیکھ کر لرزتا رہا۔ مگر اسے اس بات کا قطعی کوئی احساس نہیں تھا کہ وہ راستے یا بازار میں کھڑی تھی۔ اس دن اس سے جان چھڑوا کر میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ آج ہی یہ شہر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینا ہے۔

کینیڈا کی شدید برف باری نے دیوار گیر شیشے کے باہر کی ہر چیز کو ڈھک دیا تھا۔ بلندوبالا عمارتیں ٹھنڈک میں یوں سکڑی کھڑی تھیں، جیسے ان کے پاس کوئی جائے اماں نہ ہو۔

پکوڑے بنا دوں چائے کے ساتھ؟
بیوی نے ڈرائنگ روم کے ساتھ بنے نفیس سے کچن میں کھڑے کھڑے پوچھا۔

بنا لو، چائے بھی۔ مگر یار۔ آؤ۔ مزے لو اس برف باری کے۔ میں نے شیشے کی کھڑکی کے پار آسمان سے برف کا دودھیا پاؤڈر گرتے دیکھ کر جذبات سے مغلوب، بوجھل آواز میں کہا۔ اسی اثنا میں بارش بھی شروع ہو چکی تھی۔ میری بیوی کو برفیلی بارش دیکھنا بہت پسند ہے۔

آتی ہوں۔ جسٹ اے منٹ۔

میں نے بے مقصد ہی ریموٹ کنٹرول کے بٹن دبائے۔ کسی پاکستانی چینل پر کچھ نیا نہیں تھا۔ وہی سیاسی تبصرے اور قلابازیاں۔ کینیڈا میں بسنے والی دیسی اور دیسیوں میں انگریز نظر آنے کی کوشش کرتے تیتر نہ بٹیر، کوے نہ ہنس، ساؤتھ ایشین نامی کنفیوزڈ مخلوق، فارغ وقت میں پاکستانی ٹیلی ویژن چینلز دیکھ کر اپنی ٹھرک پوری کرتی ہے ہر وقت خبروں کے دریا میں ڈور ڈالے بیٹھے رہتے ہیں کہ کب پاکستان اور پاکستانیوں کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ آئے۔

سب سے زیادہ غم و غصہ اس بات پر کھاتے کہ یہ کمبخت پاکستان اب تک موجود کیوں ہے۔ کبھی پاکستانیوں کو گالیاں دیتے ہیں تو کبھی پاکستان کو ۔ پاکستان سے آنے والی ہر بری خبر کو سوشل میڈیا پر پھیلاتے یوں سیلیبریٹ کرتے ہیں گویا ویہلے کو مشغلہ ہاتھ آ جائے مگر کینیڈا یا امریکا میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات پر مکمل چپ سادھے رہتے ہیں۔ مجال ہے جو منہ سے کوئی کلمۂ حق نکل جانے دیں، ہاں اگر دہشت گرد مسلمان نکل آئے تو گویا ان کی لاٹری نکل آتی ہے کہ پاکستان کو گالیاں دینے کے لئے دو تین ہفتوں کا سامان بہم ہو جاتا ہے۔

کنفیوژن کا یہ عالم کہ کبھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی فتح پر اچھل اچھل کر داد دیتے ہوئے دوستوں کو فون پر اونچی اونچی آوازوں میں مبارکباد دیتے ہیں تو کبھی آگ بگولا ہو کر سیاست دانوں کو گالیاں بکتے رہتے ہیں۔ عید نماز پر مساجد کے سامنے والی گلیاں اور روڈ بند کر کے تفریح لیتے ہیں کہ دیکھا کیسا سکھایا اسلام ان سالوں کو ۔ یوٹیلٹی اسٹورز، کھانوں کے ریسٹورنٹس اور ہوٹلز میں حلال حلال کی آوازیں لگاتے ہیں مگر شراب کی بوتلوں کے لیبلز دیکھتے ہوئے حرام و حلال کے تصورات پر ہنستے ہیں۔

پردیس میں رہتے ہوئے ایمان کی سلامتی کی دعا لبوں پر ہوتی ہے مگر سودی بینکوں اور حکومتی اداروں سے ہر ہر مد میں رقم اینٹھنا ہرگز معیوب نہیں سمجھتے۔ پاکستان میں پڑھے لکھے بے روزگاروں کی تکلیف پر کڑھنے والے، کینیڈا میں پی ایچ ڈی ہولڈرز کو بے روزگار دیکھ کے انہیں بے مقصد ڈگری لینے پر مطعون کرتے ہیں۔ اسلامی اسکولوں کی تلاش میں در در بھٹکتے نئے نئے والدین اپنی بیٹیوں کی ٹانگوں اور بازوؤں کو بچپن سے ہی ڈھکے رکھنے کی تجویزیں ایک دوسرے کو بڑھ چڑھ کر دیتے رہتے ہیں۔

جو مائگرنٹس جوانی میں جن نظاروں اور کلبوں کو آزادی کا مرکز و منبع قرار دیتے تھے، اب اپنی جوان بیٹیوں اور خود سر بیٹوں کی موجودگی میں انہیں فحاشی کے اڈے قرار دے کر ، ان ملکوں کو اللہ کی آزمائش سے ڈرنے کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ پیزا کھا کھا کر وزن بڑھانے والی آنٹیاں ہمسایوں میں بیٹھ کر اسلامی اسکالرز کے خواتین کے شوہروں اور لباس کے متعلق احکامات، طرح طرح کی عبائیں اور اسکارفز لینے کے اسلامی طریقوں پر بھاشن دیتیں۔

گوری لڑکیوں کے مختصر کپڑے بھی ان کے جسم سے نوچ لینے کی حسرت میں مبتلا مرد اپنی آنکھوں سے جھانکتی ہوس کو چھپانے کے لیے خود داڑھی بڑھا لیتے ہیں اور اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو اللہ کی رضا اور خاندان کی عزت کے واسطے دیتے، چہرہ اور جسم چھپانے کے لئے طرح طرح کے عبایہ خریدنے کے مشورے دیتے۔ بڑھاپے کی طرف بڑھتے ان عمر رسیدہ مرد و زن نے آزادی کا نام بے غیرتی رکھ کر یک گونہ سکون حاصل کیا ہوا ہے۔ دیسی مردانہ محفلوں کا سب سے اہم موضوع پراپرٹی ہوتا ہے۔

500 میں خریدنے والے۔ فخر سے بتاتے کہ 300 کا فائدہ ہوا اور 600 والے اپنی پراپرٹی میں 900 کا فائدہ بتا کر سطحی لذت حاصل کرتے مگر مارگیج کے بارے میں کم بات کرتے کہ مہاجن بینکوں میں خود کو گروی رکھو یا نہ رکھو زندگی تو ویسے بھی لٹنی ہی ہے۔ کبھی حلیم کی دعوت کرتے۔ کبھی عید ملن رکھتے تو کبھی گیٹ ٹوگیدر، مگر مجال ہے کہ کبھی کوئی سفید فام ان کی محفلوں میں نظر آ جائے بلکہ سفید فاموں نے ان کی روز افزوں بڑھتی تعداد دیکھتے ہوئے اپنی پوری کی پوری بستیاں چھوڑ کر دوردراز آبادیاں بسا لی تھیں۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ پچاس پچاس سال سے کینیڈا میں رہنے والے، جن کی اولادیں تک یہاں پیدا ہوئی ہیں ہر گوری چمڑی کو کینیڈین کہتے خواہ اگلا گورا بندہ دو ماہ پہلے ہی سویڈن یا رومانیہ سے وارد ہوا ہو، مگر چالیس پچاس سال سے آباد پاکستانی خود کو ابھی تک کینیڈین کہنے کا حوصلہ نہ جٹا پائے ہیں۔ غرض کہ ”امیگریشن کی کنفیوژن“ پر مکمل سٹڈی اور کیس سٹڈیز کا میدان کھلا ہے۔ صرف تین چیزوں پہ فخر کی وجہ سے گزارا ہے۔ ایک انگریزی بولتے اپنے بچے اور ان کے بچے دیکھ کر ۔ دوسرا ڈالر میں کمائی اور تیسرا کینیڈین پاسپورٹ پانے کی وجہ سے پاکستانیوں پر برتری کا غرور۔ باقی اللہ اللہ خیر صلا۔

جب تک بیوی آتی۔ میں نے پھر پاکستانی نیوز چینلز کی یکسانیت سے بددل کر یوٹیوب پر کچھ سرچ کیا۔ میری اکلوتی بچی دبیز قا لین پر کھلونے بکھرے سکون سے کھیل رہی تھی۔

کسی دارالامان کی ڈاکیومینٹری چل رہی تھی۔ کوئی بندہ ہاتھ میں مائک پکڑے پاکستانی طوائفوں، ان کے بھڑووں اور نائیکاؤں کی زندگی کی داستانیں مصنوعی ہمدردی میں ڈوبے چسکارے لے لے کر بیان کر رہا تھا۔ اچانک میرا ہاتھ شل ہو کر وہیں رک گیا۔ اگلا چہرہ جو کیمرے کے سامنے تھا اسے دیکھ کر میں۔ چائے۔ بیوی۔ بیٹی۔ اور نجانے کیا کچھ بھول گیا۔ شاید اپنا آپ بھی، اور اپنا محل وقوع بھی۔

کیمرہ جس عورت کے چہرے پر مرکوز تھا، اس کا کہا یہ جملہ میرے دل کی دیواروں پر کندہ تھا۔ ”اگر یہ زیور بھی میرے پاس نہ ہوں گے تو کون کرے گا مجھ سے شادی؟ شکل تو میری واجبی سی ہے۔ “

ایک لمحہ نہ لگا مجھے اسے پہچاننے میں۔ ہاں وہ زبیدہ ہی تھی۔ اور پہلے سے کہیں زیادہ بے ترتیب جملے بول رہی تھی۔ مائک ہاتھ میں پکڑے، شریف النفس ہونے کا ناٹک کرنے والا بے غیرتی کی دلدل میں دھنسا تھا۔

”زیوروں کا کیا ذکر؟“ مائک والے نے آنکھیں گھما کر پوچھا۔
”زیوروں سے نہ، عورت کی عزت بڑھ جاتی ہے۔“ وہ سر پہ دوپٹہ جماتے ہوئے بولی۔
”اور بغیر زیوروں کے؟“ وہ مزے لیتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔

”بغیر زیوروں کے۔ عورت۔ بغیر پیسوں کے عورت اور وہ بھی میرے جیسی عام سی عورت، جس کی نہ شکل نہ صورت، نہ جسم نہ عقل، یتیم و یسیر۔ کچرا ہے ہیرو صاحب۔“

”کچرا؟“ وہ مصنوعی تعجب سے بولا۔

”ہاں کچرا۔ وہ عورت نہیں رہتی صاحب۔ اب دیکھو میرے پاس زیور نہیں رہے جب تو میں کیا بن گئی؟ عورت سمجھتے تو کوئی نہ کوئی تو مجھ سے شادی کر لیتا نہ۔ نہیں کی نہ کسی نے؟“

”شادی کے لئے شریف عورت ہونی چاہیے۔ اور شرافت پیسے یا زیور سے نہیں آتی۔“ مائک والے نے فلسفہ جھاڑا۔

” نہیں نہ؟ تو آپ۔ آپ کریں گے مجھ سے شادی؟ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے مگر غلام بن کر رہوں گی آپ کی۔ پوری زندگی داسی بن کر خدمت کروں گی آپ کی، اگر نہ کروں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔“ وہ ایک دم خودکلامی سے باہر نکل کر ۔ پوری آنکھیں کھول کر ، مائک کے پیچھے کھڑے مرد سے ضدی لہجے میں مخاطب ہوئی۔

وہ گھبرا گیا۔
بالکل ایسے جیسے میں گھبرا گیا تھا۔
پھر ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔
بالکل ایسے جیسے میں پیچھے ہٹ گیا تھا۔
سنو۔ سنو۔ سنو تو ۔ میری بات تو سنو۔ وہ آوازیں دیتی رہ گئی۔
مائک پکڑے، شرافت کا ناٹک کرتا آدم زاد باہر کو لپکا۔
جیسے میں باہر کو لپکا تھا۔ اور کینیڈا آ کر دم لیا۔
باہر برف سے سارا شہر ڈھکا ہوا تھا مگر میرا پورا جسم پسینے سے شرابور تھا۔
بیوی نے آواز دی۔
پکوڑے اور چائے تیا ر ہیں۔
پھر فوراً ہی بڑی لگاوٹ سے بولی، ”افوہ یہ موسم۔ یہ ظالم، عاشقانہ موسم۔“
دارالامان کی انچارج۔ کسی بھی جذباتیت کا شکار ہوئے بغیر اس مائک والے کو بتا رہی تھی۔

”شاید عشق میں دھوکہ کھایا ہے اس عورت نے۔ جو ریکارڈ ہمارے پاس ہے، اس میں تو یہی لکھا ہے۔ دیکھئے کیس سٹڈی کرتے ہوئے جو کچھ اس نے کہا یا بتایا اسی سے ریکارڈ بنتا ہے۔ سنا ہے کوئی عاشق تھا اس پر یا یہ کسی پر عاشق تھی مگر یہ اس آدمی پر کچھ زیادہ ہی بھروسا کر بیٹھی۔ اس کے ماں باپ نے مرنے سے پہلے اس کے نام کئی کلو سونا وغیرہ چھوڑا تھا، جو اس نے اپنے محبوب کی حوالے کر دیا کہ وہ اس سے گھر خرید لے گا، تو یہ دونوں شادی کر لیں گے۔

وہ نوسر باز زیور لے کر چمپت ہو گیا۔ اس کے تین بھائی ہیں مگر یہ تینوں کے گھر کا اتا پتا نہیں جانتی۔ نہ ہی کوئی کبھی کوئی اس سے ملنے کے لیے آیا ہے۔ یہ آہستہ آہستہ مزید ذہنی مریضہ ہوتی جا رہی ہے۔ جو بھی کبھی یہاں اس دارالامان میں انٹرویو یا ریسرچ وغیرہ کرنے آتا ہے اور اگر وہ کوئی آپ جیسا نوجوان مرد ہو تو پھر یہ اس طرح کے سوالات زیادہ کرتی ہے۔ ظاہر ہے آپ لوگ تو نوکری پیشہ ہیں، انٹرویو وغیرہ کر کے واپس چلے جاتے ہیں مگر یہ مزید مایوس ہو کر کئی کئی دن تک کہتی پھرتی ہے کہ میرے پاس اب تو زیور بھی نہیں ہیں تو کون کرے گا مجھ سے شادی، وغیرہ وغیرہ۔“

باہر درجہ حرارت منفی تھا مگر میرا پورا جسم پسینے سے تر تھا۔ میں خاموش گم سم بیٹھا ہوں۔ جس کہانی کو درمیان میں ہی پڑھنا چھوڑ کر ۔ اس کے پنے پھاڑ کر سات سمندر پار آ گیا تھا۔ وہ کہانی اچانک اسکرین پہ ظاہر ہوئی اور اس کے سارے بکھرے اوراق، اڑتے، پھڑپھڑاتے ایک ساتھ جڑنے لگے۔ کیا یہی تھا اس کہانی کا انجام یا ابھی کچھ اور بھی ہے۔ اور اگر کہانی ابھی نامکمل ہے تو پھر بھلا کیسے مکمل ہو گی؟ اور کیا کردار زندہ رہ جائیں تب بھی کہانی ختم ہوجاتی ہے؟

بیوی چائے رکھ کر پھر کچن میں تھی مگر میری چار سالہ بیٹی ہنستی ہوئی آئی اور لپک کر میری گود میں بیٹھ گئی۔ کیا کہانی ختم ہو گئی؟ دماغ نے پھر چٹکی کاٹی۔ وہ گلٹی فیلنگ جسے مردہ سمجھ کر میں نے مہینوں اور سالوں کی تہوں تلے دبایا ہوا تھا۔ سارے زمانے بھول کر میرے احساسات کی اولین سطح پر آ کر مجھے اپنی گرفت میں لے رہی تھی۔ مگر پھر بھی۔ میں اتنا برا۔ اتنا برا کہاں ہوں، میں نے خود کو تسلی دی۔ اس۔ اس کمینے حیات احمد سے تو بہتر ہوں، جس نے تین سال ایک لڑکی کو محبت کے دھوکے میں رکھا اور جب وہ لڑکی پریگننٹ ہو گئی تو ابارشن کے بہانے آپریشن کروا کر اس کی کڈنی ہی نکلوا کر بیچ ڈالی تھی اور اس پیسے سے کینیڈین کنسلٹنٹ کو فیس دی۔

ٹکٹ بنوایا اور سیدھا کینیڈا۔ اور اس کے بعد بھی کہاں چین سے بیٹھا ذلیل انسان۔ دو بار جھوٹی شادیاں کر کے لڑکیاں بلوا چکا ہے کینیڈا میں۔ پیپر میرج دکھا کے انہیں یہاں تک لانے اور بنا شادی کیے طلاق دینے کے ڈیڑھ کروڑ پاکستانی لئے ہر لڑکی سے۔ اس کے مقابلے میں میرا گناہ ہے ہی کیا؟ اس سے تو لاکھ درجے بہتر ہوں میں۔ اور اگر وہ شرم و حیا والی، خاندانی شریف لڑکی ہوتی تو آج وہی ہوتی میرے ساتھ، میری بیوی بن کر ، یہاں کینیڈا میں۔ میں نے خود کو تسلی دی۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments