’پونزی سکیم‘ سے ملک نہیں چلتے


ابھی سڑکوں پر گاڑیاں دوڑ رہی ہیں، ابھی شاہراہوں پر روشنیاں جگمگا رہی ہیں، ابھی ہمارے ریستوران آباد ہیں، شہروں کی رونقیں قائم ہیں، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہے، لوگ امپورٹڈ کافی اور کتوں کی خوراک خرید رہے ہیں، ابھی پٹرول، بجلی اور گیس دستیاب ہے، ابھی قلت کی صرف افواہیں ہیں کسی چیز کی قلت نہیں ہوئی، مہنگی ہی سہی مگر اب بھی ملک میں ادویات مل رہی ہیں، ابھی خوراک کی راشن بندی نہیں ہوئی اور ابھی لوگ فاقوں سے مرنے شروع نہیں ہوئے۔

ایسے میں کوئی غیر ملکی اگر دوچار دن کے لیے ہمارے ملک میں آئے تو اسے یہ اندازہ نہیں پائے گا کہ اِس ملک کے پاس آج کی تاریخ میں اپنے ذاتی فقط پانچ سو ملین ڈالر کے ذخائر رہ گئے ہیں (پانچ سو ملین کے لیے ذخائر کا لفظ کچھ عجیب سا لگتا ہے ) ۔ اُس غیر ملکی کو ہماری زندگی بالکل نارمل لگے گی کیونکہ روزانہ دفاتر اور دکانیں تو بہرحال کھُل رہی ہیں، لوگ اپنے کام کاج کے لیے گھروں سے نکل رہے ہیں، بچے اسکول جا رہے ہیں، لوگ شاپنگ مالز میں جوتے اور کپڑے بھی خرید رہے ہیں، دکانوں پر درآمد شدہ مکھن اور چاکلیٹ بھی دستیاب ہے، سڑکوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کے بڑے بڑے اشتہارات بھی آویزاں ہیں، کاروبار زندگی معمول کے مطابق چل رہا ہے، سیاست پہلے کی طرح شہ سرخیوں میں ہے، ایک دوسرے پر الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں اور گرفتاریاں اور ضمانتیں بھی ہو رہی ہیں، پُل اور فلائی اوور بھی تعمیر ہو رہے ہیں اور جے ایف تھنڈر غیر ملکی عمائدین کو سلامی بھی دے رہے ہیں، گالف بھی کھیلی جا رہی ہے اور مہنگے ریستورانوں میں جھینگے اور امپورٹڈ مچھلی بھی کھائی جا رہی ہے۔ ایسے میں کوئی کیسے جان سکتا ہے کہ یہ ملک اب دیوالیہ ہونے کے قریب ہے؟

اپنے ملک کے بارے میں یہ الفاظ لکھنے سے پہلے میں نے بلامبالغہ کم از کم سو مرتبہ سوچا مگر کیا کروں کہ لکھے بغیر چارہ بھی کوئی نہیں۔ ہم کوئی پہلا اور آخری ملک نہیں جو معاشی بدحالی کا شکار ہے، دنیا کے کئی ممالک نے اِس قسم کے بحران کا سامنا کیا اور پھر اُس میں سے نکل بھی آئے مگر ہمارے معاملے میں تشویشناک بات یہ ہے کہ ہمیں صورتحال کی سنگینی کا ادراک نہیں، ہمارے حکمرانوں کا خیال ہے کہ یہ صورتحال نئی نہیں، ہمارا ملک پہلے بھی کئی مرتبہ اِس قسم کے بحرانوں سے گزر چکا ہے اور چونکہ ہم پر ہمیشہ اللہ کا فضل رہا اِس لیے ہم ایسے بحرانوں سے نکل آئے، اِس مرتبہ گو کہ صورتحال خاصی گمبھیر ہے مگر اللہ کے فضل سے اِس بار بھی ہم اِدھر ڈوبیں گے اور اُدھر نکل آئیں گے۔

یہ سوچ بلاوجہ نہیں ہے، اِس کا ایک پس منظر ہے جس پر بعد میں بات کریں گے۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہم یہاں تک پہنچے کیسے؟ ہم نے آج تک اِس ملک کو پونزی سکیم کی طرح چلایا ہے۔ یہ فراڈ کی قسم ہے جو ایک اطالوی فراڈیے چارلس پونزی کے نام سے منسوب ہے، اسے آپ اٹلی کا ڈبل شاہ کہہ سکتے ہیں، اُس مرد عاقل کا طریقہ واردات تو پرانا تھا مگر اُس نے ایسی خوبصورتی سے یہ سکیم چلائی کہ پھر ہر فراڈ سکیم کو پونزی سکیم کہا جانے لگا۔

ایسی سکیم میں فراڈیا شخص لوگوں کو سرمایہ کاری پر بھاری منافع کا لالچ دے کر اُس کی رقم اینٹھ لیتا ہے، مثلاً وہ کسی سے ایک لاکھ روپے لے گا اور اسے تین ماہ بعد پچاس ہزار کا منافع دینے کا وعدہ کرے گا، تین ماہ گزرنے سے پہلے وہ کسی دوسرے شخص سے ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کر والے گا اور اُس میں سے پہلے شخص کو پچاس ہزار کا منافع ادا کردے گا اور یوں اُس فراڈیے کا ساکھ بنتی چلی جائے گی، وہ نئے لوگوں سے روپے اینٹھ کر پرانے لوگوں کو منافع ادا کرتا رہے گا مگر پھر ایک وقت آئے گا جب فراڈیا یہ منافع ادا کرنے کے قابل نہیں رہے گا مگر اُس وقت سے پہلے ہی وہ لوگوں کا روپیہ لے کر رفو چکر ہو جائے گا۔

ڈبل شاہ کا طریقہ واردات بھی یہی تھا اور ہم نے بھی پاکستان کو ایسے ہی چلایا ہے۔ آپ گزشتہ دو دہائیوں کے بجٹ اٹھا کر دیکھ لیں، ہماری آمدن کم اور اخراجات ہمیشہ زیادہ ہوتے تھے، اِس کا حل ہم یہ نکالتے تھے کہ ایک ملک سے قرضہ لیتے تھے اور جب اُس قرضے پر سود کی ادائیگی کا وقت آتا تو کسی دوسرے ملک سے قرض اٹھا لیتے اور سود ادا کر دیتے، یہ کام ہم کرتے رہے اور یہ سکیم اُس وقت تک چلتی رہی جب تک ہماری درآمدات اور برآمدات میں زیادہ فرق نہیں ہوتا تھا، جو فرق ہوتا تھا اسے مہاجن سے قرض لے کریا پھر کسی جنگ میں امریکہ سے ڈالر لے کر پورا کر دیتے تھے، اِس تمام عرصے میں ہم نے نہ برآمدات بڑھانے پر توجہ دی اور نہ ہی اخراجات میں کمی کرنے کا سوچا، دنیا نت نئی ایجادات کر کے ایکسپورٹ کرتی رہی اور ہم انہی پرانے تین چار شعبوں میں جھک مارتے رہے، نتیجہ اِس نالائقی اور کام چوری کا یہ نکلا کہ آج کوئی دوست ملک بھی ہمیں مزید قرض دینے کو تیار نہیں اور ہم اپنے پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگیاں کرنے کے قابل نہیں، یہ پونزی سکیم فیل ہو گئی۔ نہ صرف یہ سکیم ناکام ہوئی بلکہ ہماری باقی تمام سکیمیں بھی پِٹ گئیں، یہ سکیمیں مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے ہم نے چلائی تھیں، جیسے سٹریٹیجک ڈیپتھ سکیم، گُڈ طالبان بیڈ طالبان سکیم، بھارت ہمارا ازلی دشمن سکیم، کشمیر ہماری شہ رگ سکیم، وغیرہ وغیرہ۔

اِس سنگین صورتحال میں ایک سوال کا جواب تلاش کرنا بے حد ضروری ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ اگر ہمارا ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے تو کیا حکمران طبقہ اِس بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی رکھتا ہے؟ اِس سوال کا سادہ جواب ناں میں ہے اور وجہ اِس ناں کی وہ سوچ ہے جس کے تحت ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے ہم پہلے بھی مشکلات سے نکلے تھے اب بھی کسی نہ کسی طرح نکل جائیں گے۔ ہمارے لا شعور میں کہیں نہ کہیں 1998 بھی ہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے، اُس وقت بھی ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر پگھل گئے تھے، ڈالر بے لگام ہو گیا تھا اور شرح سود بائیس فیصد سے بھی اوپر چلی گئی تھے، لیکن پھر خدا کے فضل سے ہم اِس بحران سے نکل آئے۔ یہ وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے ہمارا طرزِ حکمرانی اب بھی business as usual ہے۔

ہم بھول رہے ہیں کہ 1998 اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب ہمارے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار ختم ہو چکا ہے، عوام کو ہم نے جتنے چُورن بیچنے تھے بیچ چکے، دنیا کو جتنی ٹوپیاں پہنانی تھیں پہنا چکے، ہم نہ کسی کے لاڈلے بچے بچے ہیں اور نہ ہی ہم خدا کی چنیدہ قوم ہیں جس پر من و سلویٰ اترے گا، ہاں ہم بڑھتی ہوئی آبادی کا ایٹم بم ضرور ہیں جو پھٹ چکا ہے اور زندہ لاشیں چاروں طرف بکھری پڑی ہیں۔ اِن حالات سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اُن تمام غلط فہمی سے چھٹکارا حاصل کریں جو گزشتہ پچھتر برس سے ہمارے ذہنوں میں پرورش پا رہی ہیں اور اُس کے بعد وہ تمام مشکل مگر ناگزیر فیصلے کریں جو ہمیں کئی برس پہلے کر لینے چاہیے تھے۔

پہلا فیصلہ، قانون سازی کے ذریعے دو سے زیادہ بچوں پر پابندی، دوسرا فیصلہ، ہر قسم کے غیر ترقیاتی بجٹ میں پچاس فیصد کٹوتی، تیسرا فیصلہ، مراعات یافتہ طبقے کی ہر قسم کی سبسڈی اور چھوٹ کا خاتمہ، چوتھا فیصلہ، صاحب ثروت افراد پر دولت ٹیکس کا نفاذ اور پانچواں فیصلہ، ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے اعلیٰ قیادت کا ہفتہ وار اجلاس (جیسے بنگلہ دیش میں ہوتا ہے ) ۔ یہ کم سے کم کام ہیں جو فوری طور پر کرنے والے ہیں۔

آج کی تاریخ تک ہم آزاد کشمیر کو 35 ارب روپے سالانہ کی بجلی مفت دے رہے ہیں، اِس ایک مثال سے اندازہ لگائیں کہ ایسی تمام کٹوتیاں کر کے سالانہ کتنے کھرب بچائے جا سکتے ہیں! تاہم مجھے اندازہ ہے کہ عوام اور خواص دونوں کی نظر میں یہ غیر مقبول فیصلے ہیں، عوام کو ایسی تجاویز پسند آتی ہیں جو بظاہر انقلابی مگر ناقابل عمل ہوں اور خواص کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے جس سے اُن کی مراعات اور عیاشیوں پر زد پڑے لہذا مجھے ایسی کوئی خوش فہمی نہیں کہ یہ فیصلے ہوں گے مگر اتنا علم ضرور ہے کہ اگر ہم آج بھی یہ فیصلے نہیں کریں گے تو وقت ہمارے مٹھی میں سے ریت کی طرح پھسل جائے گا۔ پونزی سکیم سے ملک نہیں چلتے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments