دائرے


زندگی مشکل نہیں، انسانوں کی غلطیاں بار بار ایک ہی جیسی غلطیاں اور ترجیحات اسے مشکل بناتی ہیں۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی زندگیاں مشکل یا بوجھل ہیں ان سے قربت رکھنے والے خوش و خرم افراد بھی اضطراب اور یاسیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

”چاچی، کوئی نیا کام ڈھونڈ دو نا، تمہاری اتنی جان پہچان ہے۔ کہیں بھی کام کر لوں گی۔“ روبینہ نے پان چباتی حوا چاچی کے گھٹنے دباتے ہوئے خوشامدی لہجے میں کہا۔ کراچی میں مئی کی جھلساتی گرمی کا غضب ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اور روبینہ اسی لو اور گرمی میں پچھلے چار پانچ دن سے مسلسل حوا کے گھر کے چکر کاٹ رہی تھی۔ بوڑھی حوا پچھلے بیس، پچیس سال سے گھروں میں کپڑے دھونے، جھاڑو پونچے کا کام کرتی تھی اور اپنے تعلقات کی بنا پر آبادی کی ماسیوں کے لیے ریکروٹمنٹ ایجنسی جیسی حیثیت رکھتی تھی۔

جب سے چھریرے بدن کی پینتیس سالہ روبینہ کی بڑی لڑکی باقی کے چھ چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالنے لائق ہوئی تھی، اسے کمانے کا شوق چرایا تھا۔ شوہر کی فیکٹری کی کمائی میں بس گھر کا کرایہ پورا ہو رہا تھا اور ایک آدھ وقت کی روٹی مل جاتی ورنہ مانگ تانگ کر ہی گزارہ ہوتا تھا۔ شوہر نے قوم کی خدمت کے لیے بچوں کی تعداد تو خوب بڑھا لی تھی مگر کمائی بڑھانے کے لیے مزید کوئی ہاتھ پیر مارنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ فیکٹری سے واپس آ کر گلی کے نکڑ پر دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا اور اس کی اس تفریح کے دوران آندھی آئے یا طوفان اس کی بلا سے۔

یہ بھی حوا چاچی کی مہربانی تھی کہ وہ جن گھروں میں کام کاج کرتی تھی، وہاں سے اسے جو کچھ بچا کچا کھانا، کپڑے لتے ملتے تھے، ان میں سے اپنے کام کے رکھ کر باقی اسے دے دیتی تھی۔ اپنا میکہ سسرال دور تھا اس لیے حوا چاچی ہی اس کا سسرال، اس کا میکہ، اس کی گائیڈ، یوں کہیے کے ہر مرض کی دوا تھی۔ اس کی کڑوی کسیلی باتیں بھی وہ بہت مودب ہو کر سنتی تھی۔

”چل لچی! پہلے جن دو گھروں میں تجھے کام دلایا تھا، وہاں سے تو نخرے کر کے چھوڑ آئی، ہونہہ۔“ حوا نے اس کی طرف دیکھے بغیر اسے جھڑکا۔

”چاچی، وہ باجیاں تو ، تو نے دیکھی ہیں۔ کیسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بے عزتی کرتی ہیں۔ ان کے گھرکا گند صاف کرتی تھی تو کیا میری کوئی عزت نہیں۔ اچھا! تو کہتی ہے تو بے عزتی بھی برداشت کر لوں گی، لیکن چاچی ابھی بہت ضرورت ہے، دو مہینہ کا مکان کا کرایہ چڑھ گیا ہے۔ بہت تنگی ہو رہی ہے۔ سچی میں۔“ اس نے لجاجت سے کہا۔

” انسان کو روٹی کے لالے پڑے ہوں کیا عزت کیا بے عزت، بس پیٹ میں روٹی ہونا چاہیے۔ اب صبر کر ، جب کوئی نیا کام معلوم پڑے گا تو بولوں گی۔ “ حوا نے کہا۔ ”چل اب صحیح سے ٹانگیں دبا“ ، اور یہ کہے کر چٹائی پر لیٹ کر پاس پڑا تکیہ اپنے سر کے نیچے کھسکایا اور ٹانگیں سیدھی کر لیں۔

دو ہفتے بعد ہی حوا نے روبینہ کو ایک گھر میں کام پر لگوا دیا۔ ”سن، ایک نہیں کئی کام ہیں۔ تیرا ایک گھر میں ہی کام کر کے گزارا ہو جائے گا، باقی وقت اپنے بچے سنبھال لیجیو۔ یونہی ننگ دھڑنگ رلتے پھرتے ہیں گلی میں۔ باجی کی تعریف سنی ہے کہ دل کی اچھی ہے۔ بنا کر رکھنا۔ “ حوا چاچی نے خلاف توقع رسان سے ہدایت کی۔

جس گھر میں اسے کام ملا وہ اچھی سوسائٹی میں تھا۔ خاتون خانہ تیس، بتیس برس کی نئی شادی شدہ مریم، کم گو مگر مہذب خاتون تھی۔ زیادہ تر اکیلی ہوتی تھی، اس کا شوہر کسی وقت رات میں آتا تھا اور خود وہ زیادہ تر اپنی ڈرائنگز بنانے میں مصروف رہتی تھی۔ روبینہ نئے ماحول میں بہت خوش تھی بلکہ تنخواہ سے زیادہ کام کر دیتی تھی۔ ضرورت سے زیادہ مریم کے گھر وقت گزارنے کی اصل وجہ بس اسے خود ہی معلوم تھی۔ چائے کا بڑا سا کپ، جو وہ جاتے ہی خود بنا کر پیتی، اور مسلسل آتی بجلی، پانی اور چپکے چپکے باجی فیس واش سے منہ دھونے اور کبھی کبھار خوشبودار شاور جیل سے نہانے کے بعد اس کا اپنے گھر واپس جانے کو دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ کبھی کبھی باجی اس کی ایسی چھوٹی موٹی عیاشیاں اور غلطیاں بالکل نظر انداز کر دیتی تھی جو وہ کہیں اور کرتی تو خوب ڈانٹ پڑتی۔ اکثر اس کے ذہن میں خیال گزرتا کہ باجی اچھی زیادہ ہے یا بے وقوف۔

مریم گھر کے سارے کام وقت پر اور خوش اسلوبی سے ہونے کی وجہ سے مطمئن تھی۔ شادی سے پہلے اس کی ماں نے تو کبھی کام والی نہیں رکھی تھی لیکن آس پڑوس سے، سہلیوں سے کام والی ماسیوں کی بے وقت چھٹیوں، ہر وقت مانگنے تانگنے کی بری عادتوں سے متعلق سنتی رہتی تھی، اس لیے وہ ماسی رکھتے گھبراتی تھی۔ لیکن شوہر کے اصرار اور کام کی زیادتی کے باعث اس نے ماسی کو رکھ لیا تھا۔

پانچ مہینے کے بعد ، مریم کے پہلے بچے کی آپریشن سے پیدائش ہوئی۔ پوسٹ پارٹم ڈپریشن نے مریم کو چڑچڑا، بیزار اور لاپروا کر دیا تھا اور اس دوران روبینہ نے اس کی بہت خدمت کی۔ اب کھانا بھی وہ بنانے لگی تھی۔ ”کھانا کیا بناؤں باجی؟“ یہ سوال کرنے کے بعد جب اسے مضمحل مریم کے چہرے پر بیزاری نظر آتی تو وہ فوراً ہی اپنی پسند کی درجن بھر ڈشز کا نام لے دیتی تھی جنہیں اس نے پہلے سے سوچ رکھا ہوتا تھا اور ان کھانوں کو چکھے، اسے زمانے ہو چکے تھے۔

بعض اوقات مریم خود ان میں سے کسی ڈش کو فائنل کر دیتی اور بعض اوقات اسے ہی کہے دیتی کہ جو جی میں آئے بنا لے۔ مریم کے باورچی خانے کی الماری میں بھرے مصالحوں کے ڈبے اس کا پہلے ہی کافی دل للچاتے تھے۔ اب اس کو کھلی چھٹی مل گئی تھی۔ اس کے دل میں ایک آدھ بار خیال گزرا کاش! باجی یونہی صاحب فراش رہے اور وہ آزادی سے باورچی خانے پر راج کرے، لیکن خود ہی اس شیطانی خیال پر توبہ توبہ کر کے تصور میں ہی خود کو چپت بھی لگائی۔

مکمل صحت یاب ہوتے ہی خدمت کا صلہ اسے مریم نے پورا دیا۔ وہ رمضان کا آخری عشرہ تھا اس نے کہا، ”روبینہ، تم نے ایک بار ذکر کیا تھا کہ تمہارا شوہر فیکٹری کی نوکری چھوڑ کر اپنا چپس سموسے کا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے۔ یہ زکواۃ کے کچھ پیسے ہیں۔ شوہر سے کہنا دانشمندی سے خرچ کرے۔ “ اور روبینہ کے ہاتھ میں بیس ہزار روپے پکڑا دیے۔ ”روبینہ تم نے میرا خیال رکھا ہے۔ مجھے تمہاری ذمہ داری اور محنت کی قدر ہے۔ آگے بھی ایسے ہی کام کرتی رہنا۔ مجھ سے تمہاری جو مدد ہو سکی میں ضرور کروں گی۔ “

صرف ڈانٹ پھٹکار، دھتکار کی عادی روبینہ کے ہونٹ ہمدردی کے راحت آمیز بول سن کر مسکراہٹ اور تحیر کی آمیزش سے تھرتھرا رہے تھے اور وہ باجی کو ایسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی جیسے اگر نظر ہٹائی تو وہ ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔ شاید اسی خوف اور خوشی سے مغلوب ہو کر اس نے مریم کے ہاتھ تھام لیے۔

”باجی، اللہ تمہیں خوش رکھے۔ تم نے میری کتنی بڑی مشکل آسان کر دی ہے۔ میں ساری عمر تمہیں دعا دوں گی، میرے بچے تمہیں دعا دیں گے۔ “ اس نے پیسے بٹوے میں دبائے اور گھر سے تیزی سے نکل گئی۔ اس کے پیر زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ باجی کے گھر سے اپنے گھر تک پہنچتے پہنچتے وہ اپنے سپنوں میں کام والی ماسی سے باجی بن چکی تھی۔

اگلے دن وہ کام پر نہیں آئی۔
دوسرے دن بھی نہیں۔
تیسرے دن بھی نہیں۔

بغیر اطلاع، یوں اچانک اس کی غیر حاضری نے مریم کو انتہائی ڈپریس اور شدید جھنجھلاہٹ کا شکار کر دیا۔ کئی بار اس نے حوا کو فون کیا مگر وہ بھی صرف اتنا بتا سکی کہ اس کے گھر تالا پڑا ہے، اور روبینہ کے پاس تو فون نہیں مگر اس کا نٹھلا شوہر بھی فون نہیں اٹھا رہا۔ بے بسی سے وہ کئی بار باورچی خانے میں چپکے چپکے روئی۔ کئی ماہ بعد گھر سارے کام نبٹانا مشکل ہو رہا تھا ساتھ ساتھ کسی کے ہاتھوں بے وقوف بن جانے کا احساس کچوکے لگا رہا تھا۔ دو تین دن مشکل سے گزرے، پھر اسے بھی دھیرے دھیرے کچھ صبر آ گیا۔

مگر پندرہ دن بعد اچانک وہ اپنے معمول کے وقت کام پر آ گئی۔ اس کی چال ڈھال ہی بدلی ہوئی تھی۔ چہرے پر غازہ اور سرخ لپ اسٹک ہونٹوں پر لتھڑی اور ہونٹوں کے دونوں کناروں سے باہر پھیل رہی تھی۔ کپڑے ملگجے لیکن نئے لگ رہے تھے۔ اس کی چوٹی میں آج پراندہ بھی تھا۔

جیسے ہی مریم کو اس کی صورت نظر آئی اس کا سر غصے کی حدت سے دہکنے لگا۔ اس کا دل چاہا کہ روبینہ کا منہ نوچ لے، یا دیوار پر سر دے مارے۔

” کہاں مر گئی تھی؟ تجھے ذمہ داری کا کوئی احساس نہیں؟ بتا کر نہیں جا سکتی تھی۔ “ غصے سے اس کے منہ سے کف اڑ رہا تھا اور الفاظ لڑکھڑا رہے تھے۔ جس عورت کو اس نے اپنے آرام کی خاطر رکھا وہ اس کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنی، اسے ایک فون کر کے اطلاع دینے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی، یہ سوچ سوچ کر اس کا طیش بڑھتا جا رہا تھا۔

” آ تو گئی ہوں، باجی۔“ اس نے اٹھلا کر مریم کا بازو اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام کر لاڈ سے کہا۔ اسے مریم کے غضب کا اندازہ نہیں تھا شاید۔ مریم نے اس کا ہاتھ زور سے جھٹک کر پرے دھکیلا تو روبینہ کو صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ اس نے مریم کے غصے سے لرزتے کندھے پکڑ کر بیڈ پر بیٹھا یا اور خود نیچے بیٹھ کر اس کے پیر دبانے لگی۔

”باجی مجبوری تھی۔ شوہر کے رشتہ داروں میں فوتگی ہو گئی تھی۔ گاؤں جانا پڑا، پھر وہ بولا سال ڈیڑھ سال بعد آئے ہیں تو کچھ دن اور ٹھہر جاتے ہیں۔“ اس نے دھیمے لہجے میں نظریں جھکائے ہوئے کہا۔

شوہر کے ذکر پر مریم کو یاد آ گیا کہ میں نے تو اسے اپنا کام شروع کرنے کے لیے پیسے بھی دیے تھے۔

” تمہارے شوہر کے لیے میں نے تمہیں پیسے دیے تھے۔ اس نے ٹھیلا خریدا؟ کوئی کام شروع کیا؟ اس نے سوال کیا۔

مریم کی ٹانگیں دباتے ہوئے اس کے ہاتھ اچانک چند لمحے کے لیے رک گئے اس کی نگاہیں اب بھی نیچے تھیں۔ ”باجی، پیسے تو خرچ ہو گئے۔“ اس نے جواب دیا۔ حیرت انگیز طور پر اس کے چہرے پر مسلسل مسکراہٹ تھی۔

”کیا۔ ؟ کہاں؟“ اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ مریم کو اس صاف جواب کی توقع ہر گز نہیں تھی۔ پندرہ دن بعد وہ نوکری پر واپس آئی تھی، اس طرح کھرا جواب دینے کے بجائے وہ اس سے جھوٹ بول سکتی تھی، ٹال مٹول کر سکتی تھی، اطمینان دلا سکتی تاکہ باجی مزید مشتعل نہ ہو جائے، اس کی طبیعت نہ خراب ہو جائے۔ مگر نہ جانے کیوں وہ کس خوشی میں سرشار سفاکی سے سچ بول رہی تھی۔

” میرپور خاص میں، میرے شوہر کی بھابی کا بھتیجا فوت ہو گیا تھا۔ جس دن آپ نے پیسے دیے، اسی شام فون آیا تھا۔ ہم سب وہاں پرسے کے لیے چلے گئے۔ باجی تمہیں تو پتا ہے، کرائے کتنے بڑھ گئے ہیں، سارے پیسے آنے جانے میں خرچ ہو گئے۔“

”روبینہ! تیرا دماغ خراب ہے کیا؟ اپنی اوقات بھول گئی۔ پائی پائی کو تو محتاج ہے، بچے اور تیرے گھر گھر کھا نا مانگتے پھرتے ہیں، کپڑے تمہیں لوگ دان دیتے ہیں اور تم نے پوری رقم ایک تعزیت پر ، ایک مردے پر خرچ کر دی۔ مروں کا خیال ہے، زندوں کی تمہیں کوئی فکر نہیں؟“

اب تک روبینہ کے چہرے پر مسلسل دھیمی سی مسکراہٹ تھی، لیکن مریم کی بات مکمل ہونے تک اس کے چہرے پر یک دم کرختگی چھا گئی۔ اس نے شعلہ بار نگاہوں سے حمیرا کو دیکھا اور سپاٹ لہجے میں کہا، ”باجی عزت کا معاملہ تھا، اگر نہ جاتے تو لوگ کیا کہتے؟“

اس کی دیدہ دلیری نے مریم کو خوفزدہ کر دیا۔ اس لمحے نہ وہ حالات کی ماری لگتی تھی نہ جواب دہی کے خوف سے سہمی ہوئی۔

حمیرا کافی دیر اسے بنا کچھ کہے تکتی رہی۔ چند لمحوں بعد منہ پھیر کر وہ صرف دو جملے کہے سکی۔ ”آج کا کام نبٹاؤ اور کل سے کام پرمت آنا۔“

آج کل روبینہ اور اس کا میاں دونوں پھر فارغ ہیں۔ روبینہ کا وقت ناراض حوا کی موٹی ٹانگیں دبانے اور منتیں کرنے میں گزرتا ہے اور اس کے شوہر کا گلی کے نکڑ پر ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments