شارٹ کٹ کی پالیسی اور ہماری تنزلی


ہر ذی شعور شخص فکر مند ہے کہ ہمارے پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ریورس گیئر کیوں لگا ہوا ہے۔ قومیں ترقی کر رہی ہیں اور اسلامیان پاکستان ہیں کہ پستی کی طرف بھاگے جا رہے ہیں۔ قطعی طور پر بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ اس میں ہماری شارٹ کٹ پالیسی یا طرز فکر کا بھی بہت عمل دخل ہے جو شروع سے ہی ہماری قومی پالیسی بن چکی ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ہماری قوم آگے بڑھنے کے مروجہ طریقہ کار کے علاوہ ہر معاملے میں شارٹ کٹ کی پالیسی اختیار کرتی نظر آتی ہے۔

تعلیم، سیاست، مذہب، سفر، نوکری یا ملازمت میں ترقی، محبت ہو یا کاروبار ہم ہر کامیابی کے لئے باقاعدہ پلاننگ اور طبعی طریقہ سے ہٹ کر شارٹ کٹ طریقے سے کامیابی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں۔ برصغیر میں آٹھ سو سال دیگر قوموں کے ساتھ اکٹھے رہنے کے بعد ہمیں محسوس ہوا کہ یہاں ہمارا دین اور وجود خطرے میں ہے، سو اس کا شارٹ کٹ حل ہم نے ایک علیحدہ ملک حاصل کرنے میں ہی سمجھا جسے ہم نے بنانا تو اسلام کی ”تجربہ گاہ“ تھا لیکن کچھ ”پکے مسلمانوں“ نے عملاً اسے اسلام کی ”چراگاہ“ بنا دیا ہے۔

اس قیمتی چراگاہ کی حفاظت کا شارٹ کٹ طریقہ ہمیں نے ایٹم بم میں ڈھونڈا اگرچہ بصورت دیگر ہم سوئی بھی نہیں بنا سکے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہم نے اگر دل لگا کر کسی فیلڈ میں محنت کی ہے تو وہ ایک ایٹم بم کی تیاری میں کی ہے اور دوسرے انتہا پسندانہ عناصر کی تیاری میں۔ اکثر طالبعلم خواہ وہ ابتدائی مراحل کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں یا اعلٰی تعلیم، امتحان کی باقاعدہ تیاری کی بجائے آخری چند روز میں مخصوص قسم کی گائیڈز اور جوابات رٹ کر کامیابی حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور بڑے فخر سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم نے کیسے امتحان پاس کیا بھلے اس عمل سے علم و شعور حاصل ہو یا نہ ہو یہ ان کا درد سر نہیں، بس ڈگری ملنا ضروری ہے۔

پھر رونا روتے ہیں نوکریاں نہ ملنے کا ۔ کوئی انھیں بتلائے کہ اس مقابلہ جاتی دور میں محض ڈگری کا حامل ہونا نوکری کی ضمانت نہیں ہو سکتا۔ یوں تو سیاست کو عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اس عبادت کے نتیجے میں ملنے والی ممکنہ ”جنت“ کے حصول کا ہر وہ شخص خواہاں ہے جس کے پاس کچھ دولت ہو یا وہ کسی ”صاحب کرامات“ کا مصاحب ہو۔ رہ گئی اہلیت، قابلیت، کردار، تعلیم اور وژن تو ان اوصاف کی بھلا قوم کی لیڈری اور رہنمائی کے لئے کیا ضرورت ہے؟

پیسہ خرچ کیجئے خواہ حلال کا ہو یا حرام کا اور شارٹ کٹ طریقے سے قوم کی لیڈری کیجئے اور اپنی انویسٹمنٹ کو کئی گنا ڈبل کیجئے۔ عزت کمانے کا شارٹ کٹ بھی یہی ہے کہ جیب میں پیسہ ہو تو آپ عزت خرید بھی سکتے ہیں اور چاہیں تو کسی کی عزت کی قیمت بھی لگا سکتے ہیں یہاں تک کہ کسی کی عزت بیچ بھی سکتے ہیں۔ پیسہ چاہے حلال کا ہو یا حرام کا اس ملک میں میں آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ خوب دل لگا کے لوٹ مار کریں چاہے لوگوں کو راستے سے ہی کیوں نہ ہٹانا پڑے، دھڑلے سے لوگوں کی زمینوں اور پلاٹوں پر قبضے کیجئے کوئی بھی آپ کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔

اپنے ناجائز کاموں کو جائز کرنے کے لئے شارٹ کٹ طریقہ یہ ہے کہ جج خریدیں، بیوروکریٹ خریدیں، پولیس خریدیں حتی کہ دانشوروں کی خدمات حاصل کریں آپ کو اکثریت ”فار سیل یا لوٹ سیل“ کے کتبے پہنے ملے گی۔ قیمت لگاتے جائیں اور مال کماتے جائیں اور جب خوب مال بنا لیں تو مخیر حضرات بن کر لوگوں سے لوٹے ہوئے مال کا کچھ حصہ ان پر خرچ کر کے احسان جتائیں، نیک نامی کمائیں اور جنت کا ٹکٹ پائیں اللہ اللہ خیر سلا۔ ہم تو ایسے دور اندیش ہیں کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی فیصلہ کر لیا کہ کیا ضرورت ہے دھیرے دھیرے ترقی کرنے کی، اس کی بجائے کیوں نہ کچھ امیر اور طاقت ور قوموں سے دوستی گانٹھ لی جائے تاکہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔

سو ہم نے محنت اور جدوجہد، خود انحصاری جیسے مشکل کاموں میں پڑنے کی بجائے کشکول اٹھا لیا اور امریکہ اور مغربی ممالک سے امداد لینا شروع کر دی۔ اب چونکہ ہمیں مفت کھانے کی عادت پڑ چکی تھی اس لیے امداد قرضوں کی صورت میں بھی حسین لگنے لگی کہ اس سے قوم کی ترقی ہو نہ ہو اپنی ترقی تو لازم ہے۔ اب ہم سود در سود پر قرضہ لیتے ہیں اور اسی قرضے سے ان ممالک سے اشیاء درآمد کر کے دوبارہ ان کے خزانے بھر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی اک دن۔

ہمارے حکمران ماشا اللہ اتنے صاحب بصیرت ہیں کہ ملک چلانے کے لئے بھی شارٹ کٹ کا سہارا لیتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔ تو صاحبو! اس کا طریقہ یہ ہے کہ ملک کے دو سو یا تین سو اداروں کے اوپر اپنے من پسند اور وفادار (جو یقیناً اہلیت اور قابلیت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں کیونکہ ان کی تقرری ایک عقل کل نے کی ہوتی ہے جسے عوام نے اس کام کے لئے و وٹ دیے ہوتے ہیں ) سربراہ مقرر کر دو اور چین کی بانسری بجاؤ، ادارے بھلے تباہ ہوتے ہیں ہو جائیں پر اپنی طبع نازک پہ کچھ گراں نہ گزرے۔

جتنی بڑی پارٹی اتنا بڑا ٹکٹ کا ریٹ۔ قوم جائے بھاڑ میں کچھ لوگوں کا تو شارٹ کٹ لگا، دینے والے کا بھی بھلا اور لینے والے کا بھی بھلا۔ واہ! کیا شاندار بارٹر ٹریڈ ہے۔ ہم تو سفر تک میں شارٹ کٹ کے قائل ہیں خواہ شارٹ کٹ والا راستہ کتنا ہی خراب یا خطرناک ہو۔ بجلی کا شارٹ کٹ ہم نے ماشاء اللہ سے مستقل طور پر آئی ڈی پیز کی صورت میں ڈھونڈا ہوا ہے، بھلے بجلی کتنی ہی مہنگی کیوں نہ بنے اور لوکل انڈسٹری چاہے بند ہی کیوں نہ ہو جائے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پراڈکٹس موجود ہیں نہ ان کی کمی پوری کرنے کے لئے۔

جی ڈی پی کی شرح بہتر کرنے کا شارٹ کٹ اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی رقومات کی صورت میں موجود ہے، برین ڈرین ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ نوکری کے لئے تو یہاں چلتا ہی شارٹ کٹ ہے یعنی سفارش یا پیسہ۔ وہ تو بھلا ہو پنجاب کے ایک سابقہ خادم کا کہ انھوں نے ایجوکیٹرز اور کچھ دیگر محکموں میں سخت میرٹ کی پالیسی پر عمل کرایا اور کسی حد تک شارٹ کٹ کلچر کو لگام دی ہے۔ یا پھر یوں بھی ان بے ضرر قسم کی سیٹوں پہ میرٹ پر تعیناتی ہو جائے تو کون سا ان لوگوں نے حکومتی فیصلوں اور پالیسیوں پر اثر انداز ہو جانا ہے جبکہ حکومت کی کچھ نیک نامی بھی مفت میں بن جاتی ہے۔

اب تو سننے میں آ رہا ہے کہ نوکریاں دینے والے کمیشن بھی اپنے آپ کو اسم با مسمیٰ ثابت کرنے پہ تلے ہوئے ہیں اور شارٹ کٹ کے قائل صاحب استطاعت یار لوگ یہاں اعلی نوکریوں کے لئے کمیشن دے کے مستقبل میں اپنے آپ کو ”کمیشن“ کے اہل ثابت کر سکتے ہیں۔ شارٹ کٹ سے اعلٰی ملازمتوں کے لئے ایڈوانس بکنگ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کلچر کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔ صرف اسی پہ بس نہیں ہم تو محبت میں بھی شارٹ کٹ کے قائل نظر آتے ہیں۔

اخبارات میں روز ہی نظروں سے خبریں گزرتی ہیں کہ کسی دوشیزہ نے یا نوجوان نے محبت میں دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی وغیرہ وغیرہ، یعنی دوسرے لفظوں میں خود کشی محبت ”حاصل“ کرنے کا شارٹ کٹ ٹھہری۔ ان خود کشی کرنے والوں کے پاس شاید شارٹ کٹ طریقے سے محبوب قدموں میں ڈالنے والے عاملین کی فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی ہو گی۔ اور شارٹ کٹ سے جنت کمانے اور ستر حوروں کا پروانہ لینے کا ہنر تو کوئی ہم سے سیکھے، اس کے لئے بس آپ کو بارود بھری جیکٹ کا ایک بٹن دباکر اپنی مسلمانی ثابت کرنا ہو گی۔

آپ کو بھی اکثر موبائل پہ میسج ملتے ہوں گے کہ فلاں وظیفہ پڑھو تو جنت میں فلاں جگہ پلاٹ ملے گا یا اتنا ثواب ملے گا، اب عمل کرنے کا کشٹ کون اٹھاتا پھرے جب ثواب اور جنت میں پلاٹ اور محل بنانے کا شارٹ کٹ طریقہ موجود ہے۔ چوری کرو اور راہ خدا میں ایک دیگ کر دو ، ڈاکا ڈالو اور حج کر لو، مدرسے کو چند ہزار کا چندہ دو اور لاکھوں کا ٹیکس بچاؤ۔ بجلی اور گیس چوری کرو اور بل بچاؤ، کروڑوں دے کے سینیٹر بنو اور اربوں کے ترقیاتی فنڈ حاصل کر کے سرمایہ کری کھری کرو۔

کاروبار کرنا ہو تو بھی دنوں میں شارٹ کٹ طریقے سے امیر بننا چاہتے ہیں اور اپنی انویسٹمنٹ کے بدلے میں ڈبل شاہ فارمولے کے تحت منافع کمانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے پسندیدہ ترین کاروبار زمینوں پر قبضہ، رہائشی کالونیاں اور ٹھیکے ہیں کہ یہ دولت کمانے کا سب سے زیادہ شارٹ کٹ ہیں۔ اور اگر صاحب اختیار ہوں تو پہلے کسی بینک کا ”دیوالیہ“ نکلوائیں اور پھر خود کو دیوالیہ ڈکلیئر کر کے شارٹ کٹ کے ثمرات سے فائدہ اٹھائیں۔

عدلیہ، تھانے، سرکاری دفاتر ہر جگہ شارٹ کٹ طریقے سے کام کرانے کی سہولیات موجود ہیں اور ہمارے اداروں میں اس کام کے لئے باقاعدہ کنسلٹنٹ موجود ہیں جو معاملات کی سیٹنگ کے عوض مشورہ فیس لیتے ہیں۔ کہیں تبادلہ کرانا ہو، کوئی فائل نکلوانی ہو، کہیں ڈیپوٹیشن کرانی ہو یا پروموشن کرانی ہو ان کنسلٹنٹس کو ”مشورہ فیس“ دیں اور یہ شارٹ کٹ طریقے سے آپ کا کام کرا دیں گے۔ بس آپ کو اپنی جیب ہلکا کرنے کے لئے خود کو آمادہ کرنا پڑے گا اسلامی جمہوری پاکستان میں سب کچھ شارٹ کٹ سے ممکن ہے۔ ارے یاد آیا ہماری کرکٹ ٹیم بھی تو ”شارٹ کٹ“ اور بے تکی شارٹس کی بدولت ہی اکثر میچ ہار جاتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments