عمران خان اور ”پیچھے پھر! دوڑے چل!“ کے فوجی کاشن


پاکستان ملٹری اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوئے تین دہائیوں سے اوپر کا عرصہ بیت چکا مگر پی ایم اے میں عرصہ تربیت کی یادیں ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں آج بھی زندہ ہیں۔ یہ یادیں زیادہ تر روز مرہ جسمانی تربیت (پی ٹی پیریڈ) ، ڈرل (رائفل کے ساتھ پریڈ) اور ویپن ٹریننگ (ہتھیار سکھلائی) وغیرہ کی تربیت سے منسوب ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ یادیں بھی قابل ذکر ہیں جن میں زیر تربیت کیڈٹس کو اکیڈمی سے باہر لے جا کر کیمپ کی صورت رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان میں اپنے ضروری سامان کے ساتھ طویل پیدل مسافت طے کی جاتی تھی۔

فوجی ٹریننگ کے پیریڈ میں ورڈ آف کمانڈ (زبانی حکم) کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اس کو فوجی زبان میں ’کاشن کہا جاتا ہے۔ کاشن مختصر الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اور سب کو سنانے کے لیے باآواز بلند بولے جاتے ہیں اس لئے کسی نہ کسی لفظ کو طویل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً فوجیوں کے کسی گروہ کو چاق و چوبند اور ساکن کرنے کے لیے جو کاشن مختص ہے وہ ہے :‘ ہوشیار ”۔ مگر اونچا بولنے کے لیے (تاکہ سب افراد اچھی طرح سن لیں) یوں بولا جائے گا۔ ہووووووووووشیار۔

فوجی تربیت گروہی ہوتی ہے۔ سب سے چھوٹا گروہ پلاٹون کہلاتا ہے۔ ایک پلاٹون پچیس تیس کیڈٹس پر مشتمل ہوتی ہے۔ پی ٹی، ڈرل اور نشانے بازی کی تربیت کی ذمہ داری بنیادی سطح پر جو عموماً ’نان کمیشنڈ آفیسرز‘ سر انجام دیتے ہیں۔ ان اساتذہ کو فوجی زبان میں ’سٹاف‘ کہا جاتا ہے۔ جبکہ وہ زیر تربیت کیڈٹس کو ’صاب‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ سٹاف منتخب لوگ ہوتے ہیں جو سخت ترین ڈسپلنیرین (نظم و ضبط کے پابند) ، جسمانی طور پر تنو مند اور چاق و چوبند ہونے کے علاوہ رعب دار خدو خال رکھتے ہیں۔ سٹاف گلا پھاڑ کر بولنے کے ماہر ہوتے ہیں اور مستی یا غلطی کرنے پر نقد سزا دینے سے نہیں چونکتے۔ ڈرل اسکوئر میں آپ کو سٹاف صاحبان کی ایسی آوازیں ضرور سنائی دیں گی:

صاب : سامنے دیکھو، ہلو نہیں۔ چن اپ (ٹھوڑی اوپر رکھو) صاب۔ چیسٹ آؤٹ ( سینہ باہر نکالو) ۔ ہووووووشیار۔ بازوووووووووفنگ۔ سلا اا اا اا اام فنگ۔ نییچے ے ے ے ے ے ے ے فنگ۔ آسا اا اا اا اا اا اا ان باش۔ آرا اا اا اا اام باش۔ اور پی ٹی گراونڈ میں جب جسمانی تربیت کا وقت ختم ہو جائے تو یہ کاشن بولا جاتا : پیچھے پھر۔ دوڑے چل۔ کیونکہ پی ٹی گراونڈ میں چلنے کی اجازت نہیں ہوتی ہر کام دوڑ دوڑ کر ہوتا ہے۔

عمران خان نے گزشتہ برسوں میں اپنی سیاست کا جو حال کیا ہے اس پر، ”پیچھے پھر دوڑے چل“ والا کاشن یاد آتا ہے۔

عمران خان نے 18 اگست 2018 ء کو وزیراعظم پاکستان کا عہدہ سنبھالا تھا۔ ان کی سیاسی ’جماعت پاکستان تحریک انصاف‘ کو سادہ اکثریت حاصل نہیں تھی اس لیے حکومت بنانے کے لیے ان کو پاکستان مسلم لیگ ( ق) اور مہاجر قومی موومنٹ کے علاوہ کچھ آزاد امیدواران جو بنیادی طور پر پی ٹی آئی کے اراکین نہیں تھے، کی مدد لینی پڑی۔ اگر وہ ایک سنجیدہ اور بالغ النظر سیاست دان ہوتے تو ایسی کمزور حکومت بنا کر قائد ایوان بننے کی بجائے ایک مضبوط قائد حزب اختلاف بننے کو ترجیح دیتے۔ مگر وزیر اعظم بننے کی جلدی میں وہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہ کر پائے اور پونے چار سالہ دور اقتدار میں اتحادیوں سے سے بلیک میل ہوتے رہے۔

دوران حکومت بھی عمران خان اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے۔ کرکٹ کے میدان کی طرح، وہ یہ بھول گئے کہ وہ سارے پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور ان کو ایک مدبر صلح جو اور بردبار رہنما کے طرح حزب اختلاف سمیت سب کو ساتھ لے کر چلنا تھا اور یہ ملک کو درپیش سنجیدہ مسائل پر توجہ دینے کی بجائے وہ مخالفین کو گالی گلوچ کرنا اور ہمہ وقت للکارتے رہے جو حکومت کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا۔ اپنے دور اقتدار میں عمران خان نے اہم قومی امور پر غور کرنے کے لیے یا مشاورت کے لیے ایک بھی قومی کانفرنس نہیں بلائی۔

عمران خان کرپشن کے خاتمے کا انتخابی وعدہ لے کر میدان میں اترے تھے مگر حقیقت میں کرپشن کا گراف نیچے جانے کی بجائے اوپر چلا گیا اور سادگی کا دعویٰ کرنے والے وزیراعظم کی کابینہ کی تعداد بشمول مشیروں کے چالیس سے تجاوز کر گئی۔ وہ جن لوگوں کو چور اور ڈاکو کہتے رہے ان پر کوئی بد عنوانی بھی ثابت نہ کر سکے۔

کرونا جیسی وبا نے جب ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو پاکستان جیسی کمزور معیشت پربھی اس کے ضرر رساں اثرات مرتب ہو نے تھے اور ایک خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہونا لازمی امر تھا مگر ایسے قومی بحران لیڈرز کا امتحان بھی تو ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر قوم کا حوصلہ بلند کرنے، بیرون ممالک سے ادویات و ویکسین درآمد کرنے اور اقوام عالم سے امداد طلب کرنے کی بجائے عمران خان مولانا طارق جمیل کے ساتھ قومی ٹیلی وژن پر بیٹھ کر پاکستانیوں سے چندہ اکٹھا کرنے اور دعا کروانے بیٹھ گئے۔ اس پرو گرام میں مولانا نے اس قدرتی وبا کی ذمہ داری خواتین کے لباس اور معاشرے میں موجود بے حیائی کے سر تھوپ دی۔ اب جبکہ کرونا وبا پاکستان سے قریب قریب ختم ہو گئی ہے تو کیا اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے سے بے حیائی ختم ہو گئی؟

ان سمیت جن منصوبوں کا انھوں نے اقتدار سنبھالتے وقت وعدہ کیا تھا۔ کوئی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا جس میں لاکھوں نوجوانوں کو نوکریاں دینا، اربوں درخت لگانا اور لاکھوں گھر بنانا اور ڈیم بنانا شامل تھے۔

خارجہ پالیسی کے حوالے سے عمران خان کو ہر سمت ناکامی ہوئی کیونکہ وہ کشمیر، افغانستان اور روس۔ یوکرائن جنگ پر ناقص پالیسیاں بناتے رہے۔ افغان طالبان جن کی ماضی اور حال کی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا ابھی تک سنجیدہ نہیں لیتی، عمران خان نے نہ صرف گلے لگا لیا بلکہ ساری دنیا میں اس کا ڈھنڈورہ پیٹنے لگے۔ طالبان کہ حکومت کو ابھی تک کسی نے تسلیم نہیں کیا مگر عمران خان ان کے سب سے بڑے حامی بن کر سامنے آ گئے۔ انھوں نے سی پیک منصوبے کا آڈٹ شروع کر دیا اور اس مشترکہ و متفقہ منصوبے کو سست خرام کر کے چین جیسے دیرینہ، مخلص اور کھرے دوست کو ناراض کر لیا۔

درون خانہ انھوں نے ہمیشہ زبان و بیان سے عقل کل ہونے کا ثبوت دیا اور کرکٹ کے میدان میں کپتان کی طرح سیاست کی۔ ان کے آمرانہ و ترش رویے، اپنی بات سے پھرنے اور ہٹ دھرمی کی وجہ اپنے کئی مخلص دوستوں کو ناراض کر لیا۔

فوج میں اعلیٰ سطح کی تعیناتیاں آرمی چیف کی صوابدید ہے کسی وزیر اعظم نے آج تک اس پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ وہ فوجی عہدوں پر تعینات مختلف افسروں کی ذمہ داریوں سے اس قدر واقفیت نہیں رکھتا جتنی آرمی چیف رکھتا ہے۔ یہ دونوں اعلٰی عہدے دار اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے باہمی اعتماد کی فضا میں کام کرتے ہیں اور یہ روایت گزشتہ سات دہائیوں سے قائم ہے۔ عمران خان ان تعیناتیوں میں بلا جواز ٹانگ اڑانے لگے اور عسکری مقتدرہ کو بھی بے سبب ناراض کر لیا۔

پھر ایک وقت آیا کہ مخالف سیاسی طاقتیں اکٹھی ہو گئیں اور 10 اپریل 2022 کو ایک عدم اعتماد کے ذریعے ان کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔ یہاں اپنی شکست تسلیم کرنے اور اپنے رویے کا از سر نو جائزہ لینے کی بجائے۔ انھوں نے کرکٹ کے کھیل والا کام شروع کر دیا۔ پہلے انھوں نے عدم اعتماد کی تحریک روکنے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی پر زور ڈالا، پھر قومی اسمبلی ہی تحلیل کر دی تاکہ کھیل ہی ختم ہو جائے۔ مگر عدالت عظمیٰ نے قومی اسمبلی دوبارہ بحال کر دی اور عمران خان کو کھلے ایوان میں عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کی اس شکست میں ان متنازعہ منحرف اراکین نے حصہ ہی نہ لیا جن پر وہ لوٹا ہونے کا اور بکنے کا الزام لگاتے رہے تھے۔ اقتدار سے باہر ہوتے ہی اس کا پہلا الزام انھوں نے امریکہ پر لگایا پھر اپنا موقف تبدیل کر لیا اور اعلیٰ فوجی قیادت کے سر اس کا الزام سھرنے لگے۔ بلکہ فوجی قیادت کو میر صادق اور میر جعفر تک کہہ ڈالا۔

یہاں بات ختم نہ ہوئی بلکہ عمران خان نے اپنے میڈیا سیل کے ذریعے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس اہم ترین قومی دفاعی ادارے کو بدنام کرنے کے سازش شروع کر دی۔ جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ اس کے جواب میں ان کی جماعت کے کچھ منہ زور گھوڑوں کی ڈرائی کلیننگ بھی ہوئی۔

چاہیے تو یہ تھا کہ عمران خان اپنی بنیادی سطح کے سیاسی ڈھانچے کا از سر نو جائزہ لیتے اپنی جماعت کی تنظیم نو کرتے اور ہر حلقے میں جا کر اپنا اعتماد بحال کرواتے مگر انھوں عام انتخابات وقت سے قبل کروانے کے لیے نئی حکومت پر زور ڈالنے کے لیے ملک گیر ”حقیقی آزادی مارچ“ کا اعلان کر دیا۔ مگر جب آخری اوور میں چھکے چوکے لگانے کا وقت آیا تو ”پیچھے پھر دوڑے چل“ کر دیا ۔ وہ اسلام آباد جا کر قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو بھول گئے اور اسمبلیوں سے استعفٰے دینے کا اعلان کر دیا۔ پھر ان کے حکم پر دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ قومی اسمبلی میں بھی 80 اراکین پی ٹی آئی کے استعٰفے منظور کر لیے گئے ہیں۔

مگر دوسری طرف، قبل از وقت تو ایک طرف مقررہ وقت پر بھی انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔ لگتا یوں کہ حکومت من مانی کرے گی کیونکہ عمران خان نے اپنی سیاسی طاقت کا خود خاتمہ کر دیا ہے۔ بظاہر نظر یہی آتا ہے کہ ضمنی انتخابات کے ذریعے تحریک انصاف کی خالی شدہ نشستیں پر لی جائیں گی اور عمران ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ کیونکہ ان کا ’پیچھے پھر دوڑے چل‘ خود ان کے ہاتھوں ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments