کچھ خاکے، کچھ باتیں


سوشل میڈیا نے ہمیں بہترین احباب میسر کیے، بہت سنا ہے کہ سوشل میڈیا لوگوں کے اخلاق بگاڑ رہا ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ کسی چیز کا مثبت یا منفی استعمال اس کی افادیت کا تعین کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے اطراف مخلص اور ادب پرور احباب کا حلقہ دیکھا۔ انہی احباب میں انوار احمد صاحب ہیں۔ انوار احمد پر اپنے گھریلو علمی ادبی ماحول کا اثر تو تھا ہی لیکن فیس بک کے ادب پرور احباب کی صحبت میں آپ کے لکھنے کی صلاحیت اجاگر ہوئی اور آپ کے قلم کی روانی نے آج اس کتاب کی صورت اختیار کی جس کا نام ”کچھ خاکے، کچھ باتیں“ ۔ سرورق دیکھ کر ہی ان کی نفاست طبع اور فن سے لگاؤ کا اندازہ ہوتا ہے رومی کی درگاہ پر صوفی رقاص کی مہارت اور محویت کو سمجھنے والا بہت نفیس اور ماضی پرست شخص ہو گا اور یہ رنگ انوار صاحب کی شخصیت کا خاصا ہے۔

کتاب کے مضامین میں پہلا حصہ ان خاکوں کا ہے جو ان کے اپنے پیارے ہیں۔ جن میں والدین کی شخصیت پر خاکے ان کی محبت اور عقیدت کا اظہار ہیں، والدین کے لیے بلا شبہ ہر شخص ایسی ہی عقیدت رکھتا ہے لیکن ان کے اپنے بھائیوں اور چچازاد بھائی پر خاکے الن بھائی اور ابن بھائی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، خاکہ نگاری کی تمام جزئیات سے پر کیا خوب لکھا ہے پڑھ کر الن بھائی اور ابن بھائی کا سراپا اور پوری شخصیت نگاہوں میں گھوم جاتی ہے، جبکہ کسی سے بھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی اور یہی خاکہ نگاری کا وصف ہے۔

آپ کا انداز بیاں سادہ اور دل پذیر ہے، تحریر کی خوبی ہے کہ پڑھنے والا اس میں ڈوب جاتا ہے اور اس منظر کا حصہ بن جاتا ہے۔ والدہ کے ساتھ سفر عمرہ بہت روح پرور تحریر ہے، ایک فرمانبردار بیٹے کی سب سے بڑی آرزو ہی ماں کو عمرہ یا حج کروانے کی ہوتی ہے اور اللہ نے یہ سعادت آپ کو نصیب کی۔ آپ کی خوبی ہے کہ عام سیدھے سادھے انداز میں اپنا مافی الضمیر بیان کر دیتے ہیں۔ تحریر کی سادگی، بے ساختہ پن پڑھنے والے کے دل و دماغ میں سرایت کر جاتا ہے۔

کراچی شہر سے ان کی وابستگی ہم سب کی مشترکہ صنف ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی نظر کراچی کے حالات پر بہت گہری ہے، اپنے طالب علمی کے دور میں جماعت اسلامی سے وابستگی پھر ایم کیو ایم کا دور، اب تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی کراچی پر اجارہ داری کو وہ نا صرف سمجھتے ہیں بلکہ اپنے مضامین میں بہت سچائی اور دیانت داری سے بیان بھی کرتے ہیں، بنا کسی جماعت کی طرفداری کے۔ آپ برے اور بھلے سب اثرات من و عن تحریر کر دیتے ہیں پڑھنے والا سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ یہ بات تو میرے دل میں بھی تھی۔

مجھے ذاتی طور پر ان کی ایسے موضوعات پر تحاریر بہت پسند ہیں کیونکہ موجودہ نسل کو اچھے برے سیاسی ماحول سے روشناس کروانا ہم لکھاریوں کا ہی کام ہے۔ کچھ موضوعات پر مختصر بلاگز لکھے ہیں چاہتے تو بہت کچھ لکھ سکتے تھے لیکن جو بھی لکھا ہے وہ پر اثر اور دل میں اتر جانے والا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مزاج کے مطابق لکھتے ہیں، اسی وجہ سے ہمہ موضوعات پر لکھتے ہیں، ماضی پرست ہیں اس لیے ماضی کی یادوں کو بھی اپنی تحریر کا حصہ بنایا ہے۔

کتاب کو کو ہاتھ میں لیتے ہی اس کی خوبصورتی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اپنے خاندان کی رنگین تصاویر اور کتاب کا انتساب والدین کے نام کرنا اچھی روایت ہے یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنے خاندان سے جڑا ہو، بہر حال اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ انوار احمد نے اپنے چنیدہ مضامین اس میں شائع کروائے ہم امید کرتے ہیں کہ مختلف موضوعات جن پر ان کے کئی بلاگز ہیں وہ اپنی کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں ضرور شامل کریں۔

حرف آخر یہ ہے کہ انوار احمد نے اپنی تحریروں کو آنے والے وقت کے لیے محفوظ کر لیا اس خوبصورت کتاب کی صورت میں یہ مصنف کا حق بھی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments