ٹپال دانے دار پیالی میں بریڈ پٹ کا طوفان


ہمارے سپریم، اوہ معافی چاہتا ہوں، ٹپال دانے دار کے سامنے کسی عام شخص کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک ایسا شخص ہے جس کو دنیا جانتی ہے۔ مقبولیت کی انتہا پر ہے۔ بہت ہی ہینڈ سم ہے اور پر کشش ہے۔ جس حسینہ پر ایک نظر ڈال دے وہ کچھ عرصے کے لیے اسی کی ہو جاتی ہے، مطلب حسینہ نہیں نظر۔ بات صرف حسن تک محدود نہیں، عقل بھی اتنی ہے کہ ٹرمپ، مودی اور الطاف حسین ان کے آگے پانی بھرتے ہیں اور خود فردوس عاشق اعوان، مونس الہی اور شیخ رشید جیسے نابغوں کے علاوہ کسی بھی ایسے شخص سے رہنمائی لیتے ہیں جس کا اپنا ہوائی جہاز ہو۔

حسن اور عقل کے علاوہ بہت صاف گو، سیدھے سادھے اور ایسے روحانی راستے پر چلنے والے ہیں جو سیدھی لکیر کھینچ کر بنایا گیا ہو۔ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ ان کو کین کی چھڑی سے کوئی ڈرا دھمکا نہیں سکتا۔ دنیا جو بھی کہے، ان کو کین کی چھڑی اپنے کے گھر کی لونڈی لگتی ہے۔ پیار محبت، دوستی اور بھیک مانگنے کے موڈ میں ہوں تو ڈرائیور بن جاتے ہیں اور طبیعت میں اکتاہٹ آ جائے تو پھر ایم بی ایس جیسے شہزادے کو پنجابی سیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک پیج پر ہوں تو جنرل باجوہ کو کین کی چھڑی سمیت کندھوں پر اٹھا کر کے ٹو کی سیر کرا دیتے ہیں جو پیر سوہاوہ سے کسی طور بھی کم نہیں۔ اور اگر زیادہ لکیریں کھینچنے کی وجہ سے پیج پھٹ جائے تو پھر جنرل باجوہ کو استعمال شدہ نیپیوں والا شاپر پھینکنے کی بھی کہیں جگہ نہیں ملتی اور وہ گھبرا کر جاوید چوہدری کے کالموں میں پناہ مانگتا ہے، مطلب شاپر نہیں باجوہ۔

تو بات ہو رہی تھی ٹپال دانے دار پیالی میں بریڈ پٹ کے طوفان کی، پر کس کا دھیان جائے مقدمے کی جانب جب مدعی ایک ہی وقت میں دنیائے ہالی، بالی اور لالی وڈ کا اکلوتا لیڈر اور امید ہو۔ اس کے اسی اثر کو دیکھتے ہوئے امریکہ کانپتا ہو اور سازشیں کرنے پر مجبور ہو۔ ایمان دار اتنا ہو کہ اس کے صادق اور امین ہونے کی گواہی ثاقب نثار، احسن جمیل گجر اور فرح گوگی بھی دیتے ہوں۔ یہی معتبر گواہی ہمارے ٹپال تھانے دار کے ہاتھ، پاؤں اور دماغ باندھے ہوئے ہے۔ لیکن اکثر لوگوں کو فکر نہیں ہے۔ فکر انہیں ہوتی ہے جنہیں کوئی امید ہو اور امید انہیں ہو گی جو ٹپال دانے دار کی مہک اور ناانصافی کا شکار ہونے والوں کی چیخوں سے واقف نہ ہوں۔

ہماری ٹپال دانے دار کی تاریخ مقدمات کی تاریخوں، پیش گوئی بھری پیشیوں اور آئین سازی سے بھری پڑی ہے۔ باقی کارناموں میں ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنا، پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں مقرر کرنا، ہسپتالوں میں دوائیوں کا حساب کتاب لگانا، پرائیویٹ ہسپتال مالکان کے لباس کے معیار پر تبصرے کرنا، ٹیکس اور باقی معاشی معاملات کو طے کرنا، پاکستان کے عالمی معاہدوں کو تہس نہس کرنا، قانون کی بجائے مذہبی روایات کے حوالے دینا، سیاست دانوں اور سرکاری افسران کو صحن میں کھڑا کر کے ڈانٹنا اور اہم فیصلوں کے لیے باوردی وٹس ایپ کا انتظار کرنا شامل ہے۔ الیکشن دھاندلیوں اور مارشل لاؤں کے خیر مقدم کا تو ذکر ہی کیا۔ ہمارے ٹپال دانے دار اپنی روایات سے کبھی ہٹے نہیں۔

سپریم، معاف کیجیے گا، ٹپال دانے دار کے رنگ ہی نرالے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ اسی رنگ اور ذائقے کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے چھ ممالک میں افغانستان ہم سے پیچھے ہے۔ نیپال، سری لنکا، انڈیا اور بنگلہ دیش ہم سے بہتر ہیں تو کیا ہوا، ہمیں وہ پسند بھی نہیں۔ ہماری یاری ہی افغانستان ہے۔ ایک ابھرتی ہوئی اسلامی ریاست ہے۔ آخر کار یہ دنیا دیکھ پائے گی کہ ایک اصلی اسلامی ریاست کیا ہوتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اوریا مقبول جان نے تو غزوہ ہند کی سکیم میں بھی ضروری ترمیم کر لی ہے۔

ٹپال دانے دار، اس دفعہ نہیں بھولا اس لیے سپریم کہہ کر معذرت کی درخواست کی ضرورت نہیں پڑی، دنیا کا مشہور برانڈ ہے۔ دنیا کے 140 ممالک میں ٹپال دانے دار کا نمبر 129 واں ہے۔ بریڈ پٹ کو بہرحال انصاف ملے گا۔ ایک دفعہ ساڈے ویہڑے (ہمارے کورٹ یارڈ) میں آ جائے اور ایک آدھی تقریر سنا دے تو کیا ہی بات ہے۔ وہ سیدھی لکیر کھینچے یا یو ٹرن لے سارا کورٹ یارڈ ہی اس کا، وہ کوئی عام آدمی تو نہیں ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments