کم ظرف کو بھی اہلِ نظر کہہ دیا


یہ بات گذشتہ سال کی ہے جب پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ کی قسمت بدلی اور ان کو وزیراعظم پاکستان بنا دیا گیا۔ مجھے بہت پہلے سے اندازہ تھا کہ جمہوریت کے اس کھیل میں کسی کی بھی لاٹری نکل سکتی ہے۔ یہ تمام سیاسی لوگ ایک چہرے پر کئی چہرے سجا کر رکھتے ہیں۔ پاکستان کی فوج کے کردار پر ہمارے سیاسی لوگ آئے دن تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے سیاست دانوں میں صداقت اور امانت داری کا بہت فقدان ہے۔ اگر آپ ان کا بھاشن سنے تو یوں لگتا ہے کہ وہ سب ڈرامہ کر رہے ہیں۔ ہمارے ادب میں اور اردو زبان کے تناظر میں جھوٹ بولنا کوئی زیادہ بُری بات نہیں۔ اس کا مظاہرہ آئے دن ہمارے بے بس وزیراعظم المعروف شہباز سپیڈ کرتے رہتے ہیں۔ گذشتہ سال جب جمہوریت کے اصول کو مدنظر رکھ کر سابق سپہ سالار قمر جاوید باجوہ نے سابق وزیراعظم عمران خان کو انکار کر دیا اور فرمایا پاکستان کی افواج غیر جانبداری سے اپنی حیثیت منوانا چاہتی ہیں۔ ان کی رہنمائی ہماری سیاست کے اہم کردار اور سابق صدر آصف علی زرداری فرما رہے تھے۔ آصف علی زرداری کا کردار ہماری تاریخ میں اہم حیثیت کا حامل ہے۔ وہ اپنے آپ کو بلوچ سندھی کہتے ہیں۔ ان کی قسمت کا ستارہ بے نظیر سابق وزیراعظم پاکستان سے شادی کے بعد ہی بدلا۔ چند سالوں کی رفاقت کے بعد بے نظیر بھٹو کو اندازہ ہو گیا تھاکہ آصف علی زرداری قابل اعتبار نہیں۔ اس مرحلہ پر ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ پھر سیاست نے ان کو سخت دل بنا دیا تھا۔ ان کے بھائی کی کراچی میں جب وہ اقتدا رمیں تھیں قتل ہونا اور قتل کروانے والے کا دعوی تھاکہ وہ بے نظیر کی سیاست میں کسی کی حصہ داری کے خلاف ہے۔ بے نظیر اس وقت سے اپنے شوہر آصف علی زرداری سے خوفزدہ تھیں۔
ہماری پاکستانی سیاست اور معیشت میں دور پار ملک امریکہ کا بہت ہی عمل دخل ہے۔ آزادی کے بعد برطانیہ کے سایہ شفقت سے محروم ہونے کے بعد بھارت پر روس کی توجہ تھی اور ہماری قسمت کا ستارہ امریکہ سے مربوط ہو گیا۔ امریکہ کو ایشیا امیں اپنی مرضی کا حلیف درکارتھا۔ اس وقت بھی اور آج بھی پاکستان علاقائی طور پر بہت اہم حیثیت کا حامل ہے مگر پاکستان کے بدقسمت عوام کو اس کا ثمر نہیں مل رہا۔ آج ہماری سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس میں امریکی دخل اندازی بہت نمایاں ہے۔ ہمارے ہاں وزیراعظم حضرات امریکی توجہ اور مشاورت سے بنائے جاتے رہے ہیں۔ امریکی مداخلت ہماری عسکری قوت میں بہت ہے اور ہمارے اسلحہ کے ذخائر میں امریکی اسلحہ سرِفہرست ہے اور ایسا بھی امریکی اسلحہ ہے جو صرف ان کی اجازت سے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر اسلحہ کی خریداری کا حساب رکھا جائے تو وہ کئی امیر کبیر ملکوں کی آمدنی سے زیادہ نظر آئے گا۔ مگر اتنی توجہ کے باوجود پاکستان کو توڑنے میںامریکی سوچ کا بہت کردار ہے۔ امریکی ہماری افواج کے مداح ضرور ہیں اور اس کی وجہ پیشہ ورانہ ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے سیاست دانوں پر بھی بہت مہربانی رکھی۔ ہمارے سابق صدر اور ملک کے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان امریکی شفقت اور توجہ سے ملک چلاتے رہے مگر جب امریکہ کو متبادل مل گیا تو ان کو بے اثر چھوڑ دیا گیا۔ پھر اس نے بھٹو صاحب پر مہربانی فرمائی اور ایٹم بم بنانے میں راستہ ہموار کیا اور طریقہ سے ایٹم بم بنانے میں مدد بھی کی تاکہ بھارت سے مقابلہ کے لیے پاکستان خودمختار ہو۔ یہ اس کا احسان ضرور ہے۔
آج پاکستان میں سیاست اور معیشت میں امریکی کردار آج بھی نمایاں ہے۔ عمران کو وزیراعظم بنانے کے لیے ان کی مشاورت ہمارے عسکری اداروں کے ساتھ رہی اور امریکی دوستوں کا خیال تھا عمران خان یورپ سے متاثر ہے اور وہ ان کے مفادات کا نگراں ہو سکتا ہے مگر عمران خان دوسرے سیاست دانوں کی طرح قابل اعتبار نہیں تھا۔ وہ سوچتا تھا اور کھلاڑی ہے۔ اس کے اقتدار کے پہلے دو سال تو امریکہ کے ساتھ بہترین تھے پھر امریکی سیاست میں امریکی افواج کے کارن تبدیلی آئی۔ اس تبدیلی کی وجہ سے عمران خان محرم سے مجرم بن گیا۔ اس بات کا اندازہ عمران کو بھی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پاکستان کی افواج کو امریکی مداخلت کا اندازہ ہے سو وہ مطمئن تھا۔ مگر امریکہ کو خطہ میں تبدیلی کے کارن عمران خان قبول نہیں تھا اور اس نے عسکری حلقوں کی مدد سے جمہوریت کے زہر سے عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش کی،وہ مکمل ناکام رہا۔ عمران خان کو اندازہ ہے مگر وہ مسلسل اس جنگ میں لڑ رہا ہے۔ جنرل باجوہ کا کردار اس سارے سیاسی ڈرامہ میں وقتی رہا اور اس کو کوئی تحفظ بھی نہیں دیا گیا۔ اب نئے کمان دار جنرل عاصم کا امتحان ہے۔ ان کو امریکی کردار کا اندازہ ہے۔امریکہ نے جنرل باجوہ کی مدد سے افواج میں ایسی مداخلت کی اور 12جنرلوں کی ایک دم ترقی نے فوج میں بے چینی کو نمایاں کر دیا ہے۔ امریکہ ہمارے ہاں شفاف انتخابات نہیں چاہتا اور سیاستدان بھی۔یہ جنگ 2023ء میںہی کسی طرف لگ سکتی ہے اور امریکہ سے آزادی مل سکتی ہے۔ عمران خان سیاست کی کرکٹ میں اہم بن کر سامنے آ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments