’میں نے اپنے ملک کے لیے فٹ بال کھیلی۔۔ اب میں لوگوں کے گھروں تک کھانا پہنچاتی ہوں‘


INDIA
پولمی ادھیکاری اس وقت ڈبل شفٹ کے درمیان میں تھیں جب انھیں ایک سماجی کارکن اتندھرا چکرابورتی جو کولکتہ میں عام لوگوں کی زندگیوں پر ڈاکومینٹری بناتی ہیں، نے روک کر کچھ سوالات پوچھے۔

پولمی صبح چھ بجے سے کام پر تھیں اور دوپہر ایک بجے وہ کام سے چھٹی کرنے والی تھیں مگر پھر بھی وہ اس گفتگو کے لیے خوشی خوشی راضی ہو گئیں۔

24 برس کی پولمی سرخ رنگ کی شرٹ جس پر سفید حروف میں ’زوماٹو‘ درج تھا میں ملبوس تھیں اور اتندرا کو یہ بتا رہی تھیں کہ کیسے انھوں نے انڈیا کی سب بڑی ریسٹورنٹ فوڈ ڈیلیوری ایپ کے ساتھ کام شروع کیا۔ تاہم وہ بتا رہی تھیں کہ ان کا شوق اب بھی فٹ بال ہی ہے۔

وہ ماضی میں انڈیا کی خواتین کی انڈر 16 ٹیم میں اپنے ملک کی عالمی مقابلوں میں نمائندگی کر چکی ہیں۔ مگر اس کے لیے حالات سازگار نہیں رہے۔ ان کا خاندان مالی مشکلات کا شکار ہوا اور انھوں نے پولمی سے کوئی اور کام کرنے کا کہا۔

یہ ایک مختصر انٹرویو تھا۔ اس کے بعد پولمی نے الوداع کہا اور اپنی سائیکل چلانی شروع کر دی، جس پر وہ گھروں تک کھانا پہنچاتی ہیں۔

صبح تک یہ ویڈیو بہت وائرل ہو گئی اور لوگوں نے سوشل میڈیا پر متعدد سوالات اٹھائے کہ کیسے ایک نوجوان خاتون فٹ بال میں اپنے اتنے شاندار کریئر کو چھوڑ کر دن بھر مغربی بنگال کے دارالحکومت میں لوگوں کے گھروں تک کھانا پہنچا رہی ہیں۔

وہ پولمی ادھیکاری کی کہانی سننا چاہتے تھے۔

BYCYCLE

کولکتہ کے جنوب میں شبھ رام پور کے ایک غریب نواحی علاقے جہاں پولمی پلی بڑھی تھیں وہاں انھیں ’بُلٹی‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے، جس کا مطلب ’خدا کا بچہ‘ یعنی بہت قیمتی تحفہ۔

پولمی جب دو ماہ کی تھیں تو ان کی والدہ فوت ہو گئیں اور اس کے بعد ان کی پرورش ان کی خالہ نے کی۔ پولمی کے والد جو کبھی کبھار ٹیکسی چلاتے ہیں تاکہ کسی حد وہ اپنے خاندان کی مالی ضروریات کو پورا کر سکیں۔

سات برس کی عمر میں پولمی کو معلوم ہوا کہ مقامی لڑکے قریب ہی ایک کھیل کے میدان میں فٹ بال کھیل رہے ہیں۔ پولمی نے بھی ان کے ساتھ فٹ بال کھیلنا شروع کر دیا۔

پولمی شارٹس یعنی کھیل کا مختصر لباس پہنتی تھیں تو ان کے ساتھ کھیلنے والوں نے یہی سمجھا کہ پولمی لڑکا ہیں۔

پولمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ میں لڑکی ہوں تو ان لڑکوں کے خاندان والوں اس گراؤنڈ کی انتظامیہ اور پھر میری خالہ کو یہ شکایات کرنا شروع کر دیں۔‘

’انھوں نے کہا کہ شارٹس میں کیسے ایک لڑکی لڑکوں کے ساتھ فٹ بال کھیل سکتی ہے۔‘

آغاز میں تو پولمی ان کی شکایات سے بہت صدمے میں چلی گئیں۔

پولمی نے بتایا کہ ’میں بہت افسردہ ہو گئی تھی اور ہر روز گھر واپس آ کر چلاتی تھی کیونکہ مجھے کھیل کا جنون تھا۔‘

پولمی کی خالہ نے بتایا کہ وہ ان کے خواب کی تکمیل کے لیے کوئی رستہ تلاش کر لے گی اور انھوں نے کچھ لیچکرز کا اہتمام کیا۔ پولمی بہت خوش تھیں اور وہ جلد ہی ایک مقامی فٹ بال کوچ انیتا سرکار کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔

انیتا کی رہنمائی میں پولمی نے کولکتہ کی فٹ بال لیگ میں لڑکیوں کی ایک ٹیم کی طرف سے کھیلیں۔ جب وہ 12 برس کی تھیں تو وہ انڈیا کی انڈر 16 ٹیم کے لیے منتخب ہو گئیں۔

Football

ان کی گہری دوستیاں ہو گئیں اور جلد ہی انھیں وہ تمام مواقع ملنا شروع ہو گئے جن کا انھوں نے خواب دیکھا تھا۔ ان کے خاندان میں سے کسی نے بھی جہاز پر سفر نہیں کیا تھا۔ مگر جلد ہی عالمی مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے انھوں نے اپنے بے تکلف دوستوں کے ساتھ طویل پروازیں بھریں۔ اب جو کھیل انھیں پسند تھا وہ کھیل سکتی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ’جب میں نے انڈین جرسی پہنی اور اتنی کم عمری میں انڈیا کی نمائندگی کی تو وہ میرے لیے اپنے کریئر کا بہترین لمحہ تھا۔‘ ان کے مطابق جب میں نے پہلی بار جرسی پہنی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔

سنہ 2013 میں انھوں نے سری لنکا کا سفر کیا، جہاں پولمی نے ساؤتھ ایشین فٹ بال فیڈریشن کی خواتین کی جونیئر چیمپئن شپ کے لیے کوالیفائنگ میچوں میں حصہ لیا۔

سنہ 2016 میں انھوں نے ’ہوم لیس ورلڈ کپ‘ کے سلسلے میں بین الاقوامی سٹریٹ فٹ بال ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے گلاسگو کا سفر کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں ایک میچ کے لگ بھگ 100 ڈالر ادا کیے جاتے تھے۔

لیکن اس کے باوجود مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خاندان کی مالی حالت کی وجہ سے ہم کبھی بھی فٹ بال کی اچھی کوالٹی کی مصنوعات لے پاتے تھے اور نہ ہی دن میں تین وقت کا مناسب کھانا۔‘

سنہ 2018 میں ایک بڑا حادثہ ہوا، جب پولمی کی ٹانگ میں چوٹ آئی جس کے لیے کئی آپریشن اور بستر پر آرام کی ضرورت پڑی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ دوبارہ ’ایلیٹ لیول‘ پر کھیلنے کے لیے کافی صحت یاب ہو گئیں، لیکن ایک اور مسئلے نے انھیں کھیل میں واپس آنے سے روک دیا۔

ان کے خاندان کو پیسوں کی ضرورت تھی۔ ان کی بڑی بہن نے شادی کر لی تھی اور وہ وہاں سے چلی گئی تھی اور پولمی کو گھر کو چلانے میں مدد کرنی پڑی۔

پولمی کی بڑی بہن شادی کے بعد اپنے نئے گھر چلی گئیں اور اب باقی گھر والوں کے نان نفقے کی ذمہ داری پولمی کے کندھوں پر آن پڑی۔

اب پولمی نے اپنے فٹ بال کے خواب کو ادھورا چھوڑ کر اور مہینوں میں ہی اپنے خاندان کی کفالت کے لیے عجیب و غریب طرح کی ملازمتیں کرنا شروع ہو گئیں۔ سنہ 2020 میں کورونا وائرس کی وبا کے عروج پر زیادہ سے زیادہ لوگوں نے گھروں میں کھانا منگوانا شروع کر دیا اور پولمی اب باقاعدہ اس ٹیم کا حصہ بن گئیں جو لوگوں کے گھروں تک کھانا پہچانتی تھی۔

اِن دنوں وہ دن ایک بجے تک اپنا کام مکمل کر لیتی ہیں۔ یہ بہت تھکا دینے والا کام ہے اور یہ انھیں پریکٹس کا موقع بھی نہیں دیتا۔ پولمی اب روزانہ تقریباً 300 روپے (تین اعشاریہ 60 ڈالر) کماتی ہیں جبکہ ڈبل شفٹیں 15 گھنٹے سے زیادہ طویل ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر مجھے معقول تنخواہ والی نوکری مل جائے جہاں میں آٹھ سے 10 گھنٹے کام کر سکوں تو میں آسانی سے اپنے فٹ بال کے لیے تین سے چار گھنٹے کا وقت نکال سکتی ہوں‘

Indian sports

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے امیر لوگ خیرات کم کیوں دیتے ہیں؟

انڈیا میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کے الزام میں ’19 سالہ پاکستانی لڑکی‘ گرفتار

انڈیا: غریب طبقہ بنیادی ضروریات سے محروم، ملک کی 40 فیصد سے زیادہ دولت ایک فیصد کے پاس

جب یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو پولمی کو کوچنگ کی نوکری کی پیشکش کی گئی لیکن یہ جگہ ان کے گھر سے 40 کلومیٹر دور تھی اور وہ زوماٹو کے مقابلے میں کم کما سکتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ملک اور شاید دنیا میں خواتین کے کھیل میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا فقدان پایا جاتا ہے۔

پولمی کے مطابق ’اگر ہم انڈیا کے بارے میں بات کریں اور مردوں اور خواتین کے فٹ بال کا موازنہ کریں تو بہت سے لوگ عام طور پر خواتین کے فٹ بال کو بالکل بھی نہیں دیکھتے اور نہ ہی اس کی پرواہ کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ’اسی طرح کرکٹ کے ساتھ میں نے لوگوں کو مردوں کا کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے اپنی ملازمت سے چھٹی لیتے ہوئے دیکھا ہے لیکن وہ خواتین کے کرکٹ میچ کی زیادہ فکر نہیں کرتے۔ اس لیے مجموعی طور پر کھیلوں میں خواتین کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔‘

پولمی کو اب بھی امیدیں ہیں کہ وہ مناسب تعاون کے ساتھ پیشہ ورانہ طور پر کھیل سکتی ہیں۔

ان کے پاس اپنے ٹی وی پر تمام خواتین کے فٹ بال کو فالو کرنے کے لیے صحیح بین الاقوامی چینلز نہیں ہیں لیکن وہ امریکی کھلاڑی الیکس مورگن کی مداح ہیں۔ وہ رونالڈینو سے بھی محبت کرتی ہیں۔

رواں برس 7 جنوری کو آل انڈیا فٹ بال فیڈریشن نے انڈین فٹ بال کو ترقی دینے کے مقصد کے ساتھ وژن 2047 کے نام سے ایک روڈ میپ جاری کیا۔ فیڈریشن کا سنہ 2026 کا ہدف خواتین کے فٹ بال میں مزید سرمایہ کاری کا مطالبہ کرتا ہے، جس میں خواتین کھلاڑیوں کو کم از کم تنخواہ فراہم کرنے جیسے اہداف بھی شامل ہیں۔

پولمی کا کہنا ہے کہ ’وہ امید کرتی ہیں کہ یہ وژن پورا ہو جائے گا۔ آس پاس بہت سارے پولمی ہیں، میری طرح جدوجہد کر رہے ہیں۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments