اماں ریاست کے نام ایک بیٹے کا خط!


پیاری اماں، امید ہے آپ خیریت سے ہوں گی۔ میں جانتا ہوں کہ آج کل آپ بہت دباؤ میں ہیں۔ آپ کی گود میں ہم جیسوں نے پرورش پائی۔ آپ کے دکھ کو محسوس کیے بغیر ہم کیسے رہ سکتے ہیں؟ وقت مگر کچھ ایسا آن پڑا ہے کہ کھل کر بات کرنا اب اس قدر آسان نہیں رہا۔ اماں، ہم سب جانتے ہیں کہ لالہ مودی رام کے بزرگوں کو آپ کا مسلم محلے میں الگ گھر بسانا ہرگز قبول نہ تھا۔ چنانچہ روز اول سے ہی نہ صرف یہ کہ لالہ مودی رام کے خاندان نے خود آپ کو ستائے رکھنے کی پالیسی اپنائی بلکہ اس باب میں کابلی محلے والوں کی ہلہ شیری بھی جاری رکھی۔

اماں اب آپ کیا کرتیں؟ وہی کیا کہ پیٹ کاٹ کر ’زور آور بھائی جان‘ کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ دونوں ہمسایوں سے خوف ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے چچا سام سے ناصرف یہ کہ کچھ مالی مدد امداد کی درخواست کی بلکہ ’زور آور بھائی جان‘ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی چچا کو ہی تفویض کر دی۔ درست ہے کہ چچا سام نے بھائی جان کو اپنے تئیں پالا پوسا، آپ کی مدد امداد بھی کی، مگر یہ کیا ہوا کہ بدلے میں آپ کو اپنے گھر کی باندی سمجھ لیا۔

یہ درست ہے کہ آپ کے پہلوٹھی کے بچے اکثر کھلنڈرے اور نالائق نکلے۔ ہمہ وقت گھر میں پڑے آپس میں لڑتے جھگڑتے۔ سبھی کے مفاد مگر باہم جڑے تھے۔ جاگیردار تھے، جو پنڈت جی کے کمیونسٹ نظریات سے خوفزدہ تھے۔ کاروباری خاندان تھے، برلا اور ٹاٹا کے مقابلے پر آنے سے جو ڈرتے تھے۔ اور وہ آپ کے سدا کے مخالف ملا۔ آخری دنوں میں سبھی بستر اٹھائے چلتی ٹرین کے ڈبے میں گھس آئے۔ مسلم محلے میں جو ان سب نے ہڑبونگ مچائی، الامان الحفیظ۔

اس بیچ آپ کی ساری توجہ ’زور آور بھائی جان‘ پر مرکوز ہو گئی تو کیا عجب تھا؟ اس لاڈ پیار کا ہی مگر نتیجہ نکلا کہ خود ’بھائی جان‘ کے اندر زعم برتری پیدا ہوتا چلا گیا۔ خاندان والوں سے دور ہوتے چلے گئے۔ دوسری جانب پھر ایک دن ہم سب نے دیکھا کہ ’پچھواڑے والی خالہ‘ نے سامان سمیٹا اور اپنی راہ لی۔ کچھ تو وجہ ہوگی؟ بھرے پرے گھر کو کون چھوڑتا ہے؟ اب سنا ہے کہیں اور آباد ہے اور خوشحال ہے۔ باقی سب کردار ادھر ادھر سٹک گئے۔ ’بھائی جان‘ کے دامن پر تمام تر قربانیاں کے باوجود بدنامی کے داغ ہی آئے۔ داغ ہیں کہ خون کے دھبے ہیں، پچاس برساتیں بھی جنہیں دھو نہ سکیں۔

اماں، حادثات سے کبھی کسی نے سبق نہیں سیکھا۔ مسلم محلے میں پہلے باقاعدہ انتخابات پچیس برس کے بعد ہوئے تھے۔ مگر اس میں قصور آپ کا بھی تو ہے۔ سارے انڈے آپ نے چند لاڈلے بچوں کی ٹوکریوں میں ڈال دیے۔ اپنے دوسرے بچوں کا بھی تو کچھ خیال رکھا ہوتا۔ کرتے کرتے وہ سب پیچھے رہ گئے۔ آج آپ کا گھر الیٹ کیپچر کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں چند الیٹ لاڈلے وسائل پر قابض ہیں۔ دوسری طرف چچا سام کی دائمی محتاجی ہے۔

اماں، یہ درست ہے کہ چچا سام سے صرف اپنا محلہ نہیں، سارا شہر دبکتا ہے۔ بڑے بڑے اس کا راستہ کاٹنے سے ڈرتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں چچا سام کی دشمنی بری، مگر دوستی اس سے بھی بری۔ مگر اس قدر محتاجی بھی کیا؟ سال 1999 ء میں چچا سام قبلائی خان کا زور توڑنے کے لئے لالہ مودی رام پر مہربان ہوئے تو سنا ہے کہ ’آپا شریفن‘ نے ’بھائی جان‘ سے بالا بالا چچا سام کو اپنی خدمات پیش کر دی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ لالہ مودی رام سے درپیش خطرات کے پیش نظر کابلی محلے کے ملاؤں سے بگاڑنا نہیں چاہتی تھیں، چچا سام آپ سے ڈو مور ڈو مور کا مطالبہ کرتے رہے۔

بالآخر روٹھ گئے۔ گزرے دس برسوں میں ’زور آور بھائی جان‘ ان کے بھر پور دباؤ میں رہے۔ ’بھائی جان‘ کے خلاف آپا کا بیانیہ بھی عروج پر تھا۔ آپ تو کھل کر بول نہیں سکتی تھیں، مگر ’بھائی جان‘ نے بتا دیا کہ آپا شریفن اور ان کا خاندان لالہ مودی رام سے رابطے میں تھے۔ شنید ہے کچھ کاروباری مراسم بھی تھے۔ ہندو محلے کی ہی ایک عورت نے خبر نکالی کہ ایک خفیہ ملاقات میں آپا شریفن نے لالہ مودی رام سے یہاں تک کہہ دیا کہ ہماری اماں تو ہندو محلے والوں کے ساتھ امن امان سے رہنا چاہتی ہیں مگر ’زورآور بھائی جان‘ نہیں مانتے۔

’بھائی جان‘ کو خبر ہوئی تو سخت تلملائے۔ غصے میں ’انقلاب خان‘ کو ’آپا شریفن‘ کے پر کاٹنے کے لئے سامنے لے آئے۔ پیاری اماں، جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے، اب ’انقلاب خان‘ خود ’بھائی جان‘ کے ہاتھ کو کاٹ رہا ہے۔ معاف کرنا اماں، ’زور آور بھائی جان‘ کی عزت اور مرتبہ اپنی جگہ، سبق انہوں نے بھی نہیں سیکھا۔ اب بھی خود کو سب سے عقلمند ہی سمجھتے ہیں۔ ’انقلاب خان‘ کو قابو میں لانے کے لئے اب ایک بار پھر آپا شریفن کو پچکار اور ’انقلاب خان‘ کے کان گھٹنوں میں دیے رگڑ رہے ہیں۔

سچ مانو تو وہی نوے کی دہائی والا کھیل چل رہا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس بار چچا سام بھی اس کھیل میں شامل ہے۔ سچ ہی کہتے ہوں گے کہ چچا کے ’جمہوریت باز‘ کارندے بھی اب کچھ نہیں بولتے۔ نہ ’انقلاب خان‘ کے دوستوں کی پکڑ دھکڑ اور صحافیوں کی مار دھاڑ پر اور نہ ہی آپا شریفن کی طرف سے انتخابات کروانے سے انکار پر ۔ خود چچا سام نے تو جیسے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی ہوں۔ خیر چچا کی تو ساری تاریخ ہی ایسی ہے۔ پڑھ لکھ کر گنوایا۔ اب محض دولت کے بل بوتے پر تو کوئی بڑا آدمی نہیں بنتا۔

پیاری اماں، اللہ نے اس گھر کو کس کس نعمت سے نہیں نوازا تھا۔ دودھ سے نہیں، تین نسلوں کو آپ نے اپنے خون جگر سے پالا۔ بڑے بڑے طرم خان ہندو محلے میں ہوتے تو لالہ مودی رام کے جتھوں سے پٹ رہے ہوتے۔ مگر لگتا ہے اماں، اب آپ بھی دل ہار رہی ہیں۔ بڑھاپے نے وقت سے بہت پہلے آپ کو آ لیا ہے۔ ایک عرصے سے بیمار تو رہتی ہی تھیں، اب تو سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی ہیں۔ مہاجن سر پر اپنا ایک پاؤنڈ کاٹنے کو کھڑے ہیں۔ نسل کے بعد ایک نسل نے آپ کا خون نچوڑا، کیا اب ہڈیوں کو چچوڑنا باقی ہے؟

اب بھی مگر وقت ہے کہ بچے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ ہماری نسل ناکام سہی، نئی نسل کا جذبہ جوان ہے۔ نوجوانوں پر بھروسا ضروری ہے۔ جس کسی کو چاہیں اسے چن لیں۔ قبول کرنے میں عار کیا ہے؟ تاریخ کو دہرانا کیا ضروری ہے؟ جبر کی مگر ایک لہر ہے۔ پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ افسوس کہ انگلیاں زور آور بھائی جان پر اٹھ رہی ہیں۔ پیاری اماں، اس عمر میں ہم سے اب یہ سب دیکھا نہیں جاتا۔ ہماری نسل کے لوگ سر جھکانے کے عادی ہیں۔

نئی نسل کو مگر یوں دھمکانا آسان نہیں۔ کابلی محلے سے نقاب پوش ایک بار پھر چڑھے آتے ہیں۔ چومکھی جنگ جیتنے کے لئے چچا سام کی نہیں، اس کے کارندوں کی نہیں، خود اپنے بچوں کی حمایت درکار ہو گی۔ یہ بچے مایوس سہی، ناراض سہی، اپنے گھر سے مگر پیار کرتے ہیں۔ مستقبل انہی کا ہے۔ اماں، انہیں گلے سے لگا لیں۔ اماں، گھر جیسا بھی ہو، گھر کو بچا لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments