افراتفری، مزاحمت اور عوامی دانشور


بظاہر ضیا الحق کی آمریت کے خلاف مزاحمت کرنا بہت ہی مشکل کام تھا۔ میں نے لاہور کے شاہی قلعے میں عقوبت کا نشانہ بننے والوں کے انٹرویو کیے۔ جام ساقی مرحوم سے ان کی قید تنہائی کے احوال بھی سنے۔ نفسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے دل پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں جب ان عظیم لوگوں کی باتیں سنتے ہوئے ان کی جگہ پر خود کو رکھ کر سوچتا تھا تو روح تک کانپ کر رہ جاتی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ اس عقوبت کا نشانہ بننا گوارا کیا تھا۔

ان ہستیوں سے میری ملاقات نوے کی دہائی میں ہوئی تھی۔ اپنی پوری دیانتداری کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ انہوں نے جو کیا وہ غلط تھا۔ جی۔ انہیں اس بات پر افسوس ضرور تھا کہ ان کی صعوبتوں کا حاصل حصول وہ نہ نکلا جس کی انہیں تمنا تھی۔ یہ گلہ بھی ضروری تھا کہ قائدین نے انہیں مایوس کیا۔ مزاحمت کے اسلوب پر بھی کچھ اصحاب اپنے جائز سوالات رکھتے تھے۔ مگر مزاحمت کرنے کے سوال پر تمام تر مشکلات کو برداشت کرنے کے بعد بھی سب نازاں تھے۔

ان تمام عظیم لوگوں کی عظیم تر مساعی کا نہ تو کوئی اجر دیا جا سکتا ہے اور نہ ان کا شکریہ ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی سماج کے ماتھے کا جھومر اور سر کے تاج ہوتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کے مستقبل کی سمتوں کا تعین کرتے ہیں۔ روزی روٹی اور ذاتی مفادات سے ماورا جاکر اجتماعی مفادات کے لئے ذاتی قربانیاں دینے والے ہی حقیقت میں انسان کہلانے کے مستحق اور اہل ٹھہرتے ہیں اس لیے ان کی کسی بھی سماج میں موجودگی پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم اور ان کی جدوجہد کو جتنا زیادہ دہرایا جائے آئے ناکافی ہوتا ہے۔ لیکن آج اخبار پڑھتے ہوئے، خبریں سنتے ہوئے اور تجزیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لگتا ہے کہ شاید یہ سب کچھ نسبتاً آسان تھا۔

غلط مت سمجھئے میں ان حضرات کی کوششوں کی نہ تو توہین کر رہا ہوں اور نہ ان کے مقام اور مرتبے کو گھٹانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ صرف یہ عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ سن اسی کی دہائی میں ان عظیم مزاحمت کاروں کے لیے کام اس لیے آسان تھا کہ انہیں معلوم تھا کہ راولپنڈی کے ایک دفتر میں براجمان ضیا الحق ہے جس کے بہیمانہ دور حکومت اور غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد کرنا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ جیل میں بند ایک ایسا کردار بھی ان کے سامنے تھا جس نے ممکن ہونے کے باوجود قابض فوج سے مفاہمت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یعنی مزاحمت کس کے خلاف کرنی ہے یہ بھی معلوم تھا اور کیسے کرنی ہے یہ بھی پتہ تھا۔ مگر آج یہ دونوں سوال سامنے کھڑے ہیں اور جواب ندارد۔

آج کوئی یہ بتلانے والا بھی موجود نہیں ہے کہ مزاحمت کیوں اور کس کے خلاف کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے۔ لوگ باگ جس ادارے کو خرابی کی وجہ سمجھتے تھے وہ تو ”غیر سیاسی“ ہونے کا تاثر دے کر دبیز کمبل کے نیچے چھپ چکا ہے۔ اب مزاحمت کس کے خلاف اور کیونکر کی جائے؟ یہ سوال بالکل نیا نہیں ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل سے ہی یہ سوال منہ پھاڑے دنیا کے سامنے کھڑا ہے۔ دنیا میں اس سوال کو دیکھنے، سمجھنے اور اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوششیں جاری ہیں مگر ہم نے اس بھیانک سوال کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھا تک نہیں ہے۔

اپنی بات کا ثبوت پیش کرتا ہوں۔ ضیا الحق کا دور اٹھائیے اور اس دوران میں کی جانے والی صرف مزاحمتی شاعری کو دیکھیے۔ سیاسی جدوجہد کی بات نہیں کر رہا۔ صرف شاعری کو دیکھیے۔ ایک سے بڑھ کر ایک بڑا شاعر، ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ میں صرف فیض اور فراز کی بات نہیں کر رہا میں کئی نوجوان اور نسبتاً گمنام شعرا کے ناموں اور اشعار کی ایک فہرست مرتب کر سکتا ہوں جس سے ثابت ہو گا کہ ضیا الحق کے غاصبانہ اور ظالمانہ حکومت کے خلاف جبر کے اس دور میں بھی خاموشی اختیار نہیں کی گئی۔

سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں ان سب لوگوں کو کیا ہوا یہ چپ کیوں ہو گئے۔ مان لیا کہ فیض صاحب جا چکے تھے۔ باقی لوگوں کی خاموشی کا سبب کیا تھا۔ کوئی یادگار شعر اس دور میں نہ کہا جا سکا۔ اس خاکسار کی رائے میں پاکستانی دانشور اور ادیب آمریت اور استعماریت کے اس نئے روپ کو مجموعی طور پر سمجھنے سے قاصر رہے۔ یہ دور اسی ہزار سے لے کر ایک لاکھ افراد تک کی جانیں نگل گیا۔ نامعلوم ہو جانے والے افراد کی تو شاید تعداد بھی کسی کو معلوم نہیں مگر کوئی نظر دست قاتل کو نہ دیکھ سکی۔

یہ دور اندرونی اور بیرونی طور پر استبداد کی ایک ایسی صورت سے عبارت ہے جسے آپ کنٹرولڈ افراتفری یا ہڑبونگ Controlled Chaos کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ جدید استعماریت ہے۔ جس میں حالات کو اس طرح الجھایا جاسکتا ہے کہ معاملات کی سادہ اور آسان تفہیم ممکن نہیں رہتی۔ نظام راکھ کی طرح بکھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے مگر اس نظام کے قاتل کا سراغ لگائے نہیں لگتا۔ ہر چہرے پر پارسائی، امانت و دیانت، حب الوطنی، اور خلوص نیت کا نقاب اور ہر ہاتھ پر دستانے چڑھے ہوتے ہیں۔ ایسے میں خرابی کی نوعیت اور ذمہ داروں کا نظروں سے اوجھل ہونا غیر فطری نہیں ہوتا۔

ہو سکتا ہے یہ افراتفری اور ہڑبونگ معاملات کا ایک فطری پڑاؤ نظر آئے اور شاید یہ لگے کہ خرابی یہاں تک پہنچتے پہنچتے پہنچی ہے۔ اسی لئے کچھ خوش گمان اس خوش گمانی کا شکار نظر آتے ہیں کہ ہم نے خرابی کی انتہا دیکھ لی ہے اور اب اس کے بعد بہتری ہویدا ہوا چاہتی ہے۔ لیکن اب معاملہ ”لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے“ والا نہیں رہا۔ سنہ 80 کی دہائی میں وفات پانے والے فیض احمد فیض اپنے قارئین کو اس مصرعے کے ذریعے امید دلایا کرتے تھے تھے۔

مگر رات اور دن کے آنے جانے کی یہ شاعرانہ مثال اب کام نہیں کرتی۔ کیونکہ شام کی طوالت اب کنٹرول کی جا سکتی ہے۔ شب تار کو مزید دبیز اور طلوع سحر کو مزید دور کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو آپ ضرور جانتے ہیں کہ اب مصنوعی بارشیں برسائی جا سکتی ہیں۔ لیبارٹری میں بنائے ہوئے چاند اور سورج راتوں کو دن کر سکتے ہیں۔ انسانی خلیوں پر درج وراثتی تحریریں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ لیکن سائنس کی ترقی صرف ان دریافتوں تک محدود نہیں ہیں۔

انسانی رائے کو تبدیل کرنے اور تشکیل دینے کے نئے طریقوں کو دیکھیے۔ آپ کے خیالات کو تبدیل کرنا اور ان میں افراتفری، بے چینی اور اضطراب پیدا کرنا اب سوشل سائنسز کے ماہرین کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سوشل سائنسز اور سوشل میڈیا کے اشتراک سے تشکیل پاتے یہ نئے انتظامات یقیناً آپ کی نظروں سے اوجھل نہیں رہے ہوں گے۔ معاشرے میں متشدد رویوں کی نشو و نما کے مظاہرے آپ اپنی سڑکوں اور محلوں میں دیکھ چکے ہیں۔ معاشرتی گروہوں کی تقسیم در تقسیم، اور اس تقسیم میں موجود انتہا پسندی بھی آپ کے مشاہدے میں ہے۔ پرویز مشرف دور تک ان لوگوں کی اکثریت تھی جو سیاسی معاملات پر کوئی واضح رائے نہیں رکھتے تھے۔ 2013 کے بعد ہر کوئی کوئی سیاسی امور کا ماہر بن گیا۔ اور اب سیاسی معاملات سے مایوس افراد کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کیا آپ کے خیال میں ایسا خود بخود ہو جاتا ہے؟

اس ضمن میں یہ خاکسار مذہب اور مذہبی لوگوں کی مثالیں بھی دے سکتا ہے لیکن اس سے گفتگو کے جذباتی ہونے احتمال ہمیشہ لاحق رہتا ہے۔ لیکن اتنا تو بہرحال پوچھا جا سکتا ہے کہ قتل و غارت پر آمادہ فرقہ ورانہ گروہ اب کہاں غائب ہیں؟ وہ خود غائب ہوئے ہیں یا کر دیے گئے ہیں؟ ان فرقہ ورانہ گروہوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی وہ مذہبی نفرت و عداوت جس نے نسلیں تباہ کر دی تھیں اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی۔ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے کس نے ہاتھ رنگے اور کیوں؟

اب آئیے اس سوال کی جانب جس کی خاطر اس تمہید سے آپ کو زیر بار کیا گیا۔ اس کنٹرولڈ افراتفری اور ہڑبونگ کے دور میں مزاحمت کا اسلوب کیا ہو سکتا ہے؟ عوامی دانش اور دانشور پر گفتگو آج کل چرچے میں ہے۔ جس معاشرے میں عوامی دانشور کی تعریف نہ ہو سکے اس معاشرے میں اس کا وجود اور کارفرمائی کیسے ممکن ہو گی؟ کوئی صوفی کو، کوئی ادیب اور شاعر کو اور کوئی سیاستدان اور تو اور صحافیوں کو بھی پبلک انٹیلیکچوئل یا عوامی دانشور سمجھتا ہے۔

کیا میں ان سب طبقات کی کارگزاری گنواؤں اور بتاؤں کہ کب کس صوفی، صحافی، کس شاعر اور کس سیاستدان نے کیا کیا اور کون کون سے ”کارہائے نمایاں“ انجام دیے ہیں۔ خود سوچیں ذاتی، فرقہ ورانہ اور طبقاتی مفادات میں لتھڑے ہوئے یہ سب لوگ کیا عوامی دانشور کا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ گزشتہ دو دہائیوں میں سماجی سائنس نے کون کون سی نئی دریافتیں دنیا کے سامنے رکھی ہیں ان سے ناواقف لوگ کیا ہمیں یہ سمجھا سکتے ہیں کہ اس ہڑبونگ اور افراتفری کے ماحول سے معنی اخذ کر کے معاملات کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟

کیا مختلف سیاسی اور مذہبی گروہوں سے ہمدردی اور وابستگی رکھنے والے یہ افراد سماجی افراتفری میں مختلف گروہوں کے کردار کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کر سکتے ہیں جو عوامی دانشور کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک ہے۔ کیا اسلام کی سربلندی اور ریاست مدینہ کے قیام کے داعی اور دعوے دار آپ کو یہ بتا سکتے ہیں کہ افراتفری کے اس ماحول کو تشکیل دینے کے لیے مذہب کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے؟

آپ کے لئے روزی روٹی مشکل کر دینے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ آپ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے قابل نہ رہیں۔ آپ کی جمع پونجی ہر روز بغیر خرچ کیے گھٹتی رہے۔ مستقبل کے اندیشے روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھتے چلے جائیں۔ اعلی تعلیم یافتہ افراد یا تو ملک سے ہجرت کر جائیں یا پھر ملک میں رہ کر صرف روزی کے حصول کی فکر میں ڈوبے رہیں تاکہ ملک اور معاشرے کو اپنی مرضی سے بغیر کسی مزاحمت کے چلایا جا سکے۔ سوچنے سمجھنے لوگ یا تو ملک میں نہ رہیں اور جو رہ جائیں وہ بے بسی اور لاچاری کی اس ذہنی کیفیت کا شکار ہوں کہ ان کے لیے معاملات سے لا تعلق ہوئے بغیر کوئی چارہ نہ رہے۔

میں عرض یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ نا تو یہ سب کچھ اچانک ہو رہا ہے اور نہ ازخود۔ معاملات کو اس جانب ایک سوچے سمجھے منصوبے سے لے جایا جا رہا ہے۔ اگر کوئی تجزیہ نگار آپ کو اس کے علاوہ کچھ اور کہہ رہا ہے تو میرا اصرار ہے کہ وہ آپ کو مرض کی بجائے اس کی علامتوں میں الجھا رہا ہے۔ وہ اصل کھلاڑیوں کی بجائے کٹھ پتلیوں گفتگو کر رہا ہے۔

معاملات کل بھی پاور سینٹرز چلاتے تھے آج بھی وہی چلا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کاروباری طبقات معاملات کو پس پردہ رہ کر کنٹرول کرتے اور سیاستدان ان کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں پاور سینٹر بیک وقت ملک کی سب سے بڑی کارپوریشن بھی ہے اور تنخواہ دار فوج بھی۔ سیاستدان ان کے دروازے پر قطار بند آلہ کار اور شراکت داری کے طلب گار ہیں۔ صحافی ان دونوں کی پارٹنرشپ سے تشکیل پانے والی افواہ ساز فیکٹریوں کے ملازم ہیں۔

ہر وہ شخص جو پاور سینٹر کے جتنے قریب ہے اس کے سازش میں شریک ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہیں۔ معاملات میں شریک کسی بھی کھلاڑی پر یقین اور اعتماد افراتفری کے اس دور میں سب سے بڑا دھوکا ہے۔ اس دور کی مزاحمت پاور سینٹر، اس کے شراکت داروں اور اس کی نظر کرم کے منتظر افراد اور اداروں سے دوری اور برا ت کا اظہار اور اس کا بآواز بلند اعلان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments