فسادات


مسلمانوں کے آج حالات یہ ہے کے فرقوں میں بٹنے کے بعد وہ ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں اگر انھیں کوئی مسلمان سمجھتا ہے تو وہ خود کافر ہیں اور یہ کافر جب مسلمانوں کو چھوٹی سے چھوٹی بات پر لڑتے جھگڑتے ایک دوسرے کی خون کی ہولی کھیلتے دیکھتے ہیں تو انھیں مسرت حاصل ہوتی ہے انھیں اس بات سے خوشی ملتی ہے کے وہ مسلمان جس میں وہ ادیب پیدا ہوئے کے ان کی لکھی ہوئی کتابیں جب دریا میں بہائی گئی تو دریا کا رنگ بدل گیا آج آپس میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کے ترقی کے میدان میں صفر ہو گئے ہیں وہ مسلمان جو دنیا کو ایجادیں دیتے تھے آج انھیں کے غلام ہو گئے انھیں کی ایجادوں کے آسرے پر ہو گئے ہیں کیونکہ آج مسلمان نہ دین کو سمجھنا چاہتے ہیں نہ دنیا کو کیونکہ اگر وہ دین کو صحیح سے سمجھے تو یہ معلوم ہو کہ حضور اکرم ﷺ کی حدیث ہے کے مسلمان وہ ہے کے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو اگر قرآن کھول کر پڑھ لیا جائے تو معلوم ہو کہ جب بی بی عائشہ پر الزام لگایا گیا اور ان کے کردار کی گواہی قرآن نے دی تو ان کے والد محترم کو اس بات کی اجازت دی گئی کے وہ لوگ جنھوں نے ان کی بیٹی پر الزام لگایا ہے ان کو سزا دی جائے تو انھوں نے صدق دل سے ان لوگوں کو معاف کر دیا نہ کہ فساد کیا اور انھیں سرعام رسوا کروایا کیونکہ اللہ معافی کو پسند کرتا ہے۔

آج سب سے بڑا مسئلہ دین سے دوری کے ساتھ یہ ہے کے چند جماعتیں اپنے فرقے کو پھیلانے کے لیے ہر رستہ اپنا رہی ہے جو صحیح ہے یا نہیں ان لوگوں کو بھی نہیں معلوم جو اس کے پیچھے چل رہے ہیں ایک عدد عالم کے چند بیانات سنے جاتے ہیں اور اس جماعت کا حصہ بن لیا جاتا ہے نہ کتابیں پڑھی جاتی ہے نہ خود سے کبھی قرآن نہیں کھولا جاتا اس کا ترجمہ خود پڑھنے کی توفیق نہیں کی جاتی ہے کے یہ بات جانی جا سکے کے سامنے والا جو کچھ کہہ رہا ہے وہ صحیح ہے یا پھر کہیں کچھ گڑبڑ ہے کچھ غلط ہے کسی کے کہے پر اندھا اعتبار کرنا تو کسی طور درست نہیں۔

اس لیے کوشش تو بہرحال اس بات کی ہی کرنی چاہیے کے خود جانا جائیں سمجھا جائیں تاکہ اس بات کا اندازہ ہو کے جس جماعت کا آپ حصہ ہیں وہ آپ کو صحیح راہ کی طرف گامزن کر بھی رہی ہے؟ یا پھر آپ صرف ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔

افسوس اس بات پر ہوتا ہے کے آج ہر طرف فسادات کی فضا ہے کہیں مذہب کے نام پر فسادات عام ہے اور کہیں ذات، نسل فسادات کا باعث بن رہی ہے۔ فسادات کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کے صرف ایک مذہب، ایک ذات، ایک نسل کو اولین ترجیح دی جائے اور اسے ہی سب کچھ سمجھا جائے اور وہ ہے انسانیت اگر انسانیت کو ہی سب کچھ سمجھا جائے تو بے گناہوں کے جنازے اٹھنا بند ہوجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments