خبردار۔ لاوا تیار


ملک پر اقتدار کے تمام ٹھیکیدار خبردار ہو۔ کہ عوام میں ملکی پالیسیوں اور اشرافیہ کے خلاف لاوا پک چکا ہے۔ اور خدانخواستہ کسی بھی وقت پھٹنے کو تیار ہے۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ میں لگی لپٹی، تمہید باندھنے، اشاروں کنایوں میں بات کرنے اور شف شف بولنے کی بجائے شفتالو کہتا ہوں کیونکہ شف شف بولنے کا وقت گزر چکا۔ سمجھنے والوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کہ اگر اب بھی نوشتہ دیوار کو نہیں پڑھا تو خدانخواستہ سب کچھ ملیامیٹ ہو جائے گا۔ میں گزشتہ چند مہینے میں ہونے والی پیش رفت کی چند مثالیں دیتا ہوں۔ اور سوال کرتا ہوں کہ کیا اس کے بعد بھی شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کر کے خود کو اور ملک و قوم کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی گنجائش ہے؟

ڈیڑھ سال قبل محروم وزیرستان سے شروع ہونے والی ٹارگٹ کلنک اور دہشتگردانہ سرگرمیاں جب چند ماہ قبل سوات پہنچی تو گویا پشتون عوام کی غیرت جاگ اٹھی اور انھوں نے صوبہ بھر میں جس انداز سے تشدد سے نفرت کا جو بے باکانہ اظہار کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو بھی ادارہ سوات کے حالات کو کسی بھی آپریشن اور بد امنی کے بغیر ختم کرنے کی طاقت رکھتا اور گر جانتا ہے وہ پورے صوبے میں حالات کو اسی طاقت اور گر سے کنٹرول کر لیتا۔ مگر افسوس کہ سوات سے تو طالبان بقول میر درد۔ درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب۔ کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے۔ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گئے مگر باقی صوبے میں تمام تر احتجاج، جلسے جلوسوں، تحریر تقریر اور تنقید کے باوجود ان کی کارروائیاں گھٹنے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی بجائے اب خواص اور اسٹیبلشمنٹ کے کل پرزے وعدہ معاف گواہ بننے کی مانند ریاستی پالیسیوں پر تنقید اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق سے برات کا اعلان کر رہی ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کی تحریریں ٹویٹس اور انٹرویو، سابق وفاقی وزیر مسلم لیگ کے رہنماء، امور خارجہ کے ماہر اور پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید کی پارلیمنٹ میں خطاب میری بات کی ثبوت کے لئے کافی ہے۔

منظور پشتین، محسن داوڑ، سردار حسین بابک، سردار اختر مینگل غدار ابن غدار ٹھہرے۔ ان کو رہنے دیجئے۔ مگر آپ کے یہ دونوں ذمہ دار اور محب وطن صاحبان سمیت سینکڑوں لوگ اس بات پر متفق ہیں بلکہ ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ ہماری افغان پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ ہمیں کھل کر اعتراف اور واضح دو ٹوک نئی پالیسی بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔

پولیس لائن دھماکے سے قبل ایک ہفتے کے اندر پشاور کے مضافات میں پولیس پر پے درپے تین حملوں نے پولیس کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کے ذمہ داروں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں صوبے کی سیکیورٹی مکمل طور پر پولیس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ اے این پی کے سردار حسین بابک کی زبانی اس مطالبے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہے کہ جب تک پولیس کو خودمختار اور ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے امن وامان کا قیام ممکن نہیں۔

دوم یہ کہ سیاسی جماعتوں کو پولیس کے علاوہ دوسروں پر اعتماد نہیں رہا۔ رہی سہی کسر پولیس لائن دھماکے نے پوری کردی۔ اس حادثے نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ مثلاً صوبے کے سب سے زیادہ سیکیور سمجھے جانے والے ریڈ زون میں خود کش بمبار اور بارود کس طرح پہنچا۔ کیونکہ پیدل داخل ہونا ممکن نہیں تھا اور پرائیویٹ گاڑیوں کو وہاں بغیر تلاشی کے داخل نہیں ہونے دیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ماہرین یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ خود کش جیکٹ میں سات آٹھ کلو سے زیادہ بارود نہیں ہوتا ہے اور سات آٹھ کلو بارود اتنی بڑی مسجد کی چھت کو اڑانے کے لئے ناکافی ہے۔

ان پیچیدہ سوالات، مہنگائی کی صورتحال، حد سے زیادہ ڈیوٹیوں اور سہولیات کی فقدان نے پولیس اہلکاروں کو اکسایا۔ وہ شکوک میں مبتلا ہو کر اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکے اور سینکڑوں کی تعداد میں اسلحہ سمیت سڑکوں پر نکل کر وہی نعرے لگائے جسے لگانے سے اب تک یہی پولیس عوام کو منع کر رہی تھی۔ جگہ جگہ عوام نے بھی پولیس سے اظہار یکجہتی کے لئے احتجاج میں ان کا ساتھ دیا۔ سوشل میڈیا پر اتحاد و اتفاق کے نعرے ایک دوسرے کی مدد اور کسی بھی ممکنہ محکمانہ کارروائی کے خلاف عدالت جانے یا اجتماعی استعفوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔

ایک منظم اور مسلح فورس میں اس قسم کا احتجاج، بیانات اور نعرہ بازی عدم اعتماد عدم تحفظ اور ڈپریشن کے انتہا کی نشانی ہے۔ اگر حالات کو انتہائی سنجیدہ نہیں لیا گیا ان لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنے کی ہر ممکن کوشش نہیں کی گئی تو اس کا مطلب ہو گا کہ خدانخواستہ کوئی ایسی طاقت ہے جو منظم اور مسلح فورسز کو ایک دوسرے سے لڑانے کی سازش کر رہا ہے۔ یا چند سال پہلے ایک امریکی ٹی وی میں ایک انٹرویو کی پیش گوئی کو درست ثابت کر رہے ہیں جس کے مطابق پاکستان کو توڑنے کے لئے پہلے بد امنی اور نفرت پیدا کی جائے گی۔ اور اس کے بعد پشتونوں اور بلوچوں کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسایا جائے گا۔

اس کالم کے ذریعے خبردار کرتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ افغان پالیسی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے۔ میڈیسن اور خوراک کی اشیاء کے علاوہ ہر قسم کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے۔ تاکہ عوام ملکی اشیاء استعمال کرنے پر مجبور ہو۔ اور سب سے اہم یہ کہ فوجی اور سول بیوروکریسی کی پیٹرول، بجلی، اور الاونسز سمیت تمام مراعات کو ایک سال کے لئے ختم کر دیا جائے۔

اور آخری بات یہ کہ اشرافیہ اور عوام کے درمیان خلیج اور نفرت کی وجہ صرف بد امنی بھی نہیں۔ مہنگائی، معاشی صورتحال اور اس صورتحال میں سیاسی لیڈر شپ کے انتہائی دوغلے پن کے شکار منافقانہ فیصلے بھی ہے۔ ایک طرف غریب عوام کے منہ سے کھانے کا نوالہ چھینا جا رہا ہے۔ آٹا دال پیٹرول بجلی گیس کو راتوں رات مہنگا کیا جا رہا ہے تاکہ آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لیا جا سکے اور ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا جا سکے مگر دوسری طرف یہ کالم لکھتے ہوئے خبر آئی کہ وزیر اعظم نے ان حالات کے باوجود منہ زور بیوروکریسی کی ڈیڑھ سو فیصد ایگزیکٹیو الاونس کو بحال کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ کیا یہ مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کیا یہ زبردستی عوام کو متشدد ہو کر سڑکوں پر نکلنے کی دانستہ کوشش تو نہیں؟ اگر نہیں تو وزیر اعظم کو فوری طور پر اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے نہیں تو پھر اس ننگے پیر اور خالی پیٹ لاکھوں عوام کے نکلنے کا انتظار کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments