عبادت گاہوں کی بے حرمتی جائز یا نا جائز


ابھی پشاور مسجد میں ہونے والی شہادتوں کا غم تازہ ہی تھا کہ ایک اور عبادت گاہ کے مینار توڑنے کی وڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتی دکھائی دی۔

آخر کیوں ہمارے ملک میں، اس ملک میں جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور اخوت اور رواداری کے ساتھ رہنے کے لیے حاصل کیا گیا وہاں ہی سب سے زیادہ مذہبی گھٹن ہے۔ پہلے تو صرف علماء اور مفتی ہی ایک دوسرے کے خلاف فتوے دیا کرتے تھے لیکن اب ہر انسان خواہ اس کا تعلق مذہب سے ہو یا نہ ہو وہ خود مذہب کی کسی تعلیم پر عمل پیرا ہو یا نہ ہو لیکن وہ دوسرے کے مذہب کو برا بھلا کہنے کا نہ صرف حق دار ہے بلکہ جب چاہے کسی کو بھی کافر قرار دے دے جب چاہے کسی کی جان لے لے جب چاہے کسی مسجد میں گھس کر اپنے آپ کو پھاڑ لے یا جب چاہے کسی کی عبادت گاہ کو مسمار کر دے۔

کیونکہ وہ آزاد ملک کا شہری ہے۔ اس کے ملک کا جمہوری نظام اسے اس کی اجازت دے رہا ہے اس کی گورنمنٹ اس کے خلاف کوئی چارہ جوئی نہیں کر رہی۔ اور یہ سب باتیں باقی لوگوں کے حوصلے بھی بلند کر رہی ہیں۔ اگر اس جرم میں ایک فرد کو قرار واقعی سزا مل جائے تو دوسرے لوگ اسے کرنے سے جھجکتے ہیں۔ اس لیے وہ خود جج بننے اور جج کرنے سے اجتناب کرتے ہیں لیکن جہاں عوام کو یہ پتا چل جائے کہ ہم مذہب کے نام پر جو چاہیں کر گزرے کوئی ہمیں روکنے ٹوکنے والا نہیں وہاں پھر ایسے واقعات عام ہو جایا کرتے ہیں۔

پچھلے دنوں ایک عیسائی خاتون کی وڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں ایک ”مسلمان مرد“ ان خاتون کو ان کی سکیورٹی چیک کلیئر نہ کرنے پر دھمکا رہا تھا کہ تمہارے خلاف توہین رسالت کا پرچہ کٹوا دوں گا۔ اگر اس وقت وہ خاتون عقل مندی سے کام نہ لیتی اس سارے واقعہ کی وڈیو نہ بناتیں تو آج کسی جیل میں بیٹھی ہوتیں۔ تو کیا ایسا انسان جو قانون کی خلاف ورزی کرے اگر اس کی گاڑی کسی جگہ کا سکیورٹی چیک پاس نہیں کر رہی اور ایک بقول ایسے مسلمانوں کے کافر عورت اپنی نوکری سے انصاف کرتے ہوئے اسے منع کرے تو وہ بجائے اس کے کہ نادم ہو الٹا اسے ہی دھمکانا شروع ہو جائے کہ کیونکہ تم کلمہ گو نہیں تو تم پر تو میں آسانی سے پرچہ کٹوا سکتا اور میرے والدین میری خوش قسمتی سے کلمہ گو تھے تو میں یہ حق رکھتا ہوں کہ تمہیں برا بنا سکوں۔ اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں بیشتر مقدمات اسی نوعیت کے ہیں کہ اپنی ذاتی پرخاش نکالنے کے لیے کسی ایمان دار اقلیت پر توہین رسالت کا الزام لگا کر باقی سب جہلاء کو بھی اپنے ساتھ ملا کر ظلم و زیادتی کا بازار گرم کر دیا جائے۔

ابھی ایک احمدی عبادت گاہ جو صدر کراچی میں بہت سالوں سے موجود تھی، کو چند افراد ہتھوڑیوں سے توڑتے دکھائی دیے کہ اس کے مینار مسلمانوں کی مسجد کی طرز پر بنائے گئے ہیں جبکہ احمدی تو کافر ہیں انہیں ہماری طرز پر مینار بنانے کا حق نہیں۔ پچھلے بیس دنوں میں احمدی عبادت گاہوں کے مینار مسمار کرنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے جبکہ پچھلے ہفتے ان کے الگ بنے ہوئے قبرستان پر بھی حملہ کر کے قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔

سب سے پہلی بات کہ مساجد پر مینار اسلامی علامت نہیں کیا آنحضرت ﷺ کے دور میں مساجد پر منارے بنے ہوتے تھے؟ دوسرا یہ کہ مینار یا گنبد ایک طرز تعمیر ہے کہ اس سے یہ علم ہو جائے کہ یہ عمارت رہائشی نہیں بلکہ عبادت گاہ ہے۔ بہت سے ایسے چرچ ہیں جن پر بے حد خوبصورت مینار بنے ہوتے ہیں اور یہ اسلام سے قبل بھی دیگر مذاہب اپنی عبادت گاہوں کو منفرد دکھانے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے تو سب سے پہلی بات تو یہ کہ میناروں کا تعلق مساجد سے مخصوص نہیں۔

دوسرا مساجد میں مینار یا گنبد بنانے کی وجہ عموماً آواز دور تک پہچانا یا ہوا اور روشنی ہوا کرتی تھی۔ تو جو چیز اسلام میں بھی بہت بعد میں شامل ہوئی اس پر اپنا قبضہ جمانا یا اپنا حق سمجھنا چہ معنی دارد۔ دوسرا اگر کوئی ہمارے اسلام کی کسی بھی تعلیم یا کسی بھی بات پر عمل کرے تو ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ ہمیں تو خوش ہونا چاہیے کہ اس طرح اسلام کی خوبصورت تعلیمات پر عمل کرتے کرتے ایک دن وہ بھی حقیقی مسلمان بن جائے گا۔

ہم کسی انگریز کے منہ سے السلام علیکم سن کر کتنا خوش ہوتے ہیں۔ کسی انگریز عورت کو اپنے دیسی لباس میں ملبوس دیکھ کر ہم پھولے نہیں سماتے۔ کوئی غیر مذہب مرد اگر ہماری نماز کی ٹوپی پہن لے تو ہم اس کی تصویریں وائرل کرتے نہیں تھکتے کسی کے ہاتھ میں قرآن دیکھ لیں تو اس کے پکا مسلمان ہونے کی جھوٹی سچی خبریں پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اگر کوئی اقلیت ہمارے ”اسلام“ پر عمل کرے تو ہم آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔

ہمارا بس نہیں چلتا کہ اسے کچا چبا جائیں۔ جس طرح ہم احمدیوں کی عبادت گاہوں پر سے اپنا کلمہ طیبہ مٹا رہے ان کے مینار توڑ رہے کیا یہ تعلیم ہم کسی قرآنی آیت سے ثابت کر سکتے ہیں؟ سنت رسول ﷺ سے بھی ثابت نہیں کر سکتے۔ اسلام سلامتی کا مذہب ہے اور محمد ﷺ رحمۃ للعالمین تھے۔ یعنی تمام عالم کے لیے رحمت صرف مسلمانوں کے نہیں۔ تو ہم کیسے اس رحمت کے حصار سے کسی کو بھی نکال سکتے۔ ہم کوئی بھی نہیں ہوتے کسی کو مینار بنانے یا نہ بنانے کا حق دینے والے۔

بقول کنور مہندر سنگھ بیدی
”عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد ﷺ پہ اجارہ تو نہیں ”
تو یہ سلامتی سب کے لیے ہے۔ امن و رواداری کی تعلیم ہر کسی کے لیے ہے۔

اور یہ بات کہ مسلمانوں کو دھوکے دینے کے لیے احمدی یا عیسائی اپنی عبادت گاہوں کو مساجد کی شکل دیتے ہیں تاکہ عوام غلط فہمی کا شکار ہو جائے تو پہلے تو جائزہ لیں اپنی مساجد میں موجود نمازیوں کی تعداد کا۔ وہی گنے چنے افراد۔ مذہب میں فرقے بندیاں، نفرتوں کی مالا جپ کر ہم اپنی نوجوان نسل کو تو پہلے ہی مذہب سے بیزار کر چکے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سونے پہ سہاگے کا کام دیتے ہیں۔ اس وقت جب دنیا تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کا ایمان جانچنے کے اپنا تعلق اپنے خالق سے مضبوط کریں ہم اپنی نماز پڑھنے کی بجائے دوسروں کو عبادت کرنے سے روکنے کے درپے ہیں۔

عوام میں ایک انتہا پسندی کی سی کیفیت ہے۔ ایک طرف ایک گروہ ہے جو ملحد بن چکا ہے اسلام اور اس کی سب تعلیمات سے بیزار دوسری طرف ایک گروہ جو مذہبی جنونیت میں مبتلا ہو کر کسی کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ پشاور مسجد میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیسے سو کے قریب معصوم جانیں لے لی گئیں۔ جن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ نماز کی ادائیگی کے لیے آئے تھے۔ ان واقعات سے لوگ ویسے ہی مساجد آنے سے گھبرانے لگے ہیں۔ یہ مذہبی جنونیت ہم جب بھی کسی کے دل میں کسی دوسرے کے لیے پیدا کرتے ہیں تو ایک دن خود بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ ”کیونکہ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں“

ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں جس کسی کے ساتھ بھی ظلم زیادتی ہو اس کا ساتھ دیں۔ بے شک ہمارے خیالات اس سے بالکل مختلف ہوں لیکن ظلم زیادتی کے خلاف کھڑا ہونا ہمارا فرض ہونا چاہیے اس لیے تاکہ جب ہمارے ساتھ کوئی غلط کرنا چاہے تو ہمارے ساتھ بھی کوئی ہو۔ ہم اس بات سے نہ ڈریں کہ اگر ہم ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا کا ساتھ دیں گے تو لوگ ہمیں ہندو اسی طرح عیسائی یا احمدی یا شیعہ سنی سمجھیں گے۔ ہمیں ان لوگو کو حساب نہیں دینا وہ جو مرضی برا بھلا کہیں ہمارا معاملہ صرف ہمارے خدا سے ہونا چاہیے۔

کسی کی بدزبانی سے ڈرنے کی بجائے صرف خود خدا دل میں رکھیں۔ ہم اگر دنیا کے سب سے بہترین مذیب کے پیروکار ہیں تو ہمارے کسی عمل سے، ہماری زبان سے، ہمارے ہاتھ سے، کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ ہم کبھی کسی مظلوم کی آہ لینے والے نہ ہوں۔ کیونکہ آہ عرش تک جاتی ہے اور قبول کر لی جاتی ہے۔ ہم کسی کی تکلیف کا کبھی باعث نہ بننے والے ہوں۔ اور کاش ہماری حکومت ہمارا قانون ہر کسی کی حفاظت کرنے والا ہو اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ ہو۔ کاش

”ہر ستم گر کو ہو اے کاش یہ عرفان۔ نصیب
ظلم جس پر بھی ہو ہر دین کی رسوائی ہے ”
شاعر نامعلوم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments