غالب اور عشقِ علی علیہ السلام


ادبیات سخن میں ”مناقب امام علی“ ایک خوش عقیدت اور والہانہ موضوع ہے۔ اس موضوع پر عربی، فارسی اور اردو ادب کے بلند پایہ اور عظیم المرتبت شعرا و ادبا نے نظم و نثر کی صورت اپنے اپنے ولولہ نیک اور پاکیزہ طبع کے تحت خامہ فرسائی کی ہے۔ جس سے امام علی ع کی مدح کے تناظر میں شعرا و ادبا کے جوش ایمانی اور ارادت مندی کا ثبوت ملتا ہے۔ اس ضمن میں قصیدہ نگاری، منقبت نگاری، مرثیہ گوئی اور سلام گوئی کے حوالے موجود ہیں۔

قصیدہ نگاری اس حوالے سے زیادہ اہم صنف ہے جو منقبتی و مدحیہ اشعار کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ اسی طرح شعوری و لاشعوری طور پر غزلوں میں بھی منقبتی اشعار کی جھلک محسوس ہوتی ہے۔ بقول رسول کریم امام علی سے محبت عین ایمان ہے۔ آپ کی شان اقدس میں سینکڑوں صحیح اور مستند احادیث قلم بند ہیں۔ معمورہ عالم میں امام علی پیمبر عقل و خرد اور ایک انصاف پرور شخصیت ہیں۔ جن کے افکار آسمان رفعت ہیں جو خلق کے لیے فلاح کی راہ ہیں۔

عربی منقبت نگاری میں حسان بن ثابت، امام شافعی، کمیت، حمیری جیسے عمدہ ترین شعرائے عرب اور فارسی ادبیات میں فردوسی، عطار، شمس تبریز، مولانا روم، سعدی، حافظ شیرازی اور جامی سمیت کئی نامور شعرا جبکہ اردو ادب میں ملا وجہی، قلی قطب شاہ، ولی دکنی، غواصی، نصرتی، انیس و دبیر، میر تقی میر، مرزا غالب، اقبال اور جوش ملیح آبادی جیسے عظیم شعرا ”مناقب امام علی“ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔

مرزا غالب آسمان ادب کا خورشید انور ہیں۔ آپ کے بلند افکار، طبع آزمائی اور تخیلاتی و مشاہداتی پرواز سے ادب شناس خوب واقف ہیں۔ مرزا غالب جیسا عظیم شاعر بھی امام علی کے در پر اپنا سر جھکاتا نظر آتا ہے۔ کلام غالب میں امام علی کی مدحت سے لبریز منور واضح شعاعیں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ آپ کے بہت سے اشعار توصیف علی کے وظائف پر کار بند ہیں اور اس برکت سے پورا کلام مہک رہا ہے۔

”مناقب علی“ کو ہم مرزا غالب کے مکاتیب، فارسی اور اردو کلام میں دیکھ سکتے ہیں۔ مدحت علی ع کا زیادہ تر حصہ آپ کے فارسی اشعار سے معطر ہے اور نغمہ علی علی کی سدا سے نوائے سروش ہے۔ شان رسول کریم اور مدح اہل بیت آپ کے فارسی کلام کا خاصہ ہے۔ یادگار غالب میں حالی لکھتے ہیں کہ ”مرزا نوشہ نے تمام عبادات و فرائض میں سے صرف دو چیزیں لے لی تھیں، ایک توحید وجودی اور دوسرا نبی ع اور آل نبی ع کی محبت اور اسے وہ وسیلۂ نجات سمجھتے تھے۔“

امام علی مرزا غالب کی پسندیدہ ترین شخصیت ہیں اور اپنے کلام میں امام علی، حیدر، بو تراب، ساقی کوثر، حوض کوثر اور جانشین مصطفی جیسے اسماء سے یاد کرتے ہیں۔ یوں فارسی کلام مدحت علی ع میں خوشبوئیں بکھیرتا نظر آتا ہے

مرزا غالب خود سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں کچھ نہیں جانتا ماسوائے اس حقیقت کے، کہ یہ عالم امام علی کے طفیل ہے اور مرزا آدم کی خاک سے نسبت کو امام علی کے لقب ”بو تراب“ سے منسلک کرتے ہیں۔

طفیل اوست عالم غالباً دیگر نمیدانم
گراز خاک است آدم، پای نام بو تراب استی

ادب کی تاریخ میں ”منصور حلاج“ اور اس کا وجہ شہرت اور وجہ موت نعرہ ”انا الحق“ تلمیح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب نے کس شاندار اور آفریں سلیقے سے مودت امام علی کا اظہار کرتے ہوئے انا الحق کو انا اسداللہ سے تبدیل کیا ہے۔

منصور فرقۂ علی اللہیان منم
آوازۂ انا اسد اللہ در افگم

”میں علی کے فرقے یعنی پیروان امام علی ع کا منصور ہوں، میں اسد اللہ کا نعرہ لگاتا ہوں یعنی اسداللہ پکارتا ہوں۔ یعنی میں حضرت علی کا عاشق ہوں اور ان کی ذات میں واصل ہوں، منصور نے انا الحق کہا تھا اور میں انا اسداللہ کہتا ہوں“

بہت سے علما کرام اسم اعظم کی تلاش میں ابہام کا شکار ہوتے ہیں۔ کسی ایک نام کے اسم اعظم ہونے پر سب علماء متفق نہیں ہیں۔ اسم اعظم ایسا بابرکت نام ہے جس کی بابت مشہور ہے کہ اگر اس نام کے وسیلے سے دعا کی جائے تو ضرور مستجاب ہوتی ہے۔ مرزا غالب نے اسم اعظم کے بارے میں کہا ہے کہ ”اگر مجھ سے تو پوچھے گا کہ اسم اعظم کیا ہے تو میں بالکل بخل نہیں کروں گا بلکہ کہوں گا کہ اسم اعظم علی کا نام ہے۔ نام علی کا ورد اسم اعظم کی حیثیت رکھتا ہے جس سے طالب کی ہر خواہش پوری ہوجاتی ہے۔“

ورد من بود غالب یا علی ع بو طالب
نیست بخل با طالب اسم اعظم از من پرس
علی سے محبت کا ایک اور فارسی شعر ملاحظہ کریں
عالم توفیق را غالب سواد اعظم
مہر حیدر پیشہ دارم، حیدر آباد خودم

”میں تائید الہی کی دنیا کا سواد اعظم (بڑا شہر ) ہوں، عشق علی میرا پیشہ ہے میں نے اپنی ذات کو حیدر آباد یعنی مقام حیدر بنا لیا ہے“

ایسے بے شمار فارسی اشعار میں غالب نے امام علی سے اظہار عشق بیان کیا ہے۔

جبکہ آپ کے اردو دیوان میں بھی ”مناقب علی“ میں کئی اشعار خلوص و محبت سے مزین نظر آتے ہیں جس سے نماز عشق اور بندگی بو تراب کا ثبوت ملتا ہے۔

غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگی بو تراب میں
غالب ہے رتبہ فہم تصور سے کچھ پرے
ہے عجز بندگی جو علی کو خدا کہوں
مشکیں لباس کعبہ علی کے قدم سے جان
ناف زمین ہے نہ کہ ناف غزال ہے

یہ اشعار عام فہم انسان کے لیے شرکیہ محسوس ہوسکتے ہیں لیکن غالب چوں کہ افلاکی تخیل رکھتے ہیں اس لیے امام علی کو مظہر خدا و رسول ص تصور کرتے ہیں۔

غالب اپنے کلام میں رنج و الم سے بڑی ہمت اور جرات آزما سے نبٹنے کا درس دیتے ہیں۔ لیکن اس ہمت اور جرات کو وہ حضرت علی جیسے امام کی قوت اور تحریک بخشتے ہیں۔ وہ لغزش پا کو نغمہ یا علی سناتے ہیں اور غموں سے متصل دلوں کو علی کے نام کی تسبیح کا خوں بہا دے کر راحت محسوس کرواتے ہیں۔ وہ دکھوں سے نڈھال اور بد حواسوں کی علی کے نام سے حوصلہ افزائی کرتے اور ہمت بندھاتے ہیں

کیا غم ہے اس کو جس کا علی سا امام ہو
اتنا بھی اے فلک زدہ کیوں بد حواس ہے
لغزش پا کو ہے بلد نغمۂ یا علی مدد
ٹوٹے گر آئینہ اسد سبحہ کو خوں بہا سمجھ
بہت سہے غم گیتی شراب کم کیا ہے
غلام ساقی کوثر ہوں مجھ کو غم کیا ہے

علاوہ ازیں غالب کو قصیدہ نگار کی حیثیت سے منفرد مقام حاصل ہے۔ اردو شاعری میں آپ نے چار قصائد لکھے ہیں جن میں سے دو قصائد ”مناقب علی“ پر ہیں۔ اپنی جدت طرازی، منفرادیت، آرائش الفاظ، دلکش تراکیب، تشبیہات و استعارے، صناعی لفظیات اور معنی آفرینی کے سبب مرزا کے قصائد فنی اور فکری دونوں اعتبار سے موزوں ثابت ہوئے ہیں۔ غالب کے قصیدے عبد السلام ندوی کے بقول ”اردو شاعری کا سرمایۂ ناز ہیں“ ۔

غالب کا قصیدہ ”دہر بیشک جز یکتائی معشوق نہیں“ ایک شاہکار تخلیق اور والہانہ عقیدت کا اظہار ہے۔ اس کی صنف تمہید یہ ہے۔ تشبیب سے اس قصیدہ کا آغاز ہوتا ہے۔ جو نہایت متصوفانہ تشبیب ہے جس میں وحدت الوجود کا بیان اور دنیا و مافہیا کی نفی کا ادراک ہے۔ فلسفیانہ بحث جاری ہے مگر اچانک غالب کو خیال آتا ہے کہ میں قصد سے ہٹ کر کس بحث میں الجھ رہا ہوں وہاں سے غالب خود کو ملامت کرتے ہوئے گریز کا شعر کہتے ہیں

کس قدر ہرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً باللہ
یک قلم خارج آداب وقار و تمکیں
یوں امام علی کے نام سے قلم کو استغفار کرواتے ہیں اور مدح کی جانب بڑھتے ہیں
نقش لا حول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر
یا علی عرض کر اے فطرت وسواس قریں
مظہر فیض خدا، جان و دل ختم رسل
قبلۂ آل نبی (ص) ، کعبۂ ایجاد یقیں
پناہا! دل و جاں فیض رسانا! شاہا!
وصی ختم رسل تو ہے بہ فتوائے یقیں
جسم اطہر کو ترے دوش پیمبر منبر
نام نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیں
آستاں پر ہے ترے جوہر آئینۂ سنگ
رقم بندگی حضرت جبریل امیں
کس سے ہو سکتی ہے مداحی ممدوح خدا
کس سے ہو سکتی ہے آرائش فردوس بریں
جنس بازار معاصی اسد اللہ اسدؔ
کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں
مدح میں امام علی کی مشہور زمانہ تلوار ذوالفقار کا چرچا بھی دکھائی دیتا ہے
برش تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا
قطع ہو جائے نہ سر رشتۂ ایجاد کہیں

نیز عشق و محبت کے شوق میں دلدل (امام علی کا گھوڑا) کے قدموں پر اپنی جبین کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ

طبع کو الفت دلدل میں یہ سرگرمی شوق
کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں

آخر پر دعائیہ کلمات ہیں جس میں دشمنان علی کو واصل جہنم کرتے ہیں جبکہ موالیان حیدر کو فردوس بریں کا حق دار ٹھہراتے ہیں۔

نثری صورت، مکاتیب میں مرزا غالب جگہ جگہ امام علی سے عشق و مودت کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔ صفیر بلگرامی کے نام خط میں لکھتے ہیں کہ

میں قائل خداوند نبی و امام ہوں
بندہ خدا اور علی کا غلام ہوں

دیگر خطوط میں کہیں پر خود کو بندۂ علی کہتے ہیں، کہیں پر علی کے نام کی قسم اٹھاتے ہیں اور کہیں پر علی کے دشمنوں پر اظہار ناراضی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر خدا ہمیں جہنم بھیجتا ہے تو وہ ضرور ہمیں جہنم میں علی کے منکروں کو جلانے والا ایندھن بنائے تا کہ منکرین علی مزید جل سکیں۔

غالب کا مسلک شیعہ تھا یا نہیں، اس بحث سے ہٹ کر ان چنیدہ فارسی و اردو اشعار کے آئینے میں ہم مرزا غالب کی عشق علی سے سرشار عقیدت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آپ خدائے بزرگ اور سرکار دو عالم کے بعد سب سے بڑھ کر امام علی کو ترجیح دیتے ہیں اور آپ کی راہ میں اور نجف کی خاک میں خاک ہو کر فنا ہونے کے خواہش مند ہیں اور اسی میں اپنی عظمت محسوس کرتے ہیں۔

کہ دلخستۂ دہلوی مسکنی
ز خاک نجف باشدش مدفنی
نوٹ :تحریر میں فارسی اشعار کے مترجم صوفی غلام مصطفی تبسم ہیں۔ ( کتاب شرح فارسی غزلیات غالب )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments