مرزا اطہر بیگ: قلمی جہات


مرزا اطہر بیگ علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہیں بچپن ہی سے ایسا ماحول میسر آیا جس میں کتابوں کی وادی بہت اہمیت کی حامل تھی۔ ہر ماہ ان کے گھر کئی علمی و ادبی رسائل آتے تھے۔ اس وجہ سے ان کا رجحان ادبی و علمی میدان کی وسعت کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ آپ کے مطالعہ کی پختہ عادت نے آپ کو لکھنے کی جانب راغب کیا اور آپ نے ایک کہانی بعنوان ”سو پہلا دن ہوا“ لکھ ڈالی۔ یہ افسانہ حلقہ ارباب ذوق، (حلقہ ارباب ذوق ادبی تحریک ہے جس کی بنیاد چند احباب کے ساتھ مل کر سید نصیر احمد نے 29 اپریل 1939 کو رکھی۔

اس کا مقصد ہے کہ ادب میں رومانیت اور داخلیت کے عنصر کو شامل کیا جائے۔ اور اس کا نظریہ ”ادب برائے ادب“ ہے۔ 1 ) کے اجلاس میں پڑھا گیا۔ اسی افسانہ کے ساتھ ہی ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہوا۔ ان کی ادبی زندگی کا پہلا بڑا قدم ”غلام باغ“ ہے۔ غلام باغ پر کام 90 کی دہائی میں شروع کیا گیا اور اشاعت 2006 ء میں ہوئی۔ ان کا ایک طالب علم ایک آرٹیکل میں ان کے بارے میں یوں لکھتا ہے :

”مرزا اطہر بیگ سے میرا اولین تعارف فلسفہ کے استاد کی حیثیت سے ہوا۔ ہمیں آپ نے نفسیات اور جدید فلسفہ پڑھایا۔ سویرا (ادبی رسالہ) کے شماروں میں ہم استاد اور شاگرد دونوں کی کہانیاں ایک ساتھ شائع ہوئیں۔ تو انہیں دنوں پتہ چلا کہ آپ ایک ناول پر کام کر رہے ہیں یا ایسا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ بات ہے نوے کی دہائی کے آغاز کی۔“ 2

”غلام باغ“ منظر عام پر آیا تو ادبی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ یہ ادبی سمندر کے ٹھہرے پانی میں پتھر کی مانند گرا اور سمندر کی کوکھ میں تلاطم برپا ہوا اور لہریں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ یہ ناول کے روایتی طریقوں اور زبان سے اختلاف کرتا ہوا نئی طرز تحریر کو متعارف کرواتا ہے۔ یہ ناول Amorphous ہوتے ہوئے بھی Amorphous نہیں ہے۔ اس کی کوئی فارم متعین نہیں۔ یہ بے ہیئت بھی ہے اور بے شکل بھی۔

یہ ناول بھی ہے اور ناول نہیں بھی۔ اس کا پلاٹ دلچسپ ہے اور اس میں جیتے جاگتے کردار بھی موجود ہیں، ایسے کردار جن کی زندگی میں نئے اور انوکھے واقعات جنم لیتے رہتے ہیں۔ اس ناول میں ہمیں نہ صرف اسلوب اور فارم کی روایتی صورت سے بغاوت نظر آتی ہے، بلکہ ناول کے مواد اور اس سے جڑے تجربات، خیالات اور مشاہدات کے حوالے سے بھی شدت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ابتداء میں ناول ”غلام باغ“ کا مرکزی کردار کبیر مہدی جب یہ کہتا ہے ”وقت کا کوئی وجود نہیں، یہ محض ایک واہمہ ہے۔

“ 3 تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سوال کا جواب مل گیا ہے جو قرۃ العین حیدر نے ”آگ کا دریا“ میں اٹھایا تھا کہ وقت کیا ہے؟ اور جواب یہ ہے کہ وقت صرف ایک واہمہ ہے۔ اس ناول میں طویل مکالموں اور خود کلامی کو دیکھ کر ہمیں دوستو فسکی یاد آ جاتے ہیں، جن کے ہاں طویل مکالمہ اور کردار خود کلامی کرتے ہوئے ملتے ہیں۔

یہ ناول مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتی دو اصطلاحوں کے گرد گھومتا ہے۔ ایک ہے ”ارزل نسلیں“ اور دوسری ”خصی کلب“ ۔ پہلی اصطلاح ان لوگوں کو بیان کرتی ہے جو پست طبقہ ہے اور اس کا فرض اونچے طبقہ کے آرام کی خاطر اپنے آرام کا قتل کرنا ہے۔ اور دوسری اصطلاح اس اونچے طبقہ کو بیان کرتی ہے جو کلب میں ایک دوسرے سے خلوت میں ملتا ہے۔ اس میں صاحب ثروت لوگ اور کئی پردہ نشین میں شامل ہیں۔ ”غلام باغ“ کے متعلق رفاقت حیات نامی شخص (بلاگ رایٹر) یوں لکھتے ہیں :

”غلام باغ میں استعمال ہونے والی زبان اردو فکشن کے دل دادگان کے لیے انتہائی غیر متوقع ہے۔ مرزا اطہر بیگ صاحب نے اس میں جو زبان برتی ہے، وہ نہ صرف بھرپور طور پر ناول کے مناظر، کرداروں کی کیفیات، ان کی ذہنی حالت، ان کے خیالات و تصورات کا پوری طرح ابلاغ کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بہت کچھ ان کہی بھی چھوڑتی چلی جاتی ہے۔ یہ ان کہی قاری کے ذہن میں ہیجان برپا کرتی ہے۔ “ 4

”غلام باغ“ کا سب سے اہم موضوع وقت ہے اور اس کے لیے مرزا اطہر بیگ صاحب نے لفظ ”لمحہ“ استعمال کیا ہے۔ کہانی حال، ماضی اور مستقبل کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ کہانی کے کرداروں کی کیفیات اور مرزا صاحب کی طرز تحریر سے واضح ہو جاتا ہے کہ کہانی حال کی بتائی جا رہی ہے یا ماضی کی سنائی جا رہی ہے۔

وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے۔ (منیر نیازی) 5

غلام باغ اردو ادب کے ناول میں ایسا اضافہ ہے جس نے ناول کی تکنیک کو نئی راہوں کی خبر دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مرزا اطہر بیگ کا دوسرا ناول 2012 ء میں ”صفر سے ایک تک“ کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔ اس ناول کی کہانی سائبر سپیس کے ایک منشی کے گرد گھومتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ یہ کہانی منشی کی سرگزشت ہے۔ کہانی کی جانب بڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ سائبر سپیس کیا ہے؟ اس کے معنی کیا ہیں؟ اور اس کا استعمال کیوں کیا جاتا ہے۔ ؟

سائبر سپیس جدید ٹیکنالوجی کا ایک واہمہ ہے جس میں تقریباً تمام لوگ ہی مبتلا ہیں۔ اس کے پیچھے اطلاعات و معلومات کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ یہ خطوط اور ہندسوں کا ملغوبہ ہے۔ ہندسے صرف 1۔ 0 ہیں مگر ان کی ترتیب انہیں پیچیدہ بناتی ہے۔ اس لفظ کی تخلیق کا سہرا William Gibson کے سر ہے۔

”صفر سے ایک تک“ کا مرکزی کردار زکی ہے۔ وہ منشی کا بیٹا ہے اور منشی زمیندار کے تمام حساب کا کئی سالوں سے رکھوالا ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ منشی کا بیٹا تمام کھاتوں کو کمپیوٹر میں منتقل کر دیتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم نظام کو بدلا جا سکتا ہے۔ زمیندار کا ایک بیٹا ہے، جس کا نام فیضان ہے۔ وہ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے۔ اسے کمپیوٹر کے متعلق کچھ زیادہ علم نہیں ہوتا مگر وہ اس پر ریسرچ ورک لے لیتا ہے اور زکی سے تمام مواد حاصل کر کے اسکالر بن جاتا ہے۔

ایک لڑکی کا کردار بھی ناول میں شامل ہے، جو زلیخا کے نام کے ساتھ منظر میں داخل ہوتی ہے۔ زلیخا پیرس میں مقیم ہے اور زکی کمپیوٹر پر اس سے بات چیت کرتا ہے۔ یہ ناول 1970 سے شروع ہوتا ہے۔ اور اس میں مصنف نے قدیم اور جدید کے تضاد کو دکھایا ہے۔ مصنف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ دور میں ہم سب عالمی وقت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک ایسا وقت جس میں فاصلوں کا تصور مٹ چکا ہے۔ مصنف اس بات کا ثبوت زکی کی زلیخا سے بات چیت سے دیتے ہیں۔ زکی ایک طرف اپنے گاؤں کی لڑکی سے محبت کرتا ہے، تو دوسری طرف ہزاروں میل کے فاصلے پر بیٹھی زلیخا سے بھی گفتگو کر رہا ہے۔

صفر اور ایک، دراصل کمپیوٹر کا کل نظام ہے۔ جسے مرزا اطہر بیگ نے قدیمیت اور جدیدیت کے تناظر میں رکھ کر یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ صفر سے ایک تک پہنچنے میں کتنا وقت درکار ہے۔ مرزا اطہر بیگ لکھتے ہیں :

”کمپیوٹر فالتو باتیں کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جبکہ انسان یہ صلاحیت رکھتا ہے۔ کمپیوٹنگ، پروگرامنگ۔ مجھے دو اور دو چار بلکہ اب تو کہنا چاہیے کہ ون زیرو اور ون زیرو ون زیرو زیرو کی جکڑ بند میں واپس کھینچ لاتے ہیں۔ اصل جکڑ بند تو تمام دنیا میں اسی زیرو ون کی ہے۔ سارا کھیل ہی صفر سے ایک تک کا ہے۔ “ 6

مرزا اطہر بیگ کا تیسرا ناول 2014 ء میں ”حسن کی صورت حال، خالی جگہیں۔ پر۔ کرو“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس ناول میں مرزا اطہر بیگ نے انسانی زندگی کے اہم لوازمات اور بنیادی انسانی خواہشات دولت، شہرت، عزت اور جنس کو موضوع بنایا ہے۔ ناول میں تھیٹر اور فلم کا ایک جہاں آباد ہے۔ اس جہاں میں میلوں کی رونق میں سٹیج کے پر لطف مناظر اور سٹیج کے پیچھے دردناک واقعات ہیں۔ اس ناول میں یہ دکھایا گیا ہے کہ انسان خواہشات کی تکمیل میں کیسے کیسے پاپڑ بیلتا ہے اور کیا کیا کر جاتا ہے۔ یہ ساری صورت حال زندہ، گوشت پوست کے کرداروں کے ساتھ ساتھ کچھ غیر جاندار کردار مثلاً پیپر ویٹ، میگا ویٹ، بوتل، انگوٹھی اور گول میز وغیرہ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔

بی بی سی کے اینکر نے مرزا اطہر بیگ سے سوال کیا کہ آپ نے ”حسن کی صورت حال میں“ سکرین پلے کی جو نئی تکنیک پیش کی ہے، اس کا خیال آپ کو کیسے آیا تو انہوں نے یوں جواب دیا:

” میں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے 15 سیریل اور سو سے زیادہ ڈرامے تحریر کیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس تحریری تجربے نے مجھے سکرین کے لیے لکھنے کا ڈھنگ سکھا دیا تھا۔ لیکن میرے موجودہ ناول میں ایک مکمل سکرین پلے کا در آنا محض اتفاق نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی چالو فیشن کا شاخسانہ تھا۔ بلکہ یہ خارجی حقیقت کو دو سطحوں پر جانچنے پرکھنے کی ایک مشق تھی۔“ 7

اقبال خورشید (بلاگ رائٹر) ”حسن کی صورت حال“ پر کچھ یوں روشنی ڈالتے ہیں۔

”یہ ناول مرزا اطہر بیگ کے دیگر ناولوں سے مختلف ہے۔ مماثلت بس ایک کلیہ شکنی کی خواہش جو اور شدید ہو گئی ہے۔ ناول میں کئی کردار ایک جیسے ناموں کے حامل ہیں۔ یہ یکسانیت انتشار کو مہمیز کرتی ہے۔ آپ کو سررئیلزم کی جھلکیاں ملیں گی، کچھ عجیب و غریب ادارتی نوٹ۔ سب سے اہم بیانیے میں فلم میکنگ کی تکنیک، جس نے ناول کو نئی جہت عطا کر دی ہے۔ دراصل اندرون ناول ایک فلم بن رہی ہے۔ جو یہ فلم نہیں بن سکے گی اور یہ فلم ضرور بنے گی کے درمیان جھولتی ہے، لطف دیتی ہے۔ “ 8

اس ناول کا ذیلی عنوان ہے خالی جگہیں پر کرو۔ انسان بہت پیچیدہ ہے اور اس کی حقیقی زندگی اور ظاہری زندگی میں فرق کا تعلق اس کے ذہن سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات انسان کے ساتھ کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ اس کی زندگی میں خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہ اپنے اس خلا کو پر کرنے کے لئے مختلف قسم کے حربے اپناتا ہے اور طرح طرح کے پاپڑ بیلتا ہے۔ یہی کشمکش ہمیں اس ناول کے کرداروں میں نظر آتی ہے۔ ان کی حقیقی اور ظاہری زندگی میں اتنا فرق ہے کہ اس سے ان کی زندگیوں میں خلا پیدا ہو گیا ہے۔ حقیقی اور ظاہری زندگی پر ایک کردار یوں بیان دیتا ہے :

”یہ جاننا ناممکن ہے کہ کسی بھی شخص کی ذاتی حقیقی زندگی اصل میں کیا ہوتی ہے۔“ 9

ایک اینکر نے مرزا اطہر بیگ سے سوال کیا کہ کیا آپ اس ناول ”حسن کی صورت حال“ سے مطمئن ہیں؟ آپ نے یوں جواب دیا:

”اس ناول سے میں کافی مطمئن ہوں کہ جو میں کرنا چاہتا تھا وہ میں نے کیا۔“ 10

مرزا اطہر بیگ کا ایک افسانوی مجموعہ ”بے افسانہ“ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کے متعلق بی بی سی نے رپورٹ شائع کی تھی، رپورٹ میں یوں لکھا ہے :

”کتاب بے افسانہ میں شامل کچھ کہانیاں سن 70 کی دہائی میں لکھی گئی تھیں اور کچھ حالیہ دنوں میں تحریر کی گئیں۔ اس طرح کتاب کا دائرہ کار تیس برس سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے۔ کتاب میں کہانیوں کی ترتیب بہت حد تک زمانی ہے یعنی شروع میں پرانی کہانیاں ہیں اور آخر میں تازہ تخلیقات اور یوں افسانوں کا یہ مجموعہ ایک طرح سے مصنف کے ذہنی اور فنی ارتقاء کی دستاویز بھی بن جاتا ہے۔ “ ایک ناممکن کہانی ”راقم کے نزدیک مجموعہ کی سب سے دلچسپ اور مکمل ترین کہانی ہے، حالانکہ یہ ایک انتہائی تشنہ موڑ پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔“ 11

حال ہی میں مرزا اطہر بیگ کا ایک نیا ناول ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کا موضوع بھیانک ماورائے عمومی واقعات پر مبنی یادداشتیں ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار سلطان زمان ہے جو خفیف مخفی کے نام سے مختلف رسائل میں مضامین لکھتا ہے۔ اور پیرا سیکالوجیکل ریسرچر بھی ہے۔ دوسرا اہم ترین کردار محکم دین ہے جو کہ خفیف مخفی کا ملازم ہے۔ ایک فرانسیسی کردار موسیو لافاں کو بھی ناول کے مرکزی کرداروں میں شامل کیا گیا ہے۔ اس ناول میں پلاٹ موجود نہ ہوتے ہوئے بھی ایک پلاٹ موجود ہے۔ اور یہی اس ناول کی خاصیت ہے۔

اس کے علاوہ مرزا اطہر بیگ کئی طویل اور مختصر پنجابی اور اردو ڈرامے لکھ چکے ہیں۔ ان کی خدمات کی بدولت انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی اور pride of performance سے نوازا جا چکا ہے۔

حواشی:
1) انور سدید، ڈاکٹر، ”اردو ادب کی تحریکیں“ ، کراچی انجمن ترقی اردو پاکستان، 2021 ء، ص 496
2) ”ممتاز ناول نگار و کہانی نویس مرزا اطہر بیگ“ روز نامہ اٹک نیوز۔
3) مرزا اطہر بیگ، ”غلام باغ“ ، لاہور، سانجھ پبلیکیشنز، 2018 ء، ص 11
4) رفاقت حیات/ www۔ humsub۔ com
5) منیر نیازی، ”آغاز زمستاں میں دوبارہ“ ، لاہور، شرکت پرنٹنگ پریس، اشاعت اول، ص 14
6) مرزا اطہر بیگ، ”صفر سے ایک تک“ ، لاہور، سانجھ پبلی کیشنز، 2012 ء، ص 10
7) عارف وقار، ”مرزا اطہر کا تیسرا ناول ’حسن کی صورت حال‘ “ ، بی بی سی نیوز، 4 جون 2014 ء۔
8) اقبال خورشید: ”مرزا اطہر بیگ کی صورت حال“ مشمولہ سنڈے ایکسپریس (فیصل آباد 2 نومبر 2014 ء) ص 21۔
9) مرزا اطہر بیگ، ”حسن کی صورت حال“ ، لاہور سانجھ پبلیکیشنز، 2014 ء، ص 21۔
10 ) عاطف بلوچ، ’‘ حسن کی صورت حال ’مرزا اطہر بیگ کا ناول،“ ڈی ڈبلیو نیوز، 24 جون 2014 ء
11 ) عارف وقار، ”اطہر بیگ کا افسانوی مجموعہ“ ، بی بی سی اردو، 11 اکتوبر 2008 ء۔

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 65 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments