ایک اور سرنڈر کا سامنا ہے مجھے!


پاکستان مجھے آج ایک اور سرنڈر کی طرف جاتا نظر آ رہا ہے، مجھے یہ جملے لکھتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے، میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں، لیکن سچ کیوں چھپاؤں، سچ چھپاتے چھپاتے ہم اس حال کو پہنچ گئے، 71 ء میں ملک کے مضبوط ترین ہاتھوں کو میں نے ڈھاکہ ریس کورس میں بنا تردد سرنڈر کرتے دیکھا، وہ ہاتھ تو میری سلامتی کے لئے تھے، کیا دستخط کرنے والوں نے نہیں سوچا ان پر بھروسا کرنے والوں پر کیا گزرے گی، سوچو جب وہاں مغربی پاکستانیوں پر کیا گزری ہوگی، سوچتا ہوں تو ٹھیک وہی تکلیف سے خود کو گزرتا محسوس کرتا ہوں جو مجھے آج محسوس ہو رہی ہے، مشرقی پاکستان میں مشرقی پاکستانیوں نے تو اپنے حق کے لئے علم اٹھا لیا یا تھا، الیکشن کے نتائج تو یہاں کے حکمرانوں نے تسلیم نہیں کیے تھے، اسٹیبلشمنٹ نے نہیں مانے تھے، پاکستان اور عام پاکستانیوں کا کیا قصور تھا، غلطی ہماری ڈکٹیٹر حکومت کی تھی، ہم نے بھارت کو سنہرا موقع خود فراہم کیا تھا، آنکھیں (اگر ہوتیں دیکھنے والوں کی کسی کام کی) تو گنگا سازش کے سامنے آتے ہی کھل جانی چاہیے تھیں، نہیں کھلیں، اگر تلہ سازش کیس کا ذکر سنا، اس کی عدالتی پیروی کس نے روکی، کیا قیادت نہیں جانتی تھی کے جنگ ہونے کی صورت میں سپلائی لائن کا کیا بنے گا، روس کے ساتھ معاہدہ بھارت نے رات کی تاریکی میں تو نہیں کیا تھا، کلکتہ کے ہائی کمیشن میں تعینات سفارتکاروں پر کیا گزری کیا نہیں پتہ، ہمیں تسلی دینے والوں سے سری لنکا والے ہی پاکستان کے اچھے دوست رہے، جنہوں نے پاکستان کی اس نازک گھڑی میں مدد کی، وہ جانتے تھے کہ پی آئی اے کے طیاروں میں فوجی جا رہے ہیں، سلسلہ جاری رہا، کسی کو اعتراض ہے تو جنرل فضل مقیم کی کتاب پاکستان کا المیہ اٹھا لے، حمود الرحمان کمیشن رپورٹ تو گویا چڑ ہے بہت سوں کی، سرنڈر کرنے والے آج بھی توانا و مستحکم ہیں۔

بنگلا دیش میں ڈھاکہ اور دیگر کیمپوں میں پاکستان جانے کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کو نا امید ہوتے دیکھا ہے، وہ آج بھی کیمپوں کی زندگی گزار رہے ہیں، ٹھیک اسی طرح کی امید کا قتل آج ہو رہا ہے، وہ تو مجھ سے اچھے پاکستانی ہیں، ان کے صبر پر کیا لکھوں، مجھے معلوم ہے، کیپٹن احسان ملک کا خیال آتا ہے جس کے بارے میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے بھارتی فیلڈ مارشل سام مانک شاہ نے کہا تھا پاکستانی اپنے مرکز سے دور تھے، کیپٹن احسان ملک ان حالات میں لڑے تھے، ہلی بوگرہ میں جو لڑائی لڑی گئی، وہ تاریخ میں دونوں جانب کے دفاعی تاریخ لکھنے والوں نے لکھی ہے، پھر پاک فضائیہ کی چودہویں اسکواڈرن کے دلا ور پائلٹس اور ان کے جہازوں کو دشمن سے لڑائی کے لئے تیار کرنے والے ائر مینوں کو کیسے بھول جاؤں، پی این ایس سہلٹ اور پی این ایس جیسور کے افسران اور سیلرز پر کیا گزری ہوگی، پی این ایس غازی کے شہید کپتان کا خیال آتا ہے، ان کے گھر والے ایک عرصے تک غازی کے عملے کی واپسی کے منتظر تو رہے ہوں گے ، بھارت نے مشرقی پاکستان میں پانی چھوڑ دیا تھا، بہت سے فوجی ایسے بنکروں سے حملہ آوروں سے لڑ رہے تھے جن میں پان بھرا ہوا تھا، کھڑے پانی میں کھڑے ہو کر دشمن سے لڑنا، بعد مغربی پاکستان سے جانے والے ان جانبازوں کا ذکر نہ کروں جن کو وہاں یہ انوکھی واردات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، لیکن قیادت کن کاموں میں الجھی ہوئی تھی، برگیڈیئر صدیق سالک، جنرل فضل مقیم نے ہی لکھا ہوا ہے، پان کی اسمگلنگ اور داشتاؤں کے چارج تک کا احوال میرے اہم ہونے کی اصل کہانی سناتا ہے، اصل جانبازوں کا خون کس نے بیچا؟

بھارت میں نیا چلن شروع ہوا ہے، جو بھی ان کے آرمی چیف سے ملنے جاتا ہے وہ ڈھاکہ کے سرنڈر والی تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر مہمان کے ساتھ تصویر ضرور اپنے اور دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا کے لئے جاری کرتے ہیں، کولاج میں دیکھ لیں، خیر بھارت کو حق ہم نے ہی دیا کے سجاؤ اور دکھاؤ، بھارت ہماری فضائیہ کا کوئی لڑاکا طیارہ فورس لینڈ نہیں کرا سکا، ہم نے دو بار بھارت کے ساتھ ضرور کیا، دونوں پر پوری طرح مسلح طیارہ، یہ شاندار کارکردگی تھی ہماری ائر فورس کی، اب گزشتہ سال پتہ چلا کہ پاکستانی نشان کے ساتھ بنگلا دیش کی حکومت بھارت کو ایک سیبر طیارہ تحفہ دے کر اس کی یہ خواہش پوری کردی، ہم تو افغانستان اور ایران کے درمیان بھی کوئی مثال نہیں بن سکے، میری باتیں بہت سے دوستوں کی دل آزاری کا سبب بنیں گی، وہ اگر اپنا سمجھیں مجھے تو میری پریشانی کو غلط قرار دے کر کمنٹ سیکشن میں اس حوالے سے بات کریں، میں آج جس سرنڈر کی بات کر رہا ہوں، وہ سرنڈر پاکستان کا معاشی سرنڈر ہے، جو مجھے بہت واضح نظر آ رہا، مایوسی کا لفظ استعمال نہ بھی کروں تو اللہ، امریکہ اور آرمی کہاں دیکھوں، علما ء اور ان کے چاہنے والے قرآن پاک کے حوالے دیں گے، مجھے کہیں گے مایوسی کفر ہے، پھر وہی دوست یہ بھی کہیں گے کہ ویسے ہی حکمران ملتے ہیں جیسی قوم ہوتی ہے۔

تصویر کیپشن ؛ سرنڈر کی تصویر کی دنیا کے سامنے رونمائی، اور ہمارے جنگی قیدی بھارت کی قید میں

اب ترجیح کے انتخاب کا وقت ہے، سرنڈر دو طرح ہوسکتے ہیں، ایک آبرو مندانہ اور دوسرا ڈھاکہ والے انداز میں، آبرو مندانہ میں ان کے لئے ایک تو اس بچے کچے پاکستان کو الیکشن کی طرف لے جاؤ اور عوامی ترجمان جس کو عوام منتخب کرے اس کو تسلیم کر کے دے دو (تاکہ عالمی مالیاتی ادارے ایک طویل وقتی حکومت سے بات کریں ) یا پھر ایک اور ریس کورس تیار کرا لو دستخط کی تقریب سجانے کے لئے، کیوں کہ ڈھاکہ کی تصویر اور مضبوط ترین ہاتھوں کو جب خود سے لاتعلق ہوتے دیکھ چکا ہوں، یا پھر ہمیں ویسے ہی وقت اور طاقت ور ملکوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، میری دفاعی صلاحیت کو فروخت کر کے۔

یہ سب کچھ مجھ سے کسی نے نہیں کہا، لیکن معاشی اعشاریے، بڑھتی مہنگائی، میری محدود ہوتی قوت خرید، پیٹرول، آٹا، بچوں کا دودھ، مہنگی سبزی سب کے سمجھنے کے لئے کیا کافی نہیں سمجھنے کے لئے؟ تو سوچنے پر مجبور ہوہی جاتا ہوں۔ شاید میرے گزشتہ بلاگز کے مقابلے میں یہ بلاگ کسی اور رنگ میں ڈھلا محسوس ہو، بس فرق یہ ہے کہ آج میں اپنے بچوں کو کشمیر، فلسطینی یا ڈھاکہ کے محصورین کی طرح چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں، ٹی ٹی پی اور مکتی باہنی دونوں کو بھارت نے بنایا تھا، لیکن نفرت کا بیج تو بھارت نے نہیں ہمارے جاہ و جلال اعلی مرتب اصل حکمرانوں نے بویا، ٹی ٹی پی اگر آج میرے ہم وطنوں پر بارود گرا رہی ہے تو مکتی باہنی بھی یہی کر رہی تھی، اگرتلہ سازش کیس کا کیا ہوا تھا؟

احسان اللہ احسان کیسے فرار ہوا تھا؟ میرے ملک کو بچا لو اسی لیے آواز اٹھا رہا ہوں، پاکستان کی سلامتی میرے لیے مقدم میری جان سے زیادہ ہے، لیکن یہ ملک کالونی تو نہیں کسی بیرونی طاقت کی، میری دیت ادا کر کے میرے بچوں کو مستقبل میں کیا بے یقینی ہی دو گے، ایک شہری کی حیثیت سے سوال تو پوچھنے کا حق ہے میرا، ہم پانچویں بڑی ایٹمی قوت ہیں، آبادی کی لحاظ سے دوسرا بڑا اسلامی ملک، یا تو میرے بچوں کو اس ادارے کی تربیت دلا دو یا مجھے بلڈی سویلین ہونے کے طعنے مت دیا کرو، مجھے آگاہ نہ رکھنے کی پالیسی ترک کردو، میں پاکستان کا شہری ہوں، میری لاعلمی کے ذمہ دار بھی تم ہو، اگر نہیں تو تمام کمیشن رپورٹس کو پبلک کردو، ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو لینے دو، جان چھوڑو ہماری یہ سوال مشرقی پاکستان سے علیحدگی کے بعد میرے ذہن میں بار بار آتا ہے، مقامی شریف مکہ مت بنو۔ شریف مکہ بھی زندہ لاش ہی رہ گیا تھا آخری ایام میں، کہیں تمہارے ساتھ بھی ایسا نہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments