لسبیلہ بس حادثہ: 'خاندان کے تین افراد کی ناگہانی موت قیامت سے کم نہیں'


’یوں لگتا ہے کہ میرے بھائی کو خطرہ محسوس ہوا تھا اس لیے انھوں نے اپنی موت سے چار پانچ گھنٹے پہلے مجھے واٹس ایپ پر ایک پیغام بھیجا اور یہ دعا کی کہ اللہ پاک ہمیں محفوظ رکھے۔‘

یہ کہنا تھا کہ بلوچستان کے ضلع قلات سے تعلق رکھنے والے تنویر احمد کا جن کے بھائی مدثر احمد سمیت خاندان کے تین افراد ضلع لسبیلہ میں حادثے کا شکار ہونے والی مسافر کوچ میں ہلاک ہوئے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تنویر احمد کا کہنا تھا کہ خاندان کے تین افراد کی ہلاکت کی خبر ان کے لیے قیامت سے کم نہیں تھی۔

ضلع لسبیلہ میں حادثے سے دوچار ہونے والے اس کوچ میں خواتین اور بچوں سمیت 41 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت کی لاشیں کوچ میں آگ بھڑک اٹھنے سے ناقابل شناخت ہیں۔

لسبیلہ پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ ایک زخمی ہونے والے مسافر کے بیان کی روشنی میں کوچ کے مالکان اور اس کے ہلاک ہونے والے ڈرائیور کے خلاف درج کیا ہے۔

تنویر احمد کے رشتہ دار کہاں سے مسافر کوچ میں سوار ہوئے تھے؟

حادثے کا شکار ہونے والی مسافر کوچ بلوچستان کے ضلع پشین سے کراچی کے لیے روانہ ہوئی تھی اور اس کے بعد کوئٹہ سے بھی مسافر اس میں سوار ہوئے تھے۔

تنویر احمد نے بتایا کہ ان کے بھائی مدثر احمد کے علاوہ 11برس کی بہن اور بیوی منگیچر کے علاقے سے نو بج کر بیس منٹ پر سوار ہوئے۔

ان کا کہنا تھا ان کوکراچی نہیں جانا تھا بلکہ کراچی سے پہلے ضلع لسبیلہ کے ہیڈکوارٹرز اوتھل میں اترنا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’گاڑی کوتھوڑی دیر بعد اوتھل پہنچنا تھا لیکن اوتھل سے پہلے گاڑی حادثے سے دوچار ہوئی اور میرے تینوں رشتہ دار بھی دیگر مسافروں کے ہمراہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘

انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے بھائی نے سفر کے دوران جو پریشانی محسوس کی اس کے بارے میں آڈیو میسیج بھی بھیجا تھا۔

مدثر احمد نے آڈیو میسیج میں کیا کہا ہے؟

مدثر احمد نے بس سے بلوچی زبان میں جوآڈیو میسیج بھیجا ہے وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا ہے۔

تنویر احمد نے بتایا کہ مدثر احمد نے رات گیارہ بجے کے وقت ا ن کو واٹس ایپ پر آڈیو مسیج بھیج دیا تھا اور اس میں انھوں نے دعا کی اپیل کی تھی۔

مدثر احمد اس آڈیو میسیج میں کہہ رہے تھے کہ ’ڈرائیور ٹرالروں کو کراس کرتے ہوئے کوچ کو ادھر ادھر ٹرن دے رہا ہے۔ بس اللہ ہمیں امان میں رکھے۔ آپ لوگ دعا کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس پیغام کے بعد چونکہ بھائی اور دیگر رشتہ داروں سے فون پر ان کی بات نہیں ہوسکی جس کے باعث وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ کہاں پر تھے لیکن ان کا اندازہ ہے کہ بھائی نے جب خطرہ محسوس کرکے جس علاقے سے یہ میسیج بھیجا تو وہ سوراب یا اس سے آگے کے کا کوئی علاقہ تھا۔

‘خاندان کے تین افراد کی ناگہانی موت قیامت بن کر گری’

تنویر احمد نے بتایا کہ حادثے میں ہلاک ہونے والا ان کا بھائی چھٹی جماعت کا طالب علم تھا اور ان کے ساتھ سفر کرنے والی بہن کی عمر 11سال تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیوی بھی رشتے میں ان کی کزن تھیں اور ان کی شادی تین سال پہلے ہوئی تھی۔ تاہم ان کے ہاں ابھی تک کوئی اولاد نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا چونکہ ان کی بیوی کے بھائی اوتھل میں رہائش پزیر ہیں اس لیے وہ کچھ وقت وہاں گزارنے کے لیے ان کے بھائی اور بہن کے ساتھ وہاں جا رہی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ انھیں ہمارے اندازے کے مطابق پانچ بجے اوتھل پہنچ کر کزن کے گھر جانا تھا لیکن وہ جب نہیں پہنچے تو میرے کزن نے فون کر کے پوچھا کہ یہ لوگ ابھی تک کیوں نہیں پہنچے۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے تینوں سے فون پر رابطے کی کوشش کی لیکن ان کے فون بند جارہے تھے جس پر ہم شدید تشویش میں مبتلا ہوگئے۔

‘جب صبح مسافر کوچ کو پیش آنے والے حادثے کے بارے میں پتہ چلا تو ہم نے معلومات کی تو معلوم ہوا کہ وہ تینوں ان چند افراد میں شامل نہیں تھے جو اس حادثے میں بچ گئے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کم عمر ہونے کے ناطے تینوں سے ہمارے خاندان کے لوگ بہت زیادہ پیار اور محبت کرتے تھے اس لیے جب ان کی اس دنیا میں نہ رہنے کی خبر ہم پر پہنچی تو یہ ہمارے خاندان کے لیے قیامت سے کم نہیں تھی۔

انھوں نے بتایا کہ اس شاہراہ پر حادثات بہت ہوتے ہیں اور ہر سال لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہلاک اور زخمی ہوتی ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔

حادثے کا مقدمہ ڈرائیور اور بس مالکان کے خلاف درج

مسافر کوچ کو پیش آنے والے حادثے کا مقدمہ بیلہ پولیس سٹیشن میں پولیس انسپکٹر عبدالجبار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے نقل کے مطابق مقدمہ مسافر کوچ کے دو مالکان اور واقعے میں ہلاک ہونے والے بس کے ڈرائیور سید سلیم احمد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

پولیس حکام نے یہ مقدمہ حادثے میں زخمی ہونے والے سلیم احمد کے بیان کی روشنی میں درج کیا ہے جن کا تعلق کوئٹہ شہر میں سرکی روڈ سے ہے۔

زخمی ہونے والے مسافر نے پولیس کو بس کی خرابی کے بارے میں کیا بتایا؟

ایف آئی آر کے مطابق سلیم احمد نے علاقے کے ڈی ایس پی کے روبرو بتایا کہ ‘تکنیکی خرابی کے باعث گاڑی ہچکولے کھارہی تھی اور ڈرائیور وقفے وقفے سے بریک لگا رہا تھا’۔

‘مسافروں نے ڈرائیور کو گاڑی کو ٹھیک کرنے کا کہا تو ڈرائیور نے کہا کہ وہ مالکان سے بات کرتے ہیں۔‘

ایف آئی آر میں درج زخمی مسافر کے مطابق ‘ڈرائیور گاڑی سے اتر گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر اپنی سیٹ پر یہ کہہ کہ بیٹھ گیا کہ مالکان نے انھیں ہدایت کی ہے کہ سفر جاری رکھو گاڑی کی خرابی کو کراچی میں ٹھیک کریں گے۔

ایف آئی آر کے مطابق خرابی کے باوجود گاڑی کو چلا کر ڈرائیور نے غفلت اور لاپراہی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث کوچ حادثے کا شکار ہوئی اور اس میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق لسبیلہ میں کوچ حادثے پر وزیراعلیٰ بلوچستان کے فوری تحقیقات کے احکامات پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے اور لسبیلہ میں بس حادثے سے متعلق پولیس نے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے واقعہ کے محرکات سامنے لانے سے متعلق واضع احکامات دیے تھے۔

حادثہ کہاں پیش آیا؟

ڈپٹی کمشنر لسبیلہ مراد خان کاسی نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ بس کو حادثہ نمی لنگڑا پل پر پیش آیا اور حادثے کے ساتھ ہی بس میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔

ایک بیان میں ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ ‘اطلاع ملتے ہی فائر بریگیڈ کا عملہ جائے حادثہ پر پہنچ گیا تھا اور آگ پر قابو پانے کے لیے کوششوں کا آغاز شروع کر دیا گیا تھا۔

ایس ایس پی لسبیلہ اسرار عمرانی نے بتایا کہ ‘یہ حادثہ علی الصبح ساڑھے تین بجے کے قریب پیش آیا اور ریسکیو ٹیمیں تین بج کر پچاس منٹ تک موقع پر پہنچ گئی تھیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ آگ زیادہ تھی اس لیے اس پر قابو پانے میں اچھا خاصا وقت لگ گیا۔

یہ بھی پڑھیے

تاندہ ڈیم میں کشتی الٹنے سے 11 اموات: ’میرا بیٹا پانی میں ہے تو میں کیسے گھر جاسکتا ہوں؟‘

لسبیلہ کوچ حادثے میں 41 افراد ہلاک: ’بس پل کی ریلنگ کے ساتھ چند میٹر تک رگڑ کھاتی رہی‘

پورے پاکستان میں بجلی کیوں چلی جاتی ہے اور بحالی میں اتنا وقت کیوں لگ جاتا ہے؟

مسافر کوچ میں کتنے لوگ سوار تھے اور عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

لسبیلہ میں ایدھی ریسکیو آپریشن کے انچارج حکیم لاسی ان لوگوں میں شامل تھے جو کہ پہلے ہی حادثے کے مقام پر پہنچ گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ بس میں خوفناک آگ لگی تھی اور مسافر کوچ مکمل طور پر اس کی لپیٹ میں آ گئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’فائر بریگیڈ کے عملے نے جب آگ بجھا لی تو کُولنگ کے عمل کے بعد لاشوں کو نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تاہم بس کے ملبے کو ہٹانے کے لیے کرین بھی منگوائی گئی۔’

ان کا کہنا تھا کہ ’لاشوں میں سے دو کی شناخت ہو چکی ہے جن کا تعلق کوئٹہ سے تھا اور انھیں کوئٹہ روانہ کر دیا گیا ہے جبکہ 38 لاشوں کو کراچی منتقل کیا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ زخمیوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔
ایس ایس پی لسبیلہ اسرار عمرانی نے بتایا کہ ‘کوچ کمپنی نے جو فہرست بھیجی اس میں مسافروں کی تعداد کم تھی۔

بس میں حادثے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد زیادہ تھی۔ میرے اندازے کے مطابق کوچ میں 44 لوگ سوار تھے۔ ہو سکتا ہے بعض لوگ راستے میں سوار ہوئے ہوں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘حادثے میں مجموعی طور پر 41 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 40 جائے وقوعہ پر ہلاک ہوئے جبکہ ایک زخمی نے کراچی منتقلی کے دوران راستے میں دم توڑ دیا۔’

انھوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’38 لاشیں بس کے اندر سے نکال لی گئیں جبکہ دو افراد ایسے تھے جو زخمی حالت میں بس سے باہر نکلے تھے لیکن باہر نکلنے کے باجود ہلاک ہو گئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ‘چار افراد زخمی تھے جن کو کراچی منتقل کیا جا رہا تھا کہ ان میں سے ایک راستے میں دم توڑ گیا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments