جنرل پرویز مشرف


اپنے وقت میں جنرل مشرف کس قدر با اختیار اور طاقتور تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ نائن الیون کے بعد جب امریکہ سے حکم آیا فیصلہ کرلو یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف۔اس وقت ملک میں پارلیمنٹ تو موجود نہ تھی مگر مطلق العنان جنرل مشرف نے اپنے قریبی رفقا سے مشورہ بھی گوارہ نہ کیا اور پرائی جنگ میں ایندھن بننے کے لیے کمر کس لی۔کوئی شک نہیں کہ ملک میں اس وقت کوئی بھی حکمراں ہوتا امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ اسے ضرور کرنا پڑتا مگر جنرل مشرف نے یک طرفہ طور پر جس طرح دیدہ و دل فرش راہ کیا،ملک میں پارلیمنٹ اگر موجود ہوتی تو شاید اس جنگ میں ہماری شمولیت کی کچھ حدود و قیود طے ہو سکتی تھیں۔جنرل مشرف نے امریکا کو زمینی رستے،فضائی اڈے،انٹیلی جنس سپورٹ ہی نہیں دی بلکہ اخلاقیات کی ایسی دھجیاں بکھیرتے ہوئے افغان سفیروں کو بھی پکڑ کر امریکا کے حوالے کر دیا۔حالانکہ زمانہ جاہلیت تک میں سفیروں کو تحفظ حاصل ہوا کرتا تھا۔یہ جنرل مشرف کی ایسی لمحاتی غلطی تھی جس کی سزا وطن عزیز دو عشروں سے بھگت رہا ہے۔

فرد واحد کے ایک فیصلے کے نتیجے میں پورے ملک کی گلیاں اور بازار بارود و آہن سے اٹ گئے۔دو عشروں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی مسجدوں اور سجدوں میں گردنیں کٹ رہی ہیں۔کوِئی ایسا چوک چوراہا نہیں جو خون سے رنگین نہیں ہوا۔خوف کی ایسی فضا بنی کہ کسی مہذب ملک کا باشندہ ہمارے ہاں آنے کو تیار نہیں۔سرمایا کار بھاگ گئے،کھیلوں کے میدان ویران ہو گئے،اور اسی ہزار سے زائد لوگ دہشتگردی کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ جنگ پاکستانی معیشیت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالرز کے نقصان سے دوچار کر چکی ہے۔یہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستان کی ایک پوری نسل کا مستقبل اس خوامخواہ کی جنگ میں اتحادی بن کر تباہ ہو چکا۔ہماری معیشیت،سیاست،ثقافت،سیاحت،رواداری اور عالمی برادری میں اعتبار کا جنازہ نکالنے میں بھی اسی جنگ کا ہاتھ ہے۔ملک میں دہشگردی اور شدت پسندی پروان چڑھانے میں جنرل مشرف کی افغانستان کے محاذ پر پالیسی کا ہی کردار نہیں بلکہ جامعہ حفصہ کے ایشو میں غیر ضروری انا اور مس ہینڈلنگ بھی بہت بڑی وجہ ہے۔اس مسئلے کو حل کرنے میں جنرل صاحب کی انا آڑے نہ آتی تو نہ صرف بہت سی معصوم بچیوں کی جانیں بچ سکتی تھیں بلکہ رد عمل میں پیدا ہونے والی شدت پسندی کی لہر سے بھی ملک کو بچایا جا سکتا تھا۔ہمارے کچھ دوستوں کے نزدیک داڑھی پگڑی اور مذہبی سوچ رکھنے والے کا خون اتنی اہمیت کا حامل نہیں۔شاید اسی لیے وہ افغانستان اور جامعہ حفصہ کے مسئلے کو دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں اور جنرل مشرف کے ان اقدامات کے دفاع کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن بزرگ بلوچ رہنما اکبر بگٹی کا قتل جس انداز میں کیا گیا اس کا دفاع کس طرح کیا جا سکتا ہے؟اکبر بگٹی تو کوئی مذہبی رہنما بھی نہیں تھے وہ تو جمہوریت اور آئین و قانون پر یقین رکھنے والی شخصیت تھے۔ان کے ماورائے آئین قتل کی وجہ سے بلوچستان میں پیدا ہونے والی بد امنی و شورش آج تک ختم نہیں ہو سکی۔

جب تک جنرل مشرف صاحب اقتدار تھے ان کے سامنے آنکھ اٹھانے کی کسی میں مجال نہیں تھی مگر اقتدار جانے کے بعد بھی وہ اتنے طاقتور رہے کہ ان سے تادم مرگ کسی بات کا حساب نہیں لیا جا سکا۔یادش بخیر جنرل مشرف کے خلاف صرف ایک مقدمہ منطقی انجام کے قریب پہنچا تھا۔اس مقدمے کی بنیاد کسی بے گناہ کا قتل نہیں بلکہ آئین شکنی و سنگین غداری کے اقدامات تھے۔اس مقدمے کی بنیاد بھی بارہ اکتوبر نناوے کی بجائے نومبر دو ہزار سات میں آئین کی معطلی اور ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ تھا جس میں ملٹری ڈکٹیٹر جنرل مشرف کو آئین شکنی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔یہ فیصلہ سامنے آنے کے فورا بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے ردعمل آ گیا کہ “خصوصی عدالت کے اس فیصلے پر افواج پاکستان میں سخت غم و غصہ اور اضطراب ہے۔آئینی و قانونی تقاضے پورے اور جنرل مشرف کو حق دفاع فراہم کیے بغیر عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر چلائی گئی اور کیس عجلت میں نمٹا دیا گیا۔افواج پاکستان توقع کرتی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کو آئین کے تحت انصاف دیا جائے گا”۔حالانکہ پانچ سال سے زائد عرصہ یہ مقدمہ چلتا رہا اور اس دورانیے میں خصوصی عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو پیش ہونے کے متعدد مواقع دیے گئے۔لیکن وہ جان بوجھ کر اپنی صفائی میں بیان دینے کے لیے عدالت میں پیش نہ ہوئے۔اس کے بعد بھی پرویز مشرف کے پاس اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق موجود تھا۔وہ اگر سمجھتے تھے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا یا مقدمے میں کوئی قانونی سقم رہ گیا تھا تو کسی ریاستی ادارے کی آڑ لینے کے بجائے عدالت میں اپیل دائر کر سکتے تھے۔

یہ کہنا غیر ضروری تھا کہ فوج میں چالیس سال خدمات انجام دینے والے شخص کو غدار نہیں کہا جا سکتا کیونکہ فوج ہی سے تعلق رکھنے والے بڑے عہدوں پر فائز افسران کے کورٹ مارشل اور انہیں سخت سزائیں ملنے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔جنرل مشرف کو سزا بھی ان کے غیر قانونی اقدامات پر ملی تھی۔ویسے بھی کوئی شخص خواہ اس کی خدمات کی فہرست کتنی طویل کیوں نہ ہو وہ قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ماضی میں ہمارے ملک میں عدالتی حکم کی تعمیل میں ایک وزیراعظم موت کی سزا پاچکے ہیں اور دو وزرائے اعظم کو عہدوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔جس وقت یہ فیصلہ سامنے آیا ہم نے لکھا تھا کہ اس سزا پر عملدرآمد کی نوبت کبھی نہیں آئے گی۔اس گمان کی وجہ یہ تھی کہ وطن عزیز میں قانون کا اطلاق طاقتور طبقات پر کبھی نہیں ہو سکا۔اسی تاثر کے سبب ہمارے ہاں نظام عدل پر یقین متزلزل رہا جس کا اثر ریاست اور عوام کے سوشل کنٹریکٹ پر پڑتا رہا اور ریاست کو نا قابل تلافی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔لہذا علامتی طور پر ہی سہی مگر نظام عدل کی افادیت پر یقین مستحکم کرنے کے لیے اس فیصلے کو برقرار رکھنا ضروری تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments