”تم اک پیسا دوگے تو وہ دس لاکھ دے گا!“ اور آکسفیم کی رپورٹ


’غریبوں کی سنو، وہ تمہاری سنے گا، تم ایک پیسا دو گے وہ دس لاکھ دے گا‘ ۔ محمد رفیع اور آشا بھوسلے کی آواز میں یہ دوگانا 1966 کی ’دس لاکھ‘ فلم سے ہے! شاعر پریم دھون تھے۔ ان کو شاید پتا نہیں تھا، غریب کی مدد کی صورت میں یہ دعا یا پراتھنا غریب اور امیر کے درمیان کتنی نا برابری پھیلا رہی ہے! غریب کے دیے گئے اک پیسے کے عیوض امیر کی دولت کو دس کروڑ مرتبہ بڑھنا ہے۔ اور اگر اس کو فیصد کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ 10 ارب فیصد بنتا ہے! شاعر نے نہ حساب لگایا ہو گا، نہ کچھ زیادہ سوچا ہو گا۔

آکسفیم ایک عالمی خیراتی اور غریب کی مدد کے لیے بنا ہوا بہت ہی معتبر ادارہ ہے۔ ان کی غریب اور امیر کے درمیان فرق کی جو رپورٹ 2023 جنوری کو شایع ہوئی ہے، وہ اس پراتھنا میں شامل بڑھاوے سے بھی کہیں زیادہ فرق بتا رہی ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھ کے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ سب انسانوں اور پرند و چرند کے لیے انصاف پر بنائی ہوئی یہ اللہ تعالیٰ کی دنیا میں انسان نے کتنی بڑی نا انصافی اور نا برابری کھڑی کردی ہے!

رپورٹ بتاتی ہے کہ کس طرح یہ دور، آفات اور مصیبتوں کی یلغار سے نوع انسانی کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس جدید اور سائنسی دؤر میں اب بھی 80 کروڑ لوگ رات کو بھوکے پیٹ سوتے ہیں۔ ویسے تو ہر سال دنیا میں غربت میں مجموعی طور پر کمی ہوتی تھی، لیکن پچھلے پچیس برسوں میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ غربت بڑھی ہے۔

کمال تو ہے کہ کووڈ کی وجہ سے پوری دنیا میں جب ترقی تقریباً رک گئی اور کئی جگہ پہ منفی گروتھ بھی ہوئی لیکن جو امیر ارب پتی تھے (ڈالروں کے حساب سے ) ، ان کے اثاثوں اور منافع میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ 2020 سے اب تک دنیا کے امیر ترین ایک فیصد لوگوں نے باقی ماندہ 99 فیصد آبادی کے مقابلے میں تقریباً دو تہائی زیادہ نئی دولت بٹوری! اگر ایک دن کی کمائی کا حساب لگائیں تو تقریباً 2.7 ارب امریکی ڈالر کے حساب سے امیروں کی دولت بڑھتی ہے۔ یہ رقم 1.7 ارب کام کرنے والوں مزدوروں اور ورکر کی مجموعی کمائی سے بھی زیادہ ہے! خوراک اور توانائی والی کمپنیاں اپنے منافع کو 2022 میں دوگنا کرنے میں کامیاب ہوئیں اور اپنے حصہ داروں (شیئر ہولڈرز) کو دو سو ستاون ارب امریکی ڈالر منافع کے بانٹ دیے۔

دنیا کے امیر لوگوں سے ٹوٹل ٹیکس 4 فیصد سے بھی کم آتا ہے۔ دنیا کے جتنے بھی ارب پتی ہیں (پاکستانی حساب میں کھرب پتی) ان میں سے آدھے سے زیادہ ان ممالک کے اندر رہتے اور بزنس کرتے ہیں، جہاں پر بچوں کو دی گئی وراثتی دولت پر کوئی بھی ٹیکس نہیں لگتا!

دنیا کے جو ارب اور کھرب پتی ہیں، اگر وہ 5 % ٹیکس دے دیں تو ایک سال میں 1.7 کھرب امریکی ڈالر وصول ہو سکتے ہیں، جس کے نتیجے دنیا کے دو ارب لوگوں کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا سے بھوک اور افلاس کے خاتمے کا راستہ بالکل ہموار ہو سکتا ہے!

ہم اپنے ملک میں دیکھ رہے ہیں، گرانی اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ 90 لاکھ سے زیادہ اور لوگ غربت کی لکیر کے پیچھے دھکیلے جا چکے ہیں! اس طرح ساری دنیا میں بھارت کے مردم شماری سے بھی زیادہ لوگوں کی مہنگائی کی وجہ سے کھانا اور جینے کی بنیادی اشیاء کی قوت خرید اور کم ہو کر رہ گئی ہے۔

پچھلے دو سالوں میں نیچے سے لے کر 90 فیصد دنیا کی آبادی نئی دولت کا صرف 10 فیصد حاصل کر سکے ہیں، اور باقی دس فیصد نے 90 فیصد نئی دولت حاصل کی ہے اور اگر سب کے اوپر ایک فیصد امیر ترین لوگوں کی نئی دولت کا اندازہ لگایا جائے تو وہ 63 فیصد بنتا ہے۔ اس طرح دنیا بھر کی دولت کا چند ہاتھوں میں آجانا پوری دنیا کے لیے سیاسی، سماجی، اقتصادی، ماحولیاتی/موسمیاتی اور اخلاقی مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ آکسفیم کی اس نئی بریف رپورٹ جو جاندار اور سائنسی اصولوں پر کی گئی تحقیق پر مبنی ہے، وہ بتاتی ہے کہ اقتصادی ترقی میں رکاوٹ، کرپٹ سیاست اور میڈیا، زنگ آلود جمہوریت اور سیاسی انتشار اور تفرقہ بڑھ جانے کا سبب بھی دولت کی اس تقسیم کے نتیجے ہیں۔

بڑے لوگوں، بزنس کرنے والوں، اشرافیہ، عالمی مالی ادارے اور اقتصادی سرمایہ داری نظام، عام لوگوں کو بڑا دھوکا دیتے آرہے ہیں کہ اس طرح بزنس کرنے اور صنعتیں چلانے کے نتیجے میں ٹرکل ڈاؤن افیکٹ۔ سب تک ذرہ ذرہ کر کے اقتصادی فائدہ پہنچتا ہے! سچ تو یہ ہے کہ یہ اقتصادی نظام انسان کو حقیقی جمہوریت، آزادی اور جینے کا مساوی حقوق دینے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔

ایک اہم بات جو رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا ایک آواز ہو کر یہ عزم کرے کہ آج سے لے کر 2030 تک دنیا کے ارب پتی (ڈالر) لوگوں کی تعداد کو آدھا کیا جائے۔ یہ ہدف 1 % امیر ترین لوگوں پر اضافی ٹیکس لگا کر کیا جا سکتا ہے! ان کی تعداد آدھی ہونے کے بعد بھی آج سے 10 سالہ پہلے کی تعداد یعنی 2012 جتنی ہو جائے گی۔

اگر دنیا کے ڈالروں میں کروڑ پتی لوگوں کو دو سے تین فیصد، دنیا کے ارب پتی (ڈالر والے ) لوگوں پر 5 فیصد ٹیکس لگایا جائے تو دنیا سے غربت اور افلاس کچھ سالوں میں ہی ختم ہوجائیں گے، آفات سے لڑنے کی صلاحیت بڑھ جائے گی، موسمیاتی تبدیلی کی تباہیوں کوکم کرنے جیسے اہم کام کیے جا سکیں گے اور ترقی پذیر اور غریب ممالک بہتر انداز سے آگے پڑھ سکیں گے!

آفات اور مصیبتوں کی صورت میں ہمیشہ تاریخی طور پر امیر لوگوں پر زیادہ ٹیکس لگائے جاتے تھے۔ کووڈ کے دوران ایک عجیب بات ہوئی ہے کہ دنیا کے تقریباً 95 فیصد ممالک میں بڑی کارپوریشن اور امیر ترین لوگوں پر ٹیکس پہلے سے بھی کم لگائے۔

دنیا کے امیر لوگوں کی اچھی خاصی تعداد بھی امیر ترین لوگوں پر ٹیکس لگانے کے حق میں ہے۔ آکسفیم کے کیے گئے سروے کے مطابق آفریقہ کے 69 فیصد، بھارت کے 50 فیصد اور برازیل کے 85 فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ امیر ترین لوگوں پر اضافی ٹیکس لگے!

کچھ امیر ترین لوگ بھی اس خیال سے متفق ہیں اور دنیا کے ایک سؤ کروڑ پتی اس خط پر دستخط کر چکے ہیں، جس میں امیر ترین لوگوں پر اضافی ٹیکس کی استدعا کی گئی ہے!

آکسفیم کی یہ باتیں ہوا میں نہیں ہیں، انہوں نے فوربز اور ویلتھ ایکس کا ڈیٹابیس استعمال کیا ہے، جن کی شماریات اور تحقیق کو عزت سے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

ہم نے پاکستان میں دیکھا کہ جو امیر ترین تھے، کووڈ کے نتیجے میں ان کو سب سے زیادہ فائدے اور رعایت دی گئی۔ پھر 2022 کے سیلاب کی آفت نے غریب پاکستان کو اور بھی ڈبو دیا۔ اب بھی ہم اقتصادی طؤر پر کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی دنیا کی طرح غریبوں کی تعداد میں تقریباً ایک کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ کیا ہمارے پاور اور ملک کے مالک فیصلہ ساز جو اتفاقاً امیر ترین بھی ہیں یا امیر ترین لوگوں کا خیال رکھنے والے ہیں وہ اپنے خرچے کم کر کے غریب لوگوں کے لیے مداوا بنیں گے۔ یا اب بھی ایک پیسے کے عیوض یا پھر صفر کے عیوض دس لاکھ، دس کروڑ اور دس ارب چاہتے ہیں؟!

اس مضمون کی تیاری میں استفادہ کیا گیا:

Oxfam Briefing paper- January 2023 ”Survival of the Richest- How we must tax the super-rich now to fight inequality


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments