مہنگائی کا طوفان کب تھمے گا؟


ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور حکمران ہیں کہ صرف اور صرف عوام کو لالی پاپ دینے میں پورے ہیں کہ اب یہ ہو گا اب وہ ہو گا، پہلی حکومت چور تھی، اس سے پہلی حکومت بہت اچھی تھی وہ ہوتی تو یہ ہوتا یہ ہوتی تو وہ ہوتا مطلب کہ جتنے منہ اتنی باتیں اور جس کو جتنا پوائنٹ اسکورنگ کرنا آ رہا ہے وہ اتنی ہی پوائنٹ اسکورنگ کر رہا ہے مگر عوام کے لئے نا تو کوئی سوچ رہا ہے اور نا ہی حکمران عوام کے لئے کچھ کرنے کے موڈ میں ہیں کیونکہ ان کے ذہنوں میں صرف اور صرف اپنا پیٹ پالنا اور اور اپنی تمام تر عیاشیاں کرنی ہیں پھر چاہے ملک کا دیوالیہ ہی کیوں نا نکلے جائے پر ان کے شاہی اخراجات ختم نہیں ہونے ہیں اور نا ہی ان کے پروٹوکول میں کوئی کمی آنی ہے۔

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اپریل میں وزیر خزانہ کا حلف لیا اور بہت سارے مشکل فیصلے کیے تاکہ ڈالر کی اڑان اور ملک میں معیشت کو بہتر ڈگر پر لایا جا سکے مگر اس کے لئے اس سے پہلی والی حکومت نے جس طرح سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جس طرح کے معاہدے کیے ہوئے تھے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مفتاح اسماعیل کے پاس کچھ خاص کرنے کو نہیں تھا کیونکہ جس طرح سے پچھلی حکومت نے معاہدے کیے تھے ان سے کسی بھی صورت میں مفتاح اسماعیل منہ نہیں موڑ سکتے تھے کیونکہ پاکستان کی کریڈیبلٹی کا سوال تھا۔

مفتاح اسماعیل اپنی وزارت کے دوران مشکل فیصلے تو کیے مگر وہ آئندہ آنے والے وقت میں پاکستان کے لئے انتہائی مفید ثابت ہوتے مگر مسلم لیگ کی قیادت مفتاح اسماعیل کے مشکل فیصلوں سے نالاں دکھائی دے رہی تھی یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون کی سرگرم لیڈر مریم نواز نے بھی یہ ہی کہہ دیا تھا کہ مفتاح اسماعیل سے وزارت نہیں چل رہی اور اس نے مایوس کیا ہے۔ مریم نواز نے باقاعدہ ایک مہم چلائی کے اسحاق ڈار کے سوا ملک کا بہترین وزیر خزانہ کوئی اور نہیں ہو سکتا جس کے بعد مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ کو لنڈن میں وزارت سے مستعفی ہونا پڑا۔

جس کے بعد ٹھیک 6 ماہ کے بعد اسحاق ڈار نے 28 ستمبر 2022 ع کو وزیر خزانہ کا حلف لیا اور اس کے بعد مسلسل یہ کہا جا رہا تھا کہ ملک کو ڈالر کی اڑان کو قابو میں لانا ہے اور ملک کو مہنگائی کے طوفان سے نجات دلائیں گے۔ مگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جتنی بھی باتیں تھیں وہ محض صرف باتیں ہی رہیں ملک میں مہنگائی کا طوفان تھم تو نا سکا پر مزید بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ڈالر کی اڑان نے پاکستانی روپے کی قدر میں اس قدر کمی کردی ہے کہ پاکستانی روپے کی کوئی اوقات نہیں رہی ہے۔

ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے ہر چیز مہنگی سے مہنگی ترین ہوتی جا رہی ہے۔ اوگرا کی جانب سے عوام کو مسلسل دھوکے میں رکھا گیا اور اس کا ٹیلر یہ تھا کہ سوشل میڈیا پر پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے ایک روز قبل ہی چل رہا تھا کہ 85 روپے فی لیٹر پر بڑھ جائے گا اوگرا کو سمری بھی بھجوائی گئی ہے مگر اوگرا کی جانب سے پریس ریلیز نکالی گئی ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے کوئی پیٹرولیم مصنوعات میں رد و بدل نہیں ہو رہا ہے جس سے عوام کی جان میں جان آئی مگر کل صبح گیارہ بجے کے قریب وزیر خزانہ نے اچانک سے پریس کانفرنس بلائی اور کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر اضافہ کیا جا رہا ہے اور اس کا اطلاق ابھی سے شروع ہو جائے گا جس کے بعد پیٹرول پمپس والوں نے پیٹرول کو ذخیرہ کر کے تب تک پیٹرول فروخت نہیں کیا جب تک پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔

ان پیٹرول پمپس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جن پیٹرول پمپس نے کروڑوں روپے ایک دم میں کمائے، قانون صرف غریب عوام پر اپلائی ہوتا ہے باقی سرمائے دار کے خلاف کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ اس وقت پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 249 ہے مگر بعض پیٹرول پمپس پر پیٹرول کی قیمت 252 تک بھی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، غریب طبقہ ایک وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہے اور حکمران ہیں کہ ان کے اخراجات پر کوئی بھی کمپرومائیز کرنے کے لئے تیار نہیں ہے باقی غریب عوام کا خون چوسنا ہے اس کے لئے ہر حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے آٹومیٹک ہر چیز مہنگی ہو جائے گی پہلے ہی اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں کو پر لگے ہوئے ہیں اور مزید پر لگ جائیں گے، آٹا تو پہلے ہی نایاب ہو چکا ہے لوگ لائنوں میں کھڑے ہو کر آٹا لے رہے ہیں پر وہ بھی چند ہی افراد کو مل رہا ہے عوام اس مہنگائی سے اتنے تنگ آ چکے ہیں کہ اب تو مختلف شہروں سے بھوک اور افلاس کی وجہ سے خودکشیاں کرنے کی خبریں بھی مل رہی ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو ان چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

ہمارے حکمران ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں پورے ہیں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی نہیں سوچتا یہ ہی وجہ ہے کہ آٹا نایاب ہے حکومت کہتی ہے کہ انہوں نے گندم فلور ملز کو دے دی ہے اور اب آٹا 95 فی کلو ملے گا اور اس کے لئے صوبائی حکومتوں نے نوٹیفیکیشنز بھی نکالے مگر ان پر عملدرآمد ہوتا ہوا کہیں دکھائی نہیں دیتا آج بھی آٹا فی کلو 160 روپے میں فروخت ہو رہا ہے، حکومت کی رٹ ختم ہو گئی ہے جس کو جہاں آ رہا ہے وہ وہاں پر عوام کا خون چوس رہا ہے، نا تو ضلعی حکومتیں عوام کے لئے سوچ رہی ہی اور نا ہی صوبائی حکومتیں عوام کے دکھوں کا درمان بن رہی ہیں جس کی وجہ سے عوام بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments