والدین کی لاپرواہی یا ریاست کی غیر ذمہ داری


اس کی عمر دس سے گیارہ سال کے درمیان تھی۔ ملگجے سے کپڑے، الجھے ہوئے بال، کندھے پہ پرانا سا سکول کا بستہ، دائیں بائیں دو چھوٹے سے لڑکے۔ ایک کی عمر لگ بھگ نو سال اور دوسرا بمشکل آٹھ سال کا دکھائی دیتا تھا۔ شکل سے تینوں بہن بھائی معلوم ہوتے تھے۔ سارے بچے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر تھامے کھڑے ہوتے۔ یہ روز کا معمول تھا۔

صبح کے ساڑھے سات کا وقت ہوتا اور وہ ہر راہگیر کو لفٹ کے لئے ہاتھ کا اشارہ دیتی اور نا رکنے والے کو منہ سے گالیوں کے ساتھ ساتھ پتھر مارتی جاتی۔ چھوٹے مجاہد بھی اس کا ساتھ وہاں تک نبھاتے جب تک گاڑی یا بائیک نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتی۔

ہمارا روز کا سفر تھا اور اس کا روزانہ یہی معمول۔ ہم ذرا سی دیر کے لئے گاڑی اس کے ساتھ روکتے، چہرے پہ خوشی کی چمک لئے وہ پتھر ہاتھ سے گراتی، لڑکے اس کی ہر حرکت نظر رکھے چوکنا ہوتے۔ جونہی وہ پتھر گراتی وہ دونوں بھی ہاتھ خالی کر دیتے۔ ادھر ان کے ہاتھ خالی ادھر ہمارا ڈرائیور گاڑی بھگا کے لے جاتا۔ ہم پیچھے مڑ کے دیکھتے تو سارے بچے دونوں ہاتھوں سے زور و شور سے ”لعنت“ دینے مصروف ہوتے۔ شاید ان کی ٹیم لیڈر وہ لڑکی تھی۔

ہم اکثر اپنے ڈرائیور سے کہتے کہ ان بچوں کو بھی ساتھ لے چلو تو جواب دیتا کہ ایک تو انہوں نے ”کرایہ“ نہیں دینا اور اگر کل کلاں کو کچھ ہو گیا تو ان کے والدین سب سے پہلے مجھے ”جیل“ بھجوائیں گے۔ ان کے والدین کو آگے پیچھے کوئی خبر ہو نا ہو لیکن ”پنگے“ لینے کے سارے گر پتہ ہوتے ہیں۔ ہم بس اپنا سا منہ لے کے رہ جاتے کہ ہم نے گاڑی اپنے سفر کے لئے ”رکھوائی“ ہوئی تھی، مالک بہرحال وہی تھا۔

کبھی کبھار واپسی کے سفر میں دکھائی دے جاتے، نڈھال سے پیدل چلتے ہوئے، سر جھکائے ایک نظر گاڑی پہ ڈالتی اور ہلکا سا رکنے کا اشارہ کرتی اور پھر سے سفر شروع کر دیتی۔ ایک سال کے سفر میں ہم نے اس کا یہی معمول دیکھا۔ دن گزرے، موسم بدلے مگر اس کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔

ایک چمکتے دن اس کی مراد بر آئی، اس نے ایک مہران کار والے کو رکنے کا اشارہ کیا، گاڑی رکی اور وہ سب اس میں سوار ہو گئے۔ ہم نے اس دن واپسی کے سفر میں اس کے چہرے پہ جو چمک دیکھی وہ سورج کی تمازت کو بھی مات کر رہی تھی۔ اس نے آج پہلی بار ہمیں مڑ کے دیکھا اس کے گالوں کی سرخی ہمارے گال شرمندگی سے لال کر گئی۔ مہران ہم سے تھوڑا آگے تھی مگر ڈرائیور شاید بہت جلدی میں تھا، وہ آندھی کی رفتار سے گاڑی اڑا لے گیا۔ اور ہمارا دل آندھیوں کی زد میں آ گیا۔

وہ گاڑی والا کون تھا؟ ہم اس کو نہیں جانتے تھے۔ وہ ان بچوں کے لئے بھی انجان تھا اور بچوں کے والدین اس بات سے ”بے خبر“ کہ ان کے بچے کس کے ساتھ ہیں۔ اگر وہ ان کے لے کر کہیں چلا گیا اور ان بچوں کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ یہی سوچ ہمیں پریشان کر رہی تھی۔

والدین اتنے ، لاپرواہ ”کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ سوچ ہمیں اب تک حیران کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی کوئی مجبوری ہو؟ دیہاتوں میں سکول بہت دور واقع ہوتے ہیں اور اگر خوش قسمتی سے نزدیک ہوں تب بھی وہ“ پرائمری ”سطح تک ہوتے ہیں۔ اگر تعلیم جاری رکھنی ہے تو آپ کو دور جانا ہو گا۔ اس کے لئے آپ کو کوئی نا کوئی انتظام بھی کرنا ہو گا کیونکہ ہر جگہ پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چلتی۔

کیا آپ نے ایسے دیہات دیکھے ہیں جہاں اکیسویں صدی میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ نا چلتی ہو؟ ہم نے دیکھے ہیں جنوبی پنجاب اور سندھ کے کچھ ایسے گاؤں جہاں آمد و رفت کے لئے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں جاتی۔ اگر آپ کے پاس اپنی ذاتی سواری نہیں ہے تو آپ ”معذور“ ہیں۔ بھلے آپ کو کتنی ہی ایمرجنسی ہو، کہیں جلد پہنچنا ہو، سکول جانا ہو، نوکری پہ جانا ہو آپ اپنے لئے ”اسپیشل“ سواری منگوائیں گے اور اس کو منہ مانگے دام دیں گے۔ اس کے لئے چاہے آپ کو کتنا ہی انتظار کیوں نا کرنا پڑے، آپ کرتے ہیں۔

دیر سے پہنچنے پر آپ کو انکوائری کا سامنا کرنا پڑے، آپ معطل ہو جائیں، آپ کے مریض راستے میں دم توڑ جائیں۔ ریاست کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ کے بچے سکول کیسے جاتے ہیں یہ ”حکومت وقت“ کا درد سر نہیں۔ آپ کے بچے لفٹ کے کر جاتے ہیں اور واپس نہیں آتے تو؟ اس سے آگے کی سوچ جان نکالنے کے لئے کافی ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کے ساتھ جو ’واقعات ”ہوتے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

ریاست ماں کے جیسی ہے، جس نے کہا بالکل سہی کہا۔ اس سوتیلی ماں کے جیسی جس کے بچے سردی گرمی میں ایک ہی کپڑوں میں گزارا کر لیتے ہیں۔ کبھی بھوکے تو کبھی ادھ بھرے پیٹ کے ساتھ سو جاتے ہیں۔ ماں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بچے کس حال میں جیتے ہیں، کیسے مرتے ہیں کس کو پرواہ؟ پچھلے پچھتر سالوں میں ماں سوتیلی ہی رہی، اپنا اور اپنے سگوں کا ہی سوچا۔

والدین اتنے لاپروا نہیں ہونے چاہئیں کہ بعد میں سر پکڑ کر رونا پڑے۔ ریاست کو بھی اپنی ”سیاست“ سے فرصت ملے تو اس اولاد کا بھی سوچ لے جس کے بچے آج بھی گرمی سردی سے بے نیاز ہر راہگیر سے لفٹ مانگ کر گزارا کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments