چار آر کو کیسے آرپار کرنا ہے
ہم کچھ سیاسی، سماجی، سائنسی اور ادارتی مغالطوں میں محو رہتے ہیں۔ سیاسی مغالطہ یہ کہ جس طرح پورے 71 سال سے ملک کو چلایا جا رہا ہے، اس سے بہتر کوئی اور طریقے موجود ہی نہیں ہیں۔ اور اس لیے سیاست دانوں کی سیاست کرنا اور ملک چلانے جیسے اہم کام پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ سماجی مغالطہ یہ ہے کہ ہم جیسے سماجی اور اخلاقی اقدار کسی کے بھی نہیں ہو سکتے، اور جس کو ساری دنیا جہالت اور دقیانوسی خیالات کہتی ہے۔ دراصل وہی تو سماجی بڑھائی کا ثبوت ہے۔ ہمارا سائنسی مغالطہ کمال کا ہے اور اس کا اظہار ہماری درسی کتب، سرکاری اسکول، کالج اور جامعات میں بھرپور ہوتا ہے۔ جہاں پر بھی کوئی قابل استاد سائنس پڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو مذہب کی غلط تشہیر کر کے چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہمارے افسر شاہی کا ادارتی مغالطہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ افسر کے پیچھے لگا لفظ شاہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اب بھی بادشاہت میں کام کرنے کے عادی ہیں اور رعیت کے لیے اپنے اپنے محکمے کے بادشاہ ہیں اور اپنے اپنے وزیر یا بڑے آدمی کے نوکر ہیں۔ ان میں اکثر یہ دلائل دیتے ہیں کہ ”گر ہمیں ملک چلانے دیا جائے تو ہر چیز درست کر دیں گے!“ اور یہ دلیل دیتے وہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان بننے کے شروع سے لے کر آج تک انہوں نے یا تو ملک چلانے میں حصہ ڈالہ ہے یا پھر خود ملک چلایا ہے۔
ان کو اک اہم ادارتی مغالطہ یہ بھی ہے کہ پالیسی بنانا ضروری بالکل نہیں۔ ان نرم کاموں پر پیسہ اور وقت ضائع کرنا فضول ہے۔ اور کوئی بھی پالیسی بنانے میں عام لوگوں کا کیا کام! ؟ ان کو پالیسی بنانے میں کیا سروکار؟ وہ ہوتے کون ہیں۔ پھر پالیسی کو کون پڑھتا ہے ؛ یہ تو منوں مٹی تلے دب جانے کے لیے ہوتی ہیں!
(جب یہ کالم لکھ کر پورا کیا اور مغالطہ کی جمع ڈھونڈنے کی کوشش کی تو محترم خورشید ندیم کا روزنامہ دنیا کی 25 جون 2020 کی اشاعت میں چھپا ہوا کالم ’نو سیاسی مغالطے‘ پڑھنے کو ملا۔ حسن اتفاق یہ کہ انہوں نے سیاسی مغالطے کچھ وہ بیان کیے ہیں جن کا ذکر میں نے بھی کیا ہے۔ بس ان کے پہلے سے موجود ان خیالات کو کسی اور پیراہن میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ اور ان کی مہربانی کی وجہ سے مجھے یہ بھی یقین ہو گیا کہ مغالطہ کی جمع کو ’مغالطے‘ لکھا جا سکتا ہے! )
اس پورے پس منظر میں ہمیں عالمی طور پر تسلیم کیے ہوئے اپنے چار آر۔ ریزیلینٹ۔ ریکوری، ریکنسٹرکشن اور ریہیبلیٹیشن کے ڈھانچے (فریم ورک) کو ، 2022 کے سیلاب کے بعد کی بحالی کے لیے عمل میں لانا ہے۔ جس کو ہم 4 R یا چار آر کہتے ہیں۔ پہلے تو تھوڑا سا سمجہنا ہو گا کہ یہ چار آر فریم ورک ہے کیا، اور پھر اس پر غور کرنا ہو گا کہ ادارتی مغالطہ والے مائی باپ اس کو عمل میں کس طرح لائیں گے۔
اس سال جنوری کی نو تاریخ کو اقوام متحدہ اور پاکستان کی مشترکہ میزبانی میں جنیوا میں ’موسمیاتی ریزیلینٹ پاکستان‘ کے نام سے کانفرنس ہوئی۔ جس میں عالمی سطح پر 9 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد اور قرضہ کے وعدے کیے گئے۔ پاکستان کی 16 ارب ڈالر کی ضرورت کو سمجھا گیا اور عالمی اظہار یکجہتی کیا گیا۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں یہ اک سفارتی اور سیاسی کامیابی تھی۔
اسی کانفرنس سے کچھ دن ہی پہلے پاکستان نے چار آر فریم ورک l ڈھانچہ منظوری کے بعد ظاہر کر دیا تھا۔ کانفرنس کے اعلامیہ میں بھی اس کو اہم جگہ دی گئی۔ اس میں دیے گئے ترجیحات اور عمل درآمد کے انتظامات کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس کے 4 مقاصد کو محور بنایا گیا۔
پہلا مقصد یہ ہے کہ طرز حکمرانی کو بہتر بنا کر حکومتی اداروں کی صلاحیت بڑھائی جائے گی تاکہ وہ مصیبت زدہ اور غیر محفوظ ترین لوگوں کی زندگیاں اور روزگار کے مواقع بحال کر سکیں۔ دوسرا یہ کہ مجموعی طور پر اقتصادی امکانات اور روزگار کو بڑھاوا دیا جائے گا۔ تیسرا اہم مقصد یہ ہے کہ اس پورے عمل میں لوگوں کو اور خاص کر کمزور ترین طبقے کو شامل کیا جانا ہے۔ اور آخری مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ بنیادی سہولیات (تعلیم، صحت، پانی، بجلی، سواریاں وغیرہ) اور پورے تعمیراتی ڈھانچے (سڑکیں، پل، نکاسی آب اور ملکی معیشت کو جاری رکھنے والی تعمیرات) کو پہلے سے بہتر، آفات کو جھیلنے کی بڑھی ہوئی قوت اور پائیداری کے ساتھ بحال کرنا ہے۔
ان چاروں مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں اک واضح پالیسی بھی بنانی ہے، اور پھر ادارتی ترتیب و تنظیم بہتر کرنی ہے، مالی حکمت عملی اور مالی انتظام کو شفاف بنانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معیاری عمل درآمد اور نظر داری بھی کرنی ہے۔ ہمارے ادارے، طرز حکمرانی اور افسر شاہی ایسے کام کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ بلکہ ان الفاظ کی نہ لغوی معنیٰ سمجھتے ہیں، نہ ادارتی اور انتظامی!
مجھے بھی ان الفاظ کی اتنی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ یہ میری کم عقلی اور کم علمی کی وجہ سے ہے۔ لیکن ان چار آر کو عام فہم بنانا ہے اور فیصلہ ساز اور عمل درآمد کرنے والے اداروں کو ان کو سمجھ کر ہی پھر آگے بڑھنا ہے۔ آئیں مل کر سمجھنے کی کوشش کریں کہ آخر چار آر سے مراد ہے کیا۔
ریزیلینٹ۔ ریکوری: پہلے ریکوری کو آفات کے حوالے سے کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آسان اردو میں ریکوری کی معنیٰ ’بحالی‘ ہے، دوسری معنیٰ وصولی بھی ہے۔ یہ ’وصولی‘ اپنے عمل میں ہمارے اداروں میں مکمل فہم اور عمل کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ اس لیے ریکوری کی آفات کے حوالے سے ’بحالی‘ کے مطلب سے ہی سروکار رکھتے ہیں۔ کسی بھی آفت کے بعد آفت زدہ لوگوں کے لیے تباہ شدہ سہولیات، جس میں سڑکیں، ہسپتال، گھر، بجلی، پانی وغیرہ کو بحال کرنا اور ان کے ساتھ لوگوں کے سماجی حالات اور روزگار/کاروبار کی بحالی اور (پہلے سے ) بہتری کو ریکوری کہتے ہیں۔
یہ جو بحالی ہے وہ ریزیلینٹ بھی ہونی چاہیے! اس لیے اب ریزیلینٹ کو تھوڑا سا ادھیڑتے ہیں! یہ لفظ آفات کے بعد کی بحالی، آفات کے خطرات سے بچاؤ اور کمی، موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کے شعبہ جات میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اس کی کئی معنائیں ہیں، جو شعبے کے حوالے سے بیان کی جاتیں ہیں۔ مختصر یہ کہ کسی بھی سماج، معاشرے، ملک اور طبعی وجود کی یہ اہلیت کہ آفت کو پہلے سے بھانپ سکے، اس کے اثرات کو کم کر سکے اور اگر آفت آ جائے تو اس کو جھیلنے کے بعد ہر قسم کی زندگی کو رواں دواں کر سکے۔
یہ ریزیلینس کہلائے گا۔ لغوی معنیٰ کے لحاظ سے اس کو اردو میں لچک، نرمی اور ابھرنے کی قوت کہہ سکتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ سماجی، تعمیراتی، ماحولیاتی یا اقتصادی ریزیلینس ہوگی تو آفات کو برداشت کرنے کی قوت، اپنے آپ کو تبدیلیوں سے ہم کنار کرنے کی صلاحیت اور پہلے سے بہتر انداز میں زندگی کے عمل کو جاری رکھنے کی اہلیت ہوگی! نیز تبدیلی کے مطابق نظام کا ڈھلنا، اپنے آپ کو بہتر بنا کر چلتے رہنا اور آگے بڑھنا ’ریزیلینس‘ ہے۔
تو جناب! ہمیں ریزیلینٹ ریکوری، یا بحالی کرنی ہے۔
اب ہم اپنے تجربے اور تاریخ کو کریدیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے سیاسی، اقتصادی اور ادارتی نظام دن بہ دن کمزور ہوتے گئے ہیں اور ہمارا مجموعی ریزیلینس کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا ہے۔ بس اک بے یارو مددگار عوام ہے۔ عام آدمی والی عوام، جو خود ہی ہر آفت کے بعد اپنے آپ کو بحال کرنے کے جتن کرتی ہے! آفات کے سخت گھیرے میں رہتے ہوئے وہ مہنگائی اور بیروزگاری سے بھی نمٹتی ہے۔ اس عوام کو تھوڑی سہولت دینے کے لیے آئی ایم ایف کو بھی لالے پڑ جاتے ہیں۔
ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ کووڈ کے نتیجے میں صنعتی شعبے کے بڑے لوگوں کو ، اور ہر سال بیمار اور نکھٹو اداروں کو کئی سؤ ارب کی سبسڈی دی گئی اور دی جاتی ہے! بس بڑے لوگوں کی ریزیلینس کی فکر ہر اک کو پڑی رہتی ہے!
چار آر پر سمجھ کر عمل کرنا شاید پاکستان کی عوام کے لیے کہیں سے تازہ ہوا کا جھونکا لا سکے ؛ ان کی زندگی میں کچھ چیزیں اچھی بن سکیں جو ان کو بھی فائدہ دیتی ہوں!
باقی دو آر قدرے آسان ہیں۔ ریکنسٹرکشن اور ریہیبلیٹیشن: ’بحالی اور تعمیر نو‘ !
اگر اس مرتبہ بھی ان کاموں کو ویسے ہی کیا گیا جیسے عموما کیا جاتا ہے تو پھر شاید لوگوں کی بہتری کے لیے کچھ نہ ہو سکے۔ چار آر کی حاصلات کے لیے افسر شاہی، انجنیئر شاہی اور فیصلہ سازوں کو عرض کرنا پڑے گا کہ پہلے ان چار آر کی معنیٰ اور روح کو سمجھ لیں ؛ پھر دیکھیں جو پراجیکٹ بنائے جا رہے ہیں وہ ان چار آر کی موافقت میں ہیں یا مخالفت میں! جب ان کو عمل میں لایا جائے تو ہر قدم پر دیکھا جائے کہ نتیجتاً ریزیلینس بڑھ رہا ہے یا نہیں!
ہمارے دیمک زدہ طرز حکمرانی اور ادارتی نظام کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ لیکن متواتر آفات میں گھرے عوام کے لیے اس دفعہ یہ کرنا لازمی ہے۔ عالمی برادری کی نو ارب ڈالر کے وعدے، عالمی بنک کے منظور شدہ دو ارب ڈالر اور ایشیائی ترقیاتی بنک اور کئی اداروں سے رقوم ملنے کے امید اک مضبوط اقتصادی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ان ہی دنوں میں ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ دنیا سے پیسے لینا ہمارے لیے کتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے! اس لیے یہ پیسے لوگوں کے لیے ہیں اور ان پر ہی بہتر طریقے سے لگنے چاہیں!
ہمارے میڈیا ہاؤسز، سوشل میڈیا، ٹاک شو، ویلاگرز کو بھی عرض ہے کہ یہ جو غریب پاکستان کے لیے پیسا اور پراجیکٹ آرہے ہیں اس پر بحث و مباحثہ ہو۔ اس کی تشہیر ہو۔ ہم ان عام لوگوں کی بھلائی اور ترجیحات کو اپنی ابلاغی ایجنڈا میں کب شامل کریں گے! ؟ اس دفعہ چار آر، لوگوں کی بھلائی کے لیے آر پار ہونے چاہیں۔ 22 کروڑ غریب لوگوں کے جگر کے آرپار نہیں!
اس مضمون کی تیاری میں استفادہ کیا گیا :
RESILIENT RECOVERY, REHABILITATION, AND RECONSTRUCTION FRAMEWORK PAKISTAN (4RF)
( Government of Pakistan Ministry of Planning, Development and Special Initiatives- December 2022)
UN- Secretary General Note to Correspondents: Co-Chairs Summary International Conference on Climate Resilient Pakiatan- 9th January 2023
- طرز حکمرانی۔ کرکٹ سے لے کر کرکٹ تک - 16/11/2023
- تیاگی گئی محبتیں اور ذبح کی گئی شیر جوانیاں! - 23/06/2023
- میرے استاد محترم کا دکھ اور ان کی نئی نصیحت - 12/03/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).