نون لیگ کا نیا بیانیہ


گرچہ اس ملک میں قانون کی عملداری کبھی نہیں رہی لیکن غیر آئینی اقدام ہمیشہ باوردی خواص کا وتیرہ رہے ہیں۔ پچھلے سال تحریک عدم اعتماد کے دوران غیرآئینی کام کر کے سویلین عمران خان اور صدر عارف علوی نے پہلی مرتبہ ان کی ہم سری کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ اس بار کو اٹھانے کا حوصلہ، آئینی عہدے پر کام کرنے والے خاں صاحب کے قریبی ساتھی، سپیکر کو بھی نہیں تھا۔

عمران خان یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے کہ تین نومبر 2007 کا مشرف کا غیر آئینی قدم ان کو سنگین غداری کے جرم میں پھندے کے قریب تو لے گیا، ان کی حکومت کو دوام نہ دلا سکا تھا۔ عمران خان مقبولیت کی پشت پناہی کی وجہ سے سنگین غداری کے مقدمے سے تو بچ گئے لیکن حکومت وہ بھی نہ بچا سکے، ہاں آنے والے سویلین حکمرانوں کے لیے چھوٹی موٹی غیر آئینی حرکتوں کو بنیاد مہیا کر گئے۔

اس سے کئی سال پہلے ان کے پالن ہار اس جرم کی سنگینی اور عوامی ردعمل سے ڈرتے ہوئے غیرآئینی حکومت حاصل کرنے کی بجائے ہائبرڈ رجیم کا آئینی مسودہ گانٹھ چکے تھے۔ وہ تجربہ بری طرح پٹ گیا تو ہائبرڈ بچے کے مائی باپ، دونوں کو اپنی اپنی زندگی کی فکر پڑ گئی۔ ایک لندن پدھارا تو دوسرے کو پناہ کے لیے بھٹو مرحوم والا کاغذ کا ٹکڑا جیب سے نکال کر لہرانا پڑا۔ یہ چالاکی عمران خان کی حکومت تو نہ بچا سکی لیکن اس نے مسلم لیگ نون سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ چھین لیا۔ اب نون لیگ بے سہارا ہو گئی۔ چار سالہ عمرانی نا اہلی اور انتہائی بری کارکردگی بھی بے وقوفی اور لالچ کی وجہ سے ان کے گلے پڑ گئی۔

آنے والے دنوں میں نون لیگ کا ووٹ بینک کم سے کم ہوتا چلا گیا اور عمران خان کی مقبولیت مہنگائی کے طوفان میں اس کاغذ کو آسمان تک اڑا کر لے گئی۔ ان حالات میں خاں صاحب نے دونوں اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کا بگل بجا دیا۔

اب ’مرتا، کیا نہ کرتا‘ کے مصداق دس ماہ پسپائی کی سیاست کرنے کے بعد پہلی مرتبہ پی ڈی ایم نے جارحانہ کھیل کا آغاز کیا۔ عمران خاں کہا کرتے تھے، ”پی ڈی ایم والے اگر ان اسمبلیوں کو نہیں مانتے تو استعفے دیں ہم الیکشن کروا دیں گے۔“ پی ڈی ایم والے 1985 کی بینظیر بھٹو کی غلطی سے سبق سیکھ چکے تھے۔ انہوں نے تو عمران خاں کے لیے میدان خالی نہیں کیا، لیکن آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا، خاں صاحب غلطی کر گئے۔ قومی اسمبلی میں حکومت کو واک اوور دینے اور صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ دشمن کے لیے میدان کھلا چھوڑ آئے ہیں۔

اس کا مداوا کرنے کے لیے دوڑ کر اسمبلی پہنچے تو دروازے بند ہو چکے تھے۔ پی ڈی ایم نے تمام استعفے منظور کر کے کاری ضرب لگا دی۔ خاں صاحب ایک ٹانگ پر پلستر لگا کر اور دوسرے پاؤں پر خود کلہاڑی مار کر زمان پارک میں پناہ گزین ہو چکے ہیں۔ ان کے ساتھی ایک ایک کر کے خاموش کرائے جا رہے ہیں۔ نون لیگ بھی کچھ حوصلہ پکڑ رہی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم نے ریاست بچانے کے لیے اپنی سیاست کی قربانی دی ہے۔

اب خاں صاحب الیکشن کی تاریخ لینے کے لیے در بدر بھٹکیں گے۔ اس عدلیہ کی چوکھٹ پکڑیں گے جس نے 2014 کے بعد ’وچ ہنٹنگ‘ کا کھیل کھیل کر خود کو بدنام کر لیا ہے۔ میانوالی کی عدلیہ ہائبرڈ رجیم والے طرز کہن کی آخری نشانی ہے۔ جو کہ آنے والے ستمبر میں صہبائے کہن کے ساغر نو میں ڈھل جائے گی۔ جس کے بعد نون لیگ سپریم کورٹ میں اپنے پنڈنگ کیسز سننے کی درخواست کرے گی۔ اس کے بعد ان کے بیانیے میں یہ بھی اضافہ ہو جائے گا کہ ہمارے ساتھ ستمبر 2023 تک نا انصافی ہوتی رہی ہے۔ اب ہمیں انصاف دیا جائے۔

اس دوران اپنی سیاسی حکمت عملی کے نتائج جانچنے کے لیے کہ کچھ قومی حلقوں کے الیکشن ہوسکتے ہیں۔ حکومت کی موجودگی میں ہونے والے الیکشن اپوزیشن کے لیے بہت بھاری ہوتے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن قومی حلقوں میں ریاستی و حکومتی اہلکاروں کی کارکردگی کو مد نظر رکھ کر کروانے کا فیصلہ ہو گا۔ مارچ میں روزوں کا بہانہ اور اپریل میں مردم شماری کا، اس کے بعد اگر موسم ابر آلود ہوا، دھند کے امکانات کافی ہوئے تو صوبائی الیکشن بھی کروائے جا سکتے ہیں۔ اس ملک میں یہ دوسری بار ہو گا کہ ایک جانبدار حکومت کی موجودگی میں الیکشن ہوں گے۔ ایسے ہی الیکشن ہم نے 1977 میں دیکھے تھے۔ بہت سے لوگ بلا مقابلہ ہی کامیاب ہو گئے تھے۔ گرچہ اب وہ نوبت تو نہیں آئے گی لیکن

’نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر‘
سب وہی استعمال ہوں گے ۔

عمران خان مقبولیت کے کوہ ہمالیہ کی چوٹی پر ہیں۔ ان کے اوپر آسمان ہے اور نیچے کھائی۔ وہ کتنی دیر اور کس حد تک اس شدید ٹھنڈ میں ٹوٹی ٹانگ (وں ) کے ساتھ، بیساکھیوں کے سہارے کے بغیر، کھڑے رہ سکتے ہیں؟

یاد رہے 2018 میں نواز شریف کی مقبولیت اتنی زیادہ تو نہیں تھی لیکن پھر بھی انہیں ہرانے کے لیے ہر غیر قانونی حربہ استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے بعد دن بہ دن ان کی مقبولیت بڑھتی ہی گئی۔ پھر عمران کی ایک چال ان کو اس سطح پر لے آئی کہ وہ فیصل آباد سے بھی ہار گئے۔

ہمالیہ کی چوٹی پر ٹکنا بہت مشکل ہے۔ کہنہ مشق سیاست دان گر گیا تو خان صاحب جیسا سیاست دان (؟ ) کتنی دیر گزار سکتا ہے۔

یاد رہے نون لیگ اور دوسری پارٹیاں کسی صورت میں شکست گوارا نہیں کریں گئیں کیونکہ اس شکست کے بعد ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی کی مدت وہ ایک سال تک بڑھا سکتے ہیں۔ شکست ہوتی دیکھ کر وہ صوبائی الیکشن ملتوی کرنے کا غیر آئینی (؟ ) کام بھی کر گزریں گے۔ الیکشن نوے دن سے آگے لے جانے کی دو مثالیں پہلے بھی موجود ہیں۔ ایک بی بی کی شہادت کے بعد اور اس سے بہت پہلے 1988 میں بغیر کسی وجہ کے مئی میں اسمبلیاں توڑ کر الیکشن اکتوبر میں کروائے گئے تھے۔

ریاست کے لیے قربانی لے کر اگر ان کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ یہ گراؤنڈ کسی کے کھیلنے کے قابل نہیں رہنے دیں گے۔ اگر عمران خان محسنوں کو میر جعفر میر صادق کے خطابات سے نواز سکتے ہیں تو وہ پہلے کے بھی ڈسے ہوئے ہیں ان کا شور خاں صاحب سے زیادہ ہو گا۔ وہ جاتے جاتے وہی کام کریں گے جس کی بنیاد عمران خان نے اپنی حکومت جاتے دیکھ کر غیر آئینی رولنگ اور آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹرول بجلی کی قیمتیں گرا کر رکھی تھی۔ اب ملکی معیشت کسی ایسے عمل کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے بعد یہ ملک قابل حکمرانی نہیں رہے گا۔

مسلم لیگ نواز کا ”ریاست پر سیاست قربان“ کرنے کا نیا بیانیہ یہی دھمکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments