مشرف کا انڈیا سے محبت اور نفرت کا تعلق: ’واجپائی نے بتایا کہ مشرف بولتے رہے اور میں چپ بیٹھا سنتا رہا‘


مشرف
سنہ 2001 میں پرویز مشرف کا خیال تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سردمہری کے تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ایک نیا باب شروع کی ضرورت ہے۔

ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں حریف، کشمیر پر دو جنگیں اور ایک تنازعے میں آمنے سامنے آ چکے تھے۔ دونوں پڑوسیوں کے درمیان کشمیر کو تقسیم کرنے والی سرحد کے ساتھ امن ناگزیر تھا۔

اس کے باوجود مشرف کے لیے یہ مناسب وقت نہیں تھا کہ وہ اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ امن کی خواہش کریں۔

انڈیا نے مشرف کو سنہ 1999 میں کارگل کے تنازع کا معمار سمجھا اور شبہ ظاہر کیا کہ اسی سال انڈین ایئر لائنز کے طیارے کے اغوا میں جنرل مشرف اور ان کی فوج کا ہاتھ تھا۔

اکتوبر 1999 کی بغاوت جس میں مشرف نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو ہٹا دیا تھا، نے بھی انڈیا کو چوکنا کر دیا تھا۔

پرویز مشرف نے اپنی یادداشتوں میں بتایا کہ انھیں سنہ 2001 کے اوائل میں انڈین ریاست گجرات میں آنے والے زلزلے کے بعد ’برف پگھلانے کا موقع‘ ملا۔

دہلی میں پیدا ہونے والے جنرل مشرف نے اس وقت کے انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو تعزیت کے لیے ٹیلی فون کیا اور ادویات سمیت امداد بھیجی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس سے برف پگھل گئی تھی اور انڈیا کے دورے کے لیے ملاقات کی دعوت بھی ملی۔‘

اپنی یادداشتوں میں سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری ان واقعات کا تھوڑا سا مختلف احوال بیان کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’دل کی تبدیلی‘ میں واجپائی کے نائب ایل کے ایڈوانی نے مشرف کو مدعو کرنے کا خیال پیش کیا اور ان کا خیال تھا کہ انڈین وزیر اعظم کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

India

شمالی شہر آگرہ میں واجپائی اور مشرف کے درمیان جولائی 2002 میں دو روزہ سربراہی ملاقات میں بڑا ڈرامہ ہوا۔ دونوں رہنماؤں اور ان کے وزرائے خارجہ کے درمیان طویل ملاقاتوں کے نتیجے میں مشترکہ معاہدے پر پہنچنے کے لیے دو کوششیں ہوئیں۔ اس سے مشرف کو مزید غصہ آ گیا اور وہ غصے میں اٹھ کر چلے گئے۔

مشرف نے بتایا کہ وہ آگرہ سے روانہ ہونے سے قبل رات گئے واجپائی سے ملاقات کرنے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے انھیں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ لگتا ہے ہم دونوں سے اوپر کوئی ہے جو ہم پر غالب آنے کی طاقت رکھتا ہے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ ہم دونوں کی تذلیل ہوئی‘

مشرف کی یادداشت کے مطابق ’وہ (واجپائی) بے ساختہ وہیں بیٹھے رہے۔ میں ان کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے چلا گیا۔‘

پرویز مشرف کا خیال تھا کہ واجپائی ’اس لمحے کو سمجھنے میں ناکام رہے اور تاریخی موقع ضائع کر بیٹھے۔‘

انڈیا نے اس کانفرنس کی ناکامی کا ذمہ دار مشرف کو قرار دیا۔

واجپائی کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ مشرف نے واجپائی کے ساتھ اپنی اہم ملاقات کی صبح انڈین صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی ناشتے کی میٹنگ کر کے ماحول سازگار نہیں رہنے دیا تھا۔ کچھ شرکا نے آف دی ریکارڈ کی جانے والی اس گفتگو کو ریکارڈ کیا تھا اور یوں یہ ویڈیوز انڈین میڈیا تک پہنچ گئیں۔

اس ملاقات میں شریک ایک ایڈیٹر نے کہا کہ ’ایک نجی میٹنگ کو عوامی تماشے میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔‘

جسونت سنگھ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ مشرف نے بہت کھل کر بات کر دی تھی۔ انھوں نے کہا کہ مشرف کارگل کے ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات کو سمجھنے سے عاری تھے جبکہ اس طرح کے ماحول میں واجپائی ایک ’نئی شروعات‘ کی پیشکش کر رہے تھے۔

جسونت سنگھ نے لکھا کہ اجلاس میں مشرف نے وضاحت کی کہ وہ کس طرح مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے ہیں اور کہا کہ ’پاکستان کی طرف سے کوئی دہشتگردی نہیں ہوئی۔‘ انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا تھا کہ مشرف ’کسی بھی طرح‘ کسی معاہدے تک پہنچنے کی جلدی میں تھے۔

جسونت سنگھ کے مطابق ’جب معاہدے کا مسودہ واجپائی اور ان کی کابینہ کو دکھایا گیا تو ان کا اجتماعی نقطہ نظر یہ تھا کہ اس میں ’دہشت گردی کے مسئلے پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

سابق فوجی صدر پرویز مشرف طویل علالت کے بعد وفات پا گئے

’مشرف نے ’لیجنڈ‘ بننے کا موقع گنوایا، مزید فیصلہ تاریخ کرے گی؟‘

وہ اقدامات جنھوں نے پرویز مشرف کے عروج کو زوال میں بدلا

Musharraf

واجپائی سے دوران ملاقات مشرف کے اٹھ کر چلے جانے پر انڈین رہنماؤں کا مؤقف پاکستانی رہنما سے مختلف ہے۔ جسونت سنگھ کے مطابق انھیں انڈیا کے وزیراعظم واجپائی نے بتایا تھا کہ ملاقات میں مشرف بولتے گئے اور میں چپ بیٹھا سنتا رہا۔

جسونت سنگھ کے مطابق آگرہ سمٹ کا سب سے بڑا سبق یہی تھا کہ تشہیر کے ذریعے دونوں مخالف ممالک کے درمیان مذاکرات کا طریقہ درست نہیں۔

انھوں نے لکھا کہ ’اس طرح کی سفارتی ملاقاتیں فوجی طور طریقوں سے مختلف ہوتی ہیں۔‘

لیکن اسی سال کے بعد مشرف نے لکھا کہ انھوں نے نیپال میں ایک علاقائی سربراہی اجلاس میں واجپائی کو حیران کر دیا جب وہ میز کے سامنے گئے اور واجپائی کی طرف مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ ان کے مطابق واجپائی کے پاس کھڑے ہونے اور مصافحہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘

ان کا خیال تھا کہ ’مصافحہ کا مطلوبہ اثر ہوا۔‘

واجپائی نے جنوری 2004 میں ایک سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کیا اور فریقین نے امن عمل کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تاہم واجپائی کی پارٹی اس سال ہونے والے انتخابات میں شکست کھا گئی۔

ستمبر میں مشرف نے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے موقع پر نیویارک میں نئے وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کی۔ سنہ 2005 میں وہ دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے انڈیا آئے تھے اور دونوں رہنماؤں نے امن عمل کو آگے بڑھانے اور مسائل کا ’آؤٹ آف باکس‘ حل تلاش کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

متعدد ماہرین نے انڈیا کے ساتھ ڈیڈلاک ختم کرنے کے لیے مشرف کے سنہ 2006 کے کشمیر پر چار نکاتی منصوبے کو قابل عمل قرار دیا۔

Musharraf Manmohan

اس مسقبل کے منصوبے میں پاکستان کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر پر اپنے دعوے سے پیچھے ہٹنا شامل تھا۔ اس میں شرط یہ تھی کہ یہ ایسی صورت میں ہو گا جب دونوں خطوں یعنی پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں کو نقل و حرکت کی آزادی ہو گی۔

ماہرین کے مطابق یہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان امن کے لیے ممکنہ طور پر بہترین حل تھا تاہم پرویز مشرف کے بارے میں انڈیا میں رائے ہمیشہ تقسیم رہی۔

جسونت سنگھ نے مشرف کے ’کئی پہلوؤں‘ کے بارے میں لکھا۔

کیا وہ امن پسند آدمی تھے؟ یا وہ محض ایک چالاک ’پاپولسٹ‘ تھا، جنھوں نے کشمیر کی تحریکِ حقِ خود ارادیت کی حمایت کرتے ہوئے ایسا رویہ اختیار کیا جس سے ان کا انڈیا مخالف تاثر بھی زائل ہو سکے اور انڈیا بھی خوش ہو جائے۔

واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کگلمین کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی مشرف کی انڈیا کے خلاف غیرمتزلزل دشمنی کے بارے میں بات کر سکتا ہے جیسا کہ ان کی پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے جن کے تحت عسکریت پسندوں کو تربیت دی اور امریکہ سے ملنے والی امداد کا رخ کسی اور طرف موڑ دیا۔‘

ان کے مطابق اس سب کا مقصد انڈیا کو ہدف بنانا تھا۔ ان کے مطابق ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ کسی بھی پاکستانی رہنما سے زیادہ انڈیا کے ساتھ امن معاہدے کے قریب پہنچ چکے تھے۔

مائیکل کگلمین کا کہنا ہے کہ کچھ دیگر واقعات نے اس سارے ماحول کو سازگار نہیں رہنے دیا۔ ان کے مطابق اگر سنہ 2008 میں ممبئی پر دہشت گردانہ حملے نہ ہوئے ہوتے اور سنہ 2007 میں مشرف کو اقتدار سے بے دخل کرنے والی جمہوریت پسند تحریک کا آغاز نہ ہوتا تو مشرف انڈیا کے ساتھ بہتر انداز میں امن معاہدہ کر سکتے تھے۔

ان کے مطابق ’اگر ایسا ہو جاتا تو آج ہم مشرف کی میراث کے بارے میں بہت مختلف گفتگو کر رہے ہوتے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments